Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Masoom Bachon Ko Dozakh Mein Na Dhakelain

Masoom Bachon Ko Dozakh Mein Na Dhakelain

مولانا مودودی کا مشہور جملہ ہے، غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں۔ درست بات ہے، ایک غلطی دوسری کو جنم دیتی ہے اور اس سے تیسری غلطی پھوٹتی ہے۔ اسی لئے سیانوں نے یہ جملہ تخلیق کیا کہ غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہیے۔ بھئی ایک غلطی پہلے سے بچے دربچے پیدا کئے جارہی ہے، اگر اسی غلطی کو دہرائیں گے تو پھر ہر طرف چھوٹی بڑی غلطیاں ہی نظر آئیں گی۔ خیر کسی مورخ نے جو لگتا ہے عسکریات کے لئے کچھ نرم گوشہ رکھتا تھا، اس نے پاکستانی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ڈکٹیٹر اپنے سے پہلے والے ڈکٹیٹر کی غلطی نہیں دہراتے۔ دلیل کے طور پر حوالہ دیا کہ ایوب خان کی اولاد نے انہیں دوران اقتدار شرمندہ اور بدنام کرایا تو جنرل ضیا الحق نے اپنی اولاد کو منظرنامے سے بالکل ہی غائب رکھا، موت کے وقت بہت سوں کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ مرحوم ڈکٹیٹر کے کتنے بچے ہیں۔ مورخ کی دلیل کا براہ راست جواب تو نہیں دیا، مگر کسی ستم ظریف نے فقرہ کہا، "ہاں وہ پرانی غلطیاں نہیں کرتے، سوچ سمجھ کر نئی غلطیوں کا مرتکب ہوتے ہیں۔"فقرہ مزے کا ہے، دلیل اس کی کیا دینی، سب واضح ہے، ہماری تاریخ سامنے ہی ہے۔

عمران خان ڈکٹیٹر نہیں، سیاستدان ہیں بلکہ بیس پچیس سالہ سیاسی جدوجہد کی گٹھڑی کاندھے پر دھرے گھومتے ہیں۔ ڈکٹیٹروں اور سیاستدانوں کے بارے میں ان کے خیالات ملے جلے ہیں۔ ماضی کا ایک ڈکٹیٹر ایوب خان انہیں بے حد پسند ہے، ایک اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سخت مخالف رہے ہیں۔ جنرل ضیا کے حوالے سے خان صاحب بات کرنے سے گریزاں رہے ہیں، کہیں کچھ پڑھا، سنا نہیں۔ ایک بات البتہ انہوں نے ہمارے ڈکٹیٹروں سے مستعار لی ہے کہ وہ ہر بار نئی غلطی، نئے بلنڈر کرنے کے حامی ہیں۔ ان میں ایک اور خوبی کمال درجے کی ہے۔ وہ اپنی ٹیم کے ہر ممبر کے بارے میں لگتا ہے تفصیلی معلومات حاصل کرتے ہیں، اس کی شخصیت، سوچ، فکر، طرزعمل کا تجزیہ۔ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ کون سا کام اچھے طریقے سے کر سکے گا۔ اس کے بعد یقینی بناتے ہیں کہ اسے وہ ذمہ داری نہ سونپی جائے۔ ایسا کام کرنے کو دیا جائے جو اس نے کبھی کیا، نہ کر سکتا ہو۔ اس کی مثال کیا دینی، ڈھیر لگا ہے، ٹیلہ نما ڈھیر۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے شروع کریں اور صوبائی، وفاقی وزرا کو ایک ایک کر کے جانچتے جائیں، جواب مل جائے گا۔

