Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mayoos Kun Rad-E-Amal

Mayoos Kun Rad-E-Amal

مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ وزیراعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ان کے سیاسی مخالفین کے ردعمل نے شدید مایوس کیا ہے۔ پاکستان میں پچھلے چارپانچ برسوں سے جیسی سیاسی تقسیم بڑھی ہے، اس صورتحال میں اپنے مخالفیں کے کسی اچھے اقدام پر سراہنے کی توقع کم تھی، مگر بہرحال یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایسی دیدہ دلیری سے سامنے کی چیز کا انکار کیا جائے گا۔ بعض چیزیں، بعض کام امر واقعہ ہوتے ہیں۔ ایک چیز ہوئی ہے تو ہوئی ہے، اس کا انکار آخر کیوں کیا جائے؟ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور اقتدار میں موٹر وے کی نیو ڈالی، اس وقت اس پر تنقید ہوئی۔ میاں صاحب کی اپوزیشن کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی رقم فضول ضائع کی جا رہی ہے، جبکہ اتنے سکول، کالج، ہسپتال بنائے جا سکتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ فیصلہ درست تھا۔ آج موٹر وے کے مختلف منصوبے مکمل ہو رہے ہیں او رجو شہر اس سے جڑے، ان کی تقدیر ہی بدل گئی۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

عمران خان کی ایک سالہ دور حکومت میں بہت سی غلطیاں، کمزوریاں مل جائیں گی۔ صرف خان صاحب کی جانب سے اہم عہدوں پر تقرر کے معاملے کو دیکھ لیا جائے، تنقید کے لئے خاصا مواد مل جائے گا۔ عمران خان کی خوبیوں اور ان کے درست اقدامات سے انکار کرنے کا البتہ کوئی جوازموجود نہیں۔ سچ یہ ہے کہ جنرل اسمبلی میں عمران خان نے ایک غیر معمولی تقریر کی۔ ان سے توقع تھی کہ وہ کھل کر، بلند آہنگ بولیں گے۔ ان کے حامی بھی مگر یہ خیال نہیں کر رہے تھے کہ خان صاحب ایسی مہارت، مدلل اور غلطی سے پاک جامع تقریر کر لیں گے۔ وہ عمران خان کا دن تھا۔ انہوں نے یادگار تقریر کر ڈالی۔ عمران خان کی اپوزیشن ظاہر ہے اس سے خوش نہیں ہوئی۔ ن لیگی، پیپلزپارٹی رہنمائوں اور مولانا فضل الرحمن جیسوں کی دل گرفتگی اور غصے سے بھڑکتے داخلی بھانبھڑ کو سمجھنا مشکل نہیں۔ مولانا عمران خان کو یہودی ایجنٹ اور ناموس رسالت ﷺ پر سودابازی کرنے والے شخص کے طور پر ثابت کرناچاہتے تھے۔ امریکہ میں عمران خان نے توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے ایسا شاندار، جامع علمی مقدمہ پیش کیا کہ بڑے بڑے علما دین اور مفتی صاحبان شائد ایسا نہ کر پائیں۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن رہنما اور عمران خان کے سیاسی مخالف ورکر حضرات اس تقریر کو مناسب الفاظ میں سراہتے اور پھران کی وطن واپسی کے بعد داخلی مسائل کے حوالے سے تنقید کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیتے۔ جس میں اتنی اخلاقی جرات یا سمجھ بوجھ نہیں، اسے چند ایک دنوں کے لئے خاموش ہی ہوجانا چاہیے تھا۔ ہمارے اپوزیشن لیڈروں نے مگر ہمیشہ کی طرح قوم کو شدید مایوس کیا۔ بلاول بھٹو کا بیان سب سے کمزور تھا۔ بغیر کسی دلیل کے عمران خان کی تقریر کو رد کر دیا۔ نوجوان بلاول سے ہمارے ہاں ایک حلقے کو کچھ امیدیں تھیں کہ آکسفورڈ سے پڑھا، بھٹو کا نواسا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا موقعہ ملنے پر کچھ کر دکھا ئے گا۔ الا ماشااللہ بلاول نے ہر اہم موقعہ پر یہی ثابت کیا کہ ان کا نام بلاول زرداری ہی ہے اور اسے بدل کر بلاول بھٹو کرنا غلط تھا۔ وہ زرداری صاحب کے شیڈو سے نکل ہی نہیں پا رہے۔ اپنے والدہ اور نانا کے مطالعے، ذہنی بیداری اورویژن کی معمولی سی جھلک بھی نوجوان بلاول میں نظر نہیں آئی۔ سنا ہے کہ ان کے لئے کئی اساتذہ اور سیاسی اتالیق مقرر کئے گئے، تقریر کرنے سے لے کر فقرے بازی اور کارکنوں کا دل موہ لینے کے مختلف طریقے سکھائے گئے۔ بھٹو صاحب کی تقریریں بار بار دیکھی، سنوائی گئیں۔ ایک مشہور عرب جنگجو کے حوالے سے واقعہ پڑھا۔ ان کی تلوار تیز دھار اور کاٹ کی وجہ سے شہرت رکھتی تھی۔ ایک جنگ میں ساتھی نے وہ تلوار مستعار لی۔ جنگ کے بعد اس نے مایوسی سے کہا جیسا شہرہ سنا تھا، ویسا نہیں پایا۔ عرب جنگجو نے برہمی کے عالم میں تلوار لی اور کھڑے اونٹ کی ایک ہی وار میں گردن اڑا دی۔ پھر وہ فقرہ کہا جسے عرب کلاسیکی ادب میں جگہ ملی، میں نے تلوار دی تھی، اپنا ہاتھ نہیں دیا تھا، قصور تلوار کا نہیں چلانے والے کا ہے۔ بات یہ ہے کہ بھٹو کے انداز میں قمیص کے کف کھول کر پرجوش تقریر کرنے، گلا پھاڑ پھاڑ کر مخصوص جملوں، الفاظ کی تکرار کرنے سے ممکن ہے کوئی جلسہ گرما لیا جائے، لیکن بھٹو نہیں بنا جا سکتا۔ بھٹو کا ویژن ان کی خداداد ذہنی صلاحیت، بیدار مغزی، وسیع مطالعہ اور غور وفکر سے بنا۔ بھٹو نے اہل علم اور صاحب مطالعہ لوگوں سے بلاوجہ تعلق اور دوستی نہیں رکھی تھی۔ وہ اہل علم کی اہمیت سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، میاں محمود علی قصوری وغیرہ سے ان کا قریبی تعلق بے مقصد نہیں تھا۔

