مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی زندگی کے اہم ترین چیلنج سے نبردآزما ہیں۔ ان کی کامیابی ہی سیاسی ساکھ اور عوامی پزیرائی کی ضامن ہوگی، جبکہ اندازے کی غلطی، کوئی ایڈونچر انہیں ہیرو سے زیرو بنا سکتا ہے۔ شائد یہی احساس مولاناکے اعصاب پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ وہ ایک گھاگ، تجربہ کار، گرم سرد چشیدہ سیاستدان ہیں۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں، واپسی کا راستہ کھلا رکھتے اور سیاسی یوٹرن لینے میں عار نہیں سمجھتے۔ اگرچہ ہرسمجھدار آدمی کی طرح وہ اسے یوٹرن نہیں کہتے اور نہ اس کا دفاع کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔ یہ سعادت ہمارے وزیراعظم عمران خان ہی کو حاصل ہوئی کہ انہوں نے یوٹرن جیسی منفی، طنزیہ سیاسی اصطلاح کو بخوشی قبول کیا بلکہ اس کے فضائل بھی بیان فرماتے رہے۔
مولانافضل الرحمن اب تک ہزاروں انٹرویوز دے چکے ہیں، بہت سے نامور صحافی اور اینکر ان کے ذاتی دوست ہیں۔ صحافیانہ سوالات ان کے لئے عام بات ہیں، اینکرز انہیں اشتعال دلانے، اپنی مرضی کی باتیں کہلانے میں اکثر بیشتر ناکام رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں جب معروف اینکر مہر بخاری کو دئیے گئے انٹرویو کا کلپ دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی۔ مولانا اس میں اپنے اعصاب اور ٹمپرامنٹ پر قابو نہ پا سکے۔ اینکر چبھتے ہوئے سوال پوچھتے ہیں، مقصد یہی ہوتا ہے کہ جواب دینے والا کچھ ڈسٹرب ہو اور اپنے گرد قائم کی گئی شیلڈ گرا کر باہر نکل آئے۔ سمجھدار سیاستدان ایسے وار خالی جانے دیتے ہیں۔ بہت سال پہلے بی بی (بے نظیر بھٹو) کا ایک انٹرویو دیکھا، غالباً ڈاکٹر شاہد مسعود اینکر تھے۔ یہ ان کا عروج کا دور تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے تیکھے سوالات پوچھے تو بی بی نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بعض سوالات کو نو کمنٹ کر کے فارغ کیا، ایک آدھ پر جوابی زوردار حملہ کیا اور چند ایک کے ایسے مسکت جواب دئیے کہ اینکر کے پاس کسمسانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان بھی اس حوالے سے استاد وں کا درجہ رکھتے تھے۔ سوال خواہ کچھ بھی کیا جائے، وہ کمال مہارت سے اپنے تمام سیاسی فلسفے اور حکمرانوں کے خلاف پوری تقریر اس میں گھما پھرا کر سما دیتے تھے۔ ساتھ ایک آدھ شعر بھی ٹانک دیتے۔ صحافی غریب شعر کی ضرب سے ایسا چکرا جاتا کہ احتجاج بھی نہ کرپاتا۔
پیر صاحب پگاڑا کی بزلہ سنجی، فقرے بازی مشہور تھی، مگر ان کے پاس مخصوص صحافی ہی جا سکتے تھے۔ پیر صاحب کی محفل میں ہرکوئی نہیں جا سکتا تھا، جسے اجازت ملتی، صرف وہی جاتا۔ معروف صحافی اظہر سہیل ان کے ساتھ قربت رکھتے تھے۔ پیر صاحب ایک بار ان کے گھر مہمان بھی ٹھیرے اور اس کا بوجھ میزبان پر زیادہ نہیں پڑا، ورنہ پیر پگاڑا کی میزبانی کااعزاز درجنوں افراد کی میزبانی اور لاکھوں کے اخراجات کی صورت میں نکلا کرتا تھا۔ خیر اظہر سہیل نے پیرپگاڑا کے طویل انٹرویو پر مبنی کتاب بھی شائع کی، پیر پگاڑا کی کہانی، کچھ ان کی، کچھ میری زبانی۔ اس میں اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ ایک بار میں نے پیر صاحب کا انٹرویو کیا اور اس میں کچھ ایسے سوالات کئے کہ انہوں نے بعض ایسے جملے بول دیے جن سے سنسنی خیز سرخیاں نکلتی تھیں، میں دل میں خوش تھا کہ آج پیر صاحب سے اگلوا لیا، کئی ماہ بعد پیر صاحب نے ایک ملاقات میں انکشاف کیا کہ وہ انٹرویو میں نے دانستہ دیا تھا اور کراچی ہی سے ذہن بنا کر آیا تھا کہ اس معاملے پر ہارڈ ہٹنگ کرنی ہے، تمہارے انٹرویو کے ذریعے مجھے وہ موقعہ مل گیا۔ کہنے کامقصد یہ تھا کہ صحافی کا کام خبر نکلوانا، سرخی بنوانا ہے جبکہ سیاستدان اپنی مرضی کی باتیں کہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ الٹا صحافی کو استعمال کیا جائے۔ میاں نواز شریف اس معاملے میں زیادہ گہرے نہیں، تلخ سوال پر ان کا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی مرضی کے صحافیوں کو انٹرویو دینا پسند کرتے اور اس میں بھی دو تین بار ریہرسل کر لی جاتی۔ عمران خان اس حوالے سے میاں صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ انہیں اپنے اوپر قابو نہیں رہتا۔ شروع کے زمانے میں تو ایک آدھ بار کسی گستاخ رپورٹر کو تھپڑ جڑ دیا تھا۔ بعد میں یہ تو کنٹرول کر لیا، مگر غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا شمار پختہ کار، تجربہ کار سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن سے کچھ اگلوانا آسان نہیں۔ مہر بخاری کو دئیے گئے انٹرویو میں مولانا کے اعصاب چٹخے ہوئے دکھائی دئیے۔ دو تین بار وہ جھنجھلائے۔ ایک آدھ بار تیز جملہ بھی نکل گیا۔ ان کی فرسٹریشن اور پریشانی ان کی باڈی لینگوئج سے جھلک رہی تھی۔ انہوں نے اعتراف بھی کر ڈالا کہ ہم دیوار سے لگے ہیں اور ایک انچ بھی پیچھے ہونے کی جگہ نہیں۔ تھوڑی سی بحث ہونے پر باقاعدہ مشتعل ہوگئے اور عمران خان کے لئے سخت جملے بول ڈالے۔ ان کی روایتی فصاحت بھی نظر نہیں آئی۔ جوا ب دیتے ہوئے لفظ ڈھونڈنے پڑ رہے تھے۔ مولانا کی اتنی غیر متاثر کن کارکردگی پہلے کم دیکھنے کو ملی۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ شدید دبائو میں ہیں اور ان کے اعصاب ٹوٹنے لگے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن بتدریج بند گلی کی طرف چلے گئے ہیں۔ جوکھیل انہوں نے شروع کیا، ان کے لئے اب اسے آسانی سے ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اس مارچ سے تین چار فوائد حاصل کئے۔ مارچ نے انہیں مرکزی رہنما بنا دیا۔ جو لوگ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو ایزی لے رہے تھے، اب ان کی رائے یکسر بدل چکی ہے۔ یہ بھی ان کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے اتنے لوگ اکٹھے کئے، اچھا خاصا بڑا مارچ کیا، اسلام آباد میں بڑا شو کیا۔ ان کا مارچ پرامن رہا، اسلام آباد کا دھرنا بھی ابھی تک پرامن ہے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ جے یوآئی نے نہ صرف اپنا روایتی ووٹ بینک مستحکم کیا، بلکہ جن علاقوں میں اس کی موجودگی نہیں تھی یا کم تھی، وہاں بھی کچھ نہ کچھ جگہ حاصل کی ہے۔ مولانا کو یہ سب فوائد حاصل ہوئے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ سوال یہ ہے جو سلسلہ شروع کیا ہے، اسے کس طرح اچھے طریقے سے ختم کیا جائے؟