اگلے روز ایک نشست میں چند دوستوں کے ساتھ تھا۔ اتفاق سے سب تحریک انصاف کے حامی تھے، بلکہ نہایت مستقل مزاج قسم کے سپورٹر۔ خاکسار کو آپ سابق حامی سمجھ لیں یا دلبرداشتہ مایوس حامی۔ دوران گفتگو موضوع گھومتے گھماتے خان صاحب کی کارکردگی پر آگیا۔ عرض کیا کہ خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیشہ اس پر زور دیتے تھے کہ رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب۔ بدقسمتی سے اقتدار کے تین برسوں میں انہوں نے ایک بھی ایسی اچھا تقرر نہیں کیا، جس کو سراہا جا سکے۔ سوال پوچھا کہ ایسی کوئی تقرری ہے تو ضرورمعلومات میں اضافہ کیا جائے۔ ہمارے دوست سوچوں میں غلطاں رہے مگرتلاش کے باوجود کوئی قابل فخر تقرری نہ ڈھونڈ سکے۔ خان صاحب کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ کا تقرر ہے۔ کہاں مفتی منیب الرحمن جن کی علمیت کے باعث ان کے مخالف بھی احترام کریں، کہاں وہ صاحب جن کی اپنے مسلک میں کوئی نہیں سنتا، نہیں مانتا۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں علمی اداروں پر قابل صد تحسین تقرر ہوئے تھے۔ مقتدرہ قومی زبان پر افتخار عارف، اردو سائنس بورڈ کے لئے ناصر عباس نیئر، قومی لغت بورڈ میں عقیل عباس جعفری وغیرہ۔ خان صاحب کے دور میں علمی، ادبی اداروں کے حالات کیا سنورنے، الٹا اصلاحات کے نام پران کی بندش کا امکان پیدا ہوگیا ہے، جو تقرر ہوئے وہ بھی مذاق بنے ہیں۔

وزیراعظم صاحب کے اسی "قابل فخر" انتخاب میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اورپنجاب کے وزیرتعلیم مراد راس بھی شامل ہیں۔ جناب مراد راس کو ان کے نام کی مناسبت سے جو خطاب سوشل میڈیا صارفین نے دیا ہے، وہ ان سے مخفی نہیں ہوگا۔ شفقت محمود اور پنجاب کے وزیر تعلیم نے بڑے سوچ بچار کے بعد تعلیمی ادارے تو کھول دئیے ہیں، مگر کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اتنی شدید گرمی میں بچے کیسے پڑھیں گے؟ درجہ حرارت بعض شہروں میں چالیس سے زیادہ اور کئی جگہوں پر پنتالیس تک چھو رہا ہے۔ جون کے یہ دن سال کے گرم ترین دن شمار ہوتے ہیں، ہمیشہ ان سخت گرم جھلسا دینے والے دنوں سے پہلے ہی سکولوں کی چھٹیاں ہوجاتی ہیں۔ شائد یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایسے گرم دنوں میں سکول کھلے ہیں۔ دو دن ہی گزرے، مگر بچوں کے والدین سخت پریشان ہوگئے ہیں۔

