یہ خاصا پہلے کی بات ہے۔ لگ بھگ بیس سال پہلے، جب آتش جوان تھا۔ آتش کو تو ویسے اب بھی جوانی پر اصرار ہے، مگر کیا کریں بالوں میں تیزی سے اترتی چاندی اس دعوے کو" کھلا تضاد " بنا دیتی ہے۔ خیر ان دنوں ایک قومی اخبار کے نیوز روم میں کام کر رہا تھا، یکے از جونیئر سب ایڈیٹرز سمجھ لیں۔ نیوزروم میں مرکزی کردارشفٹ انچار ج کا ہوتا ہے، ادھر اُدھر سے خبریں اسی کے پاس جمع ہوتی ہیں اور وہ مختلف سب ایڈیٹرز کو الگ الگ ایشوز پر خبریں دیتا ہے۔۔ آج کل تو جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہے، جن دنوں کی بات کر رہا ہوں، تب مینوئل سسٹم رائج تھا۔ شفٹ انچارج اپنے ہاتھ سے خبر کسی کو دیتا تھا۔ شفٹ انچارج ایک لحاظ سے اس سلطنت کا شہزادہ تھا، نیوز روم کی پوری نائٹ شفٹ کا نگران۔ نوجوان سب ایڈیٹر اپنے شفٹ انچارج کو رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔
ہمارے نیوز روم میں ایک صاحب شفٹ انچارج تھے، جبکہ ان کے بعد ایک" کو شفٹ انچارج" تھا، جس کی ذمہ داری شفٹ انچارج کی چھٹی والے دن شفٹ سنبھالنا تھی۔ ہوا یوں کہ شفٹ انچارج صاحب اخبار چھوڑ گئے۔ ان کی جگہ ان کی معاونت کرنے والے کو شفٹ انچارج بنا دیا گیا۔ اس پر ہمارے ایک ساتھی بڑے ناراض ہوئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنی مہارت، صلاحیت اور(نظر نہ آنے والے کسی)ٹیلنٹ کی بنیاد پر انہیں شفٹ انچارج بنایا جاتا۔ کئی دنوں تک وہ منہ پھلائے رہے۔ لاہور پریس کلب دفتر کے قریب ہی تھا، اکثر لوگ کھانا کھانے وہیں چلے جاتے۔ ایک روز کھانے سے واپسی پر میں نے انہیں سمجھایا کہ جو کچھ ہوا، یہ فطری اور منطقی ہے۔ آپ اگر اپنے آپ کو اس سیٹ کے لئے موزوں سمجھتے تھے تو دو سال پہلے اعتراض کرتے جب آپ کی جگہ کسی اور کے ذمے" کوشفٹ انچارج" یا ڈپٹی شفٹ انچارج کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ اسی دن یہ طے ہوگیا کہ مستقبل میں کسے منصب ملے گا۔ آپ تب تو خاموش بیٹھے رہے اور اب خفا ہوئے بیٹھے ہیں۔ بات ان کی سمجھ میں آ گئی، خاموش ہوگئے۔
ورلڈ کپ کے لئے پاکستانی ٹیم کے اعلان پر ہونے والے احتجاج کو دیکھ کر مجھے یہ پرانا واقعہ یاد آگیا۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک غدر مچا ہے۔ بعض کو شکوہ ہے کہ سرفراز کو ڈراپ کر دیا۔ کچھ اس پر تلملا رہے ہیں کہ عثمان قادر کو شامل نہیں کیا گیا اور شاہنواز دھانی کو کیوں نہیں لیا گیا؟ خوشدل شاہ اورآصف کی شمولیت پر بھی کئی اعتراضات ہیں، سابق کپتان معین خان کے بیٹے اعظم خان کی سلیکشن پر تو خاصا شور مچا ہے۔ اس ہنگامے کے ساتھ ہی قومی ٹیم کے دو سال سے کام کرنے والے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بائولنگ کوچ وقار یونس بھی استعفا دے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مہینے بعد ورلڈ کپ ہے اور اب وہ تمام لاکھوں کروڑوں کے مالی فوائد حلال کرنے کا وقت ہے جو یہ کوچز دو سال لیتے رہے۔
سوشل میڈیائی گروپوں اور سائٹس پر لکھنے والے زیادہ تر لوگوں کے تین چار اعتراضات ہیں۔ محمد عامر کو شامل نہیں کیا، وہاب ریاض کو کیوں نہیں کھلایا گیا؟ عثمان قادر کو چانس دینا چاہیے تھا، جبکہ شعیب ملک کہاں ہے اسے کیوں نہیں لیا گیا؟ حیدرعلی کے مداح اس کو شامل نہ کرنے پر شکوہ کناں ہیں۔