مولانا نے اپنا بنیادی مطالبہ یہی رکھا کہ وزیراعظم مستعفی ہوں، حکومت ختم ہوجائے اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اب جبکہ وزیراعظم مستعفی ہونے کو تیار نہیں، نئے الیکشن کا بھی بظاہر کوئی امکان نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مولانا اب کیا کریں گے؟ ان کا پلان اے تو ناکام ہوگیا، ان کا پلان بی کیا ہے، کب وہ بروئے کارآئے گا؟ اس حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جے یوآئی کی تنظیمی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں مسلسل انہی نکات پر بحث جاری ہے۔ مولانا کے پاس آپشن بہت کم ہوچکے ہیں۔ انہیں اسلام آبا د آئے ہوئے دس دن ہوچکے، گیارواں روزہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے کارکنوں کو وہ کتنے دن مزیدروک کر رکھیں گے جو اسلام آباد کی اچھی خاصی سردی، بارشوں میں تنگ ہو رہے ہیں۔ مولانا اور ان کے ساتھیوں نے اب دو تین فیصلے کئے ہیں۔ اہم حلقوں کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں اور یہ دھرنا سیاسی ایشو ہے، اسے سیاسی طریقے سے حل ہونا چاہیے۔ اسے چیک کرنے کے لئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ مقصد یہ ہے کہ حکومت اپنے طور پر اس کا مقابلہ کرتی ہے یا ان کی کہیں سے مدد کی جاتی ہے۔ دوسری آپشن جس پر غور کیا جار ہا ہے وہ تو سراسر تصادم ہے۔ کہا جار ہاہے کہ مولانا ملک کی اہم شاہرائوں کو بلاک کر کے پورے ملک کو مفلوج کرنا چاہ رہے ہیں۔ موٹر وے، جی ٹی روڈ، انڈس ہائی وے وغیرہ بلاک کر دی جائے تو پنجاب، سندھ، کے پی کے بند ہوجائے گا۔ اس کا اشارہ مولانا اپنی تقریروں میں بھی دے چکے ہیں۔ اب وہ ملک بھر کو بند کرنے، شہر شہر بلاک کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہ رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو رہا ہے کہ اسلام آباد وہ اگلے دس دن بھی بیٹھے رہے تب بھی کچھ نہیں ہونا۔ ان کے دھرنے سے لوگ بھی رفتہ رفتہ کم ہو رہے ہیں، سردی بڑھ رہی ہے، لوگ بھی بور ہونے لگے ہیں، میڈیاکے لئے بھی ان کی خبر میں کشش نہیں رہی۔ گیارہ دن ہوگئے، سات آٹھ دن مزید بیٹھے رہے تب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ اب فرسٹریشن اور مایوسی انہیں تصادم کی طرف لے جا رہی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اس ٹکرائو کی صورت میں ان کی اپنی پارٹی بری طرح متاثر ہوگی، کارکن براہ راستہ نشانہ بنیں گے اور پھر پرتشدد حکمت عملی اپنانے پر ان کی سیاسی حمایت بھی کم ہوگی۔ مولانا کے لئے اصل مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ان کا اس پالیسی میں ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ اپنے طور پر وہ سڑکیں بند کر سکتے ہیں، مگر پھر وہ اکیلے ہی ہدف بنیں گے۔ اگر متحدہ اپوزیشن احتجاج کرے تب صورتحال مختلف ہوگی۔ ایسا مگر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ مولانا اس وقت بند گلی میں جا چکے ہیں۔ ان کے لئے آگے کوئی راستہ نہیں، دائیں بائیں گھومنے کی جگہ بھی موجود نہیں۔ واپسی کا راستہ ابھی ہے، چند دن گزر گئے تو وہ بھی نہیں رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا اس چیلنج سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں؟