اصولی طور پر تو سکول کھولنے کے اعلان سے پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اس شدید گرمی میں سکول ٹائمنگ کیا ہوں؟ ابھی تک کالجوں میں اپریل والی ٹائمنگ یعنی آٹھ سے ڈیڑھ بجے تک کا وقت چل رہا ہے، بعض سکولوں میں یہی اور کہیں ساڑھے بارہ تک کا وقت ہے۔ سرکاری سکولوں، کالجوں کی مجبوری ہے کہ جب تک سرکار حکم نہ دے، کچھ کر نہیں سکتے۔ نجی سکولوں میں سے اکثر لکیر کے فقیر ہیں اور آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم۔ میری بیٹی گرلز کالج پڑھتی ہے، پیر کو وہ کالج گئی۔ میرے مشورے پر پانی کی دو تین بوتلیں ساتھ لے گئی، ایک بوتل اس نے رات ہی کو فریزر میں رکھ کر جما لی تھی۔ دوپہر کو لوٹی تو ہوش اڑے تھے۔ کہنے لگی کہ کئی لڑکیاں بے ہوش ہونے کے قریب تھیں۔ بعض کا خیال تھا کہ کالج کینٹین سے کچھ لے لیں گے، مگر اکثر جگہوں پر ابھی کینٹین فنکشنل نہیں ہوئی۔ پانی گھر سے لے بھی جائیں تو کتنی دیر تک وہ ٹھنڈا رہ سکتا ہے؟ پیر کو مراد راس نے سکولوں میں پہلی جماعت سے آٹھ تک پیپرز(سکول ایسسمنٹ) کا شیڈول ٹوئٹ کیا، یہ اٹھارہ جون سے تیس جون تک کا ہے۔ یعنی حکومت بقائمی ہوش وحواس بچوں کو جون کا پورا مہینہ سکولوں میں بھیجنا چاہتی ہے۔ اس ٹوئٹ کے نیچے سینکڑوں کمنٹس میں وزیر موصوف پر سخت تنقید تھی اورفیصلے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ویسے مجھے حیرت ہے کہ ایسا ظالمانہ فیصلہ کرنے والے شفقت محمود اور ڈاکٹر مراد راس کیا نہیں جانتے کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں، کالجز میں کیا حالات ہیں؟ بیشتر جگہوں پر بچوں کے لئے ٹھنڈے پانی کے کولر نہیں، گرم جھلستی ہوا پھینکنے والے چھت کے پنکھے ہیں اور بہت جگہوں پر بجلی بھی چلی جاتی ہے۔ کیا محترم ڈاکٹر مراد راس لاہور کے کسی بھی سرکاری سکول کی کسی بھی کلاس میں ایک دن کے لئے بیٹھ سکتے ہیں؟ یہی سوال شفقت محمود سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے اچھے خاصے مہنگے نجی سکولوں میں بھی کم وبیش یہی حالات ہیں۔

میرے منجھلے بیٹا علاقے کے ایک نجی سکول میں پڑھتا ہے، یہ ایک ٹرسٹ ہے اور اس وجہ سے فیسیں نسبتاً مناسب ہیں۔ انہوں نے اپنے طور پر ایک فیصلہ کیا اور سکول کی ٹائمنگ صبح سات سے دس بجے رکھی ہیں۔ سات بجے صبح سکول پہنچنے کے لئے بچوں کو کچھ جلدی تو تیارکرانا پڑتا ہے، مگر موسم کی شدت دیکھتے ہوئے یہ مناسب شیڈول ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ہر جگہ اسی طرح کی ٹائمنگ کرانی چاہیے۔ سات سے دس یاساڑھے دس بجے تک۔ یہ نویں دسویں کلاس کی بات کر رہا ہوں جن کے بورڈ کے پیپرز ہونے ہیں جبکہ پرائمری کلاس کے بچوں کوتو ویسے بھی چھٹیاں دے دینی چاہئیں۔ اس گرمی میں معصوم بچے کیسے جا سکتے ہیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ کورونا نے زندگیاں بری طرح متاثر کی ہیں، پچھلے سال بچوں کو مجبوراً پروموٹ کرنا پڑا اور اس سال دوبارہ ایسا کرنا مشکل ہے۔ نجی سکولوں کے مالکان اور سٹاف بھی مالی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ باتیں سب کے سامنے ہیں، اس کے باوجود یہ سوچنا چاہیے کہ تعلیم اہم ہے، مگر بچوں کی زندگیاں بہرحال ہر چیز پر مقدم ہیں۔ معصوم جانوں سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ حکومتی فیصلوں میں کامن سینس پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ زمینی حالات سے بے نیاز ائیر کنڈیشنز کمروں میں بیٹھ کر بے رحمانہ فیصلے کرنا حکومت کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ خان صاحب کے سب سے بڑے دشمن ان کے اپنے ساتھی اور وزیر ہیں۔ افسوس کہ اس فہرست میں وفاقی اور وزیرتعلیم پنجاب بھی شامل ہوچکے ہیں۔