بات مگر وہی ہے کہ موقعہ تو اسے ہی ملے گا جو اِن ہے۔ جسے کھلایا جا رہا ہے، اس پر محنت ہو رہی ہے۔ محمد عامر نے خود ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، اسے کیسے کھلایا جا سکتا ہے؟ پھرحالیہ پی ایس ایل میچز میں عامر کی بائولنگ کی مایوس کن اوسط ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہاب ریاض تو پچھلے ڈیڈھ سال سے ٹیم کے پلان ہی میں نہیں۔ وہاب ریاض کو بہت مواقع ملے، ہر بار وہ اپنی خراب کارکردگی کی بنیاد پر ڈراپ ہوا، اب بڑھتی عمر کی وجہ سے ٹیم مینجمنٹ کی پلاننگ میں اسے زیرغور ہی نہیں لایا گیا۔ یہی بات شعیب ملک کی ہے، انہیں بھی ڈیڑھ دو برسوں سے ٹیم سے باہر رکھا ہوا ہے اور مینجمنٹ نے ورلڈ کپ کے پلان میں شعیب ملک کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ احتجاج یا تنقید تو تب کرنا تھی، اب کیا فائدہ؟
عثمان قادر اچھا لیگ سپنر ہے، مگر تجربے کی کمی اور اپنی بائولنگ پر مکمل کنٹرول نہ ہونے کے باعث وہ ٹی ٹوئنٹی میچز میں ناقابل اعتماد ہے۔ کسی بھی اوور میں دو تین چھکے کھا سکتا ہے اور ایسی صورت میں مخالف پاور ہٹر پر قابو پانے کا ہنر ابھی نہیں سیکھا۔ عثمان کو ٹیم کے ساتھ رکھا گیا، مگر اسے بھی مسلسل مواقع نہیں دئیے گئے۔ عثمان قادر کی مسابقت شاداب خان سے ہے جو نائب کپتان ہونے کے ساتھ اچھے آل رائونڈر اور بہترین فیلڈر ہیں۔ شاداب کی بائولنگ میں بھی اب بہتری آئی ہے اور اسے کس طرح ڈراپ کیا جا سکتا ہے؟ ٹیم میں دوسرا سپیشلسٹ سپنر محمد نواز ہے جو نہ صرف امارات کی پچوں پر وسیع تجربہ رکھتا ہے بلکہ اس کی حالیہ کارکردگی بھی اچھی رہی ہے۔ رہا حیدرعلی تو اسے بھرپور مواقع ملے، دو تین سیریز میں ناکام ہونے پر ڈراپ کیا گیاسال سے باہر ہے، اب اچانک کیسے شامل کر لیتے؟
اخباری اطلاعات کے مطابق مصباح الحق کو بھی یہ اعتراض پیدا ہوا کہ شاہنواز دھانی کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا اور اعظم خان کو کیوں لیا گیا۔ اگر یہ خبر درست ہے تو مصباح خود اس کے ذمے دار ہیں۔ شاہنواز دھانی اچھا فاسٹ بائولر ہے، مگر اس نے ابھی تک ایک بھی انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں کھیلا۔ حالیہ پی ایس ایل کا وہ بیسٹ بائولر رہا، بیس وکٹیں لیں۔ دھانی کو مگر ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے بجائے ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ مصباح الحق ہیڈ کوچ تھے، وہ اس پر خاموش رہے اور دھانی کے لئے بالکل ہی فائٹ نہیں کی۔ دھانی کو انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی سیریز میں ٹی ٹوئنٹی میچز کے لئے شامل کرنا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا، کوچ اس پر خاموش رہے۔ اب دھانی کو ورلڈ کپ کے لئے بغیر کسی تجربے کے کیسے شامل کیا جاتا جبکہ اس سے بہتر آپشنز دستیاب ہوں۔ اسے البتہ ریزور میں رکھا گیاہے، ممکن ہے قسمت یاوری کر جائے۔ اسی طرح اعظم خان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں انگلینڈ، ویسٹ انڈیز سیریز کے لئے شامل کیا گیا، تب تو مصباح الحق نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اعظم خان ناتجربہ کار ہیں، وہ اوورویٹ ہیں اور ان کی فٹ نیس بھی مثالی نہیں۔ یہ اعتراضات مگر مصباح کو تب اٹھانے چاہیے تھے۔