بلاول کے آس پاس کون ہیں، کس کی فکر سے وہ متاثر ہیں؟اگلے روز ایک صاحب علم دوست سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ کبھی آپ نے بلاول بھٹو کے منہ سے کوئی پڑھی لکھی، دانشورانہ بات سنی ہے؟ کسی دانشور، سکالر کو گفتگو میں کوٹ کیا ہو، کسی نئی چھپنے والی مشہورکتاب کا ذکر کیا ہو، نمائشی طور پر ہی سہی کبھی کتاب کے ساتھ تصویر بنوائی ہو؟ظاہر ہے میرا جواب نفی میں تھا۔ کہنے لگے کہ بھٹو صاحب اس زمانے میں ہزاروں روپے کی کتابیں امریکہ، یورپ سے منگواتے، بے نظیر بھٹو بھی کتاب پڑھنے والوں میں تھیں۔ اپنے آپ کو باخبر رکھتیں۔ کئی علمی سیاسی اصطلاحات انہوں نے عوامی سطح پر متعارف کرائیں۔ جیسے نیو سوشل کانٹریکٹ کی بات وہ بار بار کرتی تھیں، ان کی وجہ سے یار لوگوں نے یہاں فرانسیسی فلاسفر روسو کو پڑھنا شروع کر دیا، جس نے سوشل کانٹریکٹ (معاہدہ عمرانی) کی بات کہی تھی۔ بلاول بھٹو پر لگتا ہے اپنے" عظیم "والدکے گہرے اثرات ہیں، کتاب سے جن کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا ردعمل اور مولانا فضل الرحمن کی برہمی سمجھ میں آنے والی ہے۔ مجھے حیرت میڈیامیں ان کے حامی تجزیہ کاروں، لکھاریوں پر ہے، جنہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ تقریر کی تعریف تو ہرگز نہیں کرنی، مگر اس پر تنقید کس طرح کی جائے؟عجیب عجیب زاویے تراشے گئے، نت نئے حیلے، مضحکہ خیزدلائل۔ یہی حال سوشل میڈیا پر ملا۔ تقریر کے بعد دو تین گھنٹوں تک تو کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ یوں لگتا تھا جیسے ن لیگی میڈیا سیل بھی بھونچکا رہ گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد اوسان بحال ہونے لگے۔ شروع میں ایک فقرہ اچھالا گیا کہ تقریر اچھی کر لیتا ہے، عمل کر کے دکھائے تو پتہ چلے۔ علامہ اقبال غریب ہر موقعہ پر مدد فراہم کر دیتے ہیں، ان کے شعر سے رہنمائی لی گئی کہ خان صاحب گفتار کے غازی ہیں۔ گویا کردار کے غازی تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اربوں لوٹ کر لندن میں فلیٹ خریدے یا جو پاپڑ والے، ریڑھی والوں کے فیک اکائونٹس سے اربوں کی منی لانڈرنگ کرتے رہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نیا تیر پھینکا کہ کشمیریوں کو آزادی چاہیے، تقریر سے ان کا کیا بنے گا، کیا کشمیر آزاد ہوجائے گا؟ ان سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا تقریر نہ کرنے سے یا تھکی ہوئی پھسپھسی تقریر کرنے سے کشمیر نے آزاد ہوجانا تھا؟اگلے روزسوشل میڈیا میں نئی لائن نظر آئی کہ ہمیں تقریر نہیں عمل چاہیے۔ اب عمل سے ان کی مراد شائد کوئی سائنسی تجربہ ہوگا؟ سوچتے ہوں گے کہ جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعدعمران خان امونیا گیس بنانے کا تجربہ دکھاتے یا منہ سے اچانک پستول برآمد کر کے ہوائی فائرنگ شروع کر دی جاتی۔