ٹیم سلیکشن اتنی بری نہیں، زیادہ تر کھلاڑی وہی ہیں جو پچھلے دو ڈھائی برسوں سے کھیل رہے ہیں، ظاہر ہے میگا ایونٹ کے لئے انہی تجربہ کار لڑکوں کو موقعہ ملے گا۔ حسنین اور حارث روئوف مسلسل کئی سیریز کھیلے ہیں۔ ٹیم مینجمنٹ نے ان پر انویسٹمنٹ کی، محنت کی، ورلڈ کپ بھی ظاہر ہے انہیں ہی کھلانا پڑے گا۔ شاہین شاہ، حسن علی، بابر، رضوان، حفیظ، شاداب، عماد وسیم یہ سب مسلسل کھیل رہے ہیں۔ صہیب مقصود نے پی ایس ایل میں شاندار کھیل پیش کیا، امارات کی پچوں پر اسے وسیع تجربہ ہے۔ انگلینڈ میں وہ لمبے رنز نہیں کر سکا، وہاں بھی مگر اس نے ہٹنگ اچھی ہی کی۔ فخر زماں کو البتہ ٹیم میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ ون ڈائون پر ان کی جگہ بنتی ہے۔ اعظم اور فخر کے مقابلے میں فخرکے پوائنٹس زیادہ بنیں گے۔ عثمان قادر کو اگر کھلانا تھا تو اسے مسلسل میچز دئیے جاتے، اب نواز ہی بہتر انتخاب ہے۔
اصل کمزوری ہماری ٹیم مینجمنٹ میں تھی۔ مصباح الحق جیسے نسبتاً سلو کرکٹ کھیلنے والے کو جارحانہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کوچ بنانا ہی غلط تھا۔ مصباح ماڈرن کرکٹ کا کوچ نہیں۔ وقار یونس بھی خود کو نہیں منوا سکے۔ عبدالرزاق کو عبوری طور پر ٹیم مینجمنٹ میں لایا گیاہے، مگر وہ ٹی ٹوئنٹی کے لئے بہترین انتخاب ہیں۔ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں تینوں فارمیٹ کی ٹیموں کو چیمپین بنوا چکے ہیں۔ رزاق کو سال ڈیڑھ پہلے وائٹ بال کوچنگ میں لایا جاتا تو بہتر نتائج نکلتے۔ مسئلہ ہمارے مڈل آرڈر میں ہے۔ وہاں بہتر آپشنز نہیں۔ پچھلے دو برسوں میں جن مڈل آرڈر بلے بازوں نے ڈومیسٹک میں رنز کئے، انہیں مواقع دئیے گئے۔ بدقسمتی سے انٹرنیشنل میچوں میں ناکام ہوئے۔ خوشدل شاہ، افتخار، حسین طلعت، آصف، صہیب مقصود، حیدر علی، دانش وغیرہ۔ انہی آزمائے ہوئوں کو بار بار کھلانا پڑتا ہے کیونکہ متبادل آپشنز موجود نہیں۔ اعظم خان کو بھی خلا موجود ہونے کی وجہ سے موقعہ ملا ہے۔
کمزوری ہماری مجموعی پلاننگ میں ہے۔ جو چیزیں ہمیں دو سال پہلے سوچنا چاہیے تھیں، وہ نہیں ہوسکیں۔ نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ مصباح الحق نے تھڑدلی کا مظاہرہ کیا اور وہ چیلنج قبول کرنے سے بھاگ نکلے، وقار یونس ان سے بھی زیادہ بزدل نکلے۔ مصباح کے پاس کورونا کی بیماری کا عذر تو ہے، وقار کے پاس وہ بھی نہیں۔ مصباح کوٹیم کی پلاننگ کرنے کے لئے دو سال ملے۔ وہ اچھا منصوبہ نہ بنا سکے، مگر جیسی بھی ٹیم بنائی، اب اسے لے کر ورلڈ کپ میں جاتے اور اپنی طرف سے پورا زور لگاتے۔ افسوس مصباح تاریخ کے ترازو میں تولے جانے پر ہلکے نکلے۔ مصباح کے ایک دیرینہ مداح کے طورپر مجھے مایوسی اور افسوس ہوا۔ اب قدر ت ہی ہر طرف سے چھائی مایوسی کی دھند میں امید کی کرن پیدا کرے تو کرے، قومی کرکٹ ٹیم کے ذمہ داران تو بری طرح ناکام ہوگئے۔