سوشل میڈیا پر ایک باقاعدہ مہم یہ چلی کہ عمران خان کو چینی مسلمانوں یعنی سنکیانگ میں ہونے والے مظالم نظر نہیں آئے، یمن کے معاملے پر بات نہیں کی اور کشمیر کا کہا تو دنیا اسے تضاد سمجھے گی۔ یک صاحب نے یہ کہا تو اس سے پوچھا، آپ کو معلوم ہے چین میں سنکیانگ کے علاوہ بھی مسلمان بستے ہیں؟ اس پر وہ دائیں بائیں جھانکنے لگے۔ انہیں بتایا کہ سنکیانگ کے علاوہ چین میں دس کروڑ کے قریب ہن مسلمان رہتے ہیں جو چینی النسل ہیں، ان کا کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا، آخر کیوں؟پھر سمجھایا کہ یمن یا سنکیانگ کے معاملے پر اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد منظور ہوئی ہے جو کشمیر کا اس سے موازنہ کر رہے ہیں؟عمران خان نے بار بار یہ کہا کہ اقوام متحدہ ہی نے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا، اس پر عمل درآمد بھی اقوام متحدہ ہی کی ذمہ داری ہے۔ کیا یمن یا سنکیانگ میں ایسا کچھ ہوا؟ دوسرا ان دونوں معاملات میں صورتحال وہ نہیں جو دور سے نظر آرہی، پیچیدہ معاملات ہیں اور ہرگز یمنی مظلوم یا معصوم نہیں۔ یمن کے حوثیوں نے یمن کی باقاعدہ قانونی حکومت گرا کر ناجائز قبضہ کیا، جبکہ سنکیانگ میں علیحدگی پسند تحریک چل رہی ہے، جس کی ہم پاکستانی کیسے حمایت کر سکتے ہیں؟

گزشتہ روز ایک معروف تجزیہ کار کے بارے میں سنا کہ انہوں نے نریندر مودی کی تقریر کو عمران خان کی سپیچ سے بہتر قرار دیا۔ سن کر شدید حیرت ہوئی۔ تعصب اچھے بھلے لوگو ں کو برباد کر دیتا ہے۔ یہ سب لوگ صرف اتنا سوچ لیتے کہ یہ عمران خان کی نہیں بلکہ پاکستانی وزیراعظم کی کامیابی ہے اور چند دنوں بعد داخلی مسائل اور ایشوز پھر سے زندہ ہوجائیں گے، وزیراعظم پر تنقید کے بہت سے مواقع مل جائیں گے۔ افسوس اِتّا سا صبر بھی ہم نہیں کر پاتے۔