مولانا فضل الرحمن کے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی مذاکرات آنیاں جانیاں ہی ہوتے ہیں۔ مختلف تجاویز پیش کی جاتی ہیں، پھر ان پر اعتراض، جواب در جواب، اس دوران اعلیٰ سطح سے مشاورت، پھر نئے ترمیمی نکات، پھر سے بحث۔ یہ سب چلتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں مذاکرات اسی کو کہتے ہیں۔
معروف امریکی صحافی باب وڈورڈ نے اپنی کتاب میں سابق پاکستانی سفیر اور متنازع صحافی کا ایک واقعہ سنایا۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی جیت چاہتے تھے، پاکستان عدم تعاون سے وہ ناخوش تھے۔ امریکی پاکستان پر ڈو مور کا دبائو ڈالتے، پاکستانی ہامی بھر لیتے اور پھر مزے سے اپنی فرمائشوں کی لمبی چوڑی فہرست تھما دیتے کہ یہ چیزیں فراہم کر دیں تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آسانی ہوسکے گی۔ اس پاکستانی صحافی نے ایک بار پریشان حال امریکی حکام کو بتایا کہ پاکستانیوں سے بارگین کرنے کے لئے آپ کو پہلے پاکستان میں قالین بیچنے والے پٹھانوں کا طریقہ کار سمجھنا ہوگا۔ امریکیوں نے پوچھا، اس معاملے میں قالین بیچنے والے پٹھان کہاں سے آ گئے؟ اس پرموصوف نے سمجھایا کہ یہ پٹھان قالین کی قیمت پہلے بیس ہزار بتاتے ہیں، پھر اس پر لمبی چوڑی بارگین ہوتی ہے، کم کرتے کرتے چار پانچ ہزار تک آ جاتے ہیں اور کبھی توکوئی ہمت والا خریدار وہی بیس ہزار والا قالین دو ہزار میں خرید لیتا ہے۔ پاکستانیوں کا یہی طریقہ کار ہے، وہ لمبی چوڑی فہرست دیتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات تو مانی جائے گی۔
بات مذاکرات کی ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں یہ بھی اکثر ہوتا ہے کہ زور شور سے دو نوں اطراف کی مذاکراتی کمیٹی مذاکرات میں مصروف ہوتی ہے۔ کبھی ایک جگہ، کبھی دوسری جگہ، مختلف لیڈروں کی اہم ملاقاتیں چلتی رہتی ہیں۔ یہ سب مگر صرف سموک سکرین اور رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ اصل مذاکرات کہیں دور، پس پردہ، خفیہ مقامات پر چلتے ہیں۔ جب ادھر بریک تھرو ہو جائے، تب ایک تحریری معاہدہ یا اعلامیہ مذاکراتی کمیٹی کو بھی پکڑا دیا جاتا ہے کہ کیمروں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ چہروں پر سجا کرپڑھ دیا جائے۔ امید کرتا ہوں کہ ہمارے سمجھدار قارئین یہ سوال نہیں پوچھیں گے کہ اس بار کیا ہو رہا ہے؟ جو کچھ ہے، سامنے آ ہی جائے گا۔
میری تشویش اس سے مختلف ہے۔ سیاست، صحافت کے ایک طالب علم کے طور پر سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن نے جب اپنا آزادی مارچ شروع کیا تھا تو کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اپنے مارچ کے اختتام پر وہ ایسے ہی ایک Dead End پر کھڑے ہوں گے، جہاں سے راستہ کہیں پر نہیں نکلتا۔ صرف واپس ہی ہونا پڑے گا اور اتنی زیادہ توقعات، بلند وبانگ دعوئوں کے بعد واپسی کس منہ سے ممکن ہوگی؟جانتے بوجھتے، سوچتے سمجھتے مولانا نے اپنے جانثار ساتھیوں کو ایسی خطرناک جگہ پر لا کھڑا کیا ہے، جس میں ان کے پاس باعزت واپسی یا بھرم رکھنے والی پسپائی بھی آسان نہیں۔ اس کے لئے بھی کتنے جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی فراست اور دانشمندی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا، کہا جا رہا ہے۔ ان سب پر ایمان لانے، یقین کرنے کو یہ اخبار نویس تیار ہے۔ یہ مگر سمجھایا جانا چاہیے کہ مولانا نے اپنے پلان اے سے کیا حاصل کیا اور ان کا پلان بی کیا ہے؟ پلان بی، سی کہاں غائب ہوگئے؟
ابتدا ہی سے واضح ہوگیا کہ یہ قومی مارچ نہیں۔ اس میں چاروں صوبوں کا مینڈیٹ رکھنے والی جماعتیں شامل نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی نے شامل نہ ہونے کا کہہ دیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ جے یوآئی کے کارکنوں، مدارس کے فارغ التحصیل فضلا، طلبہ پر مشتمل ہے، جن کی اکثریت کا تعلق پشتون علاقوں سے ہے۔ بعد میں مولانا نے اسلام آباد دھرنا میں حکومت کو دی گئی مہلت ختم کرنے پر اپنی اہم ترین تقریر کی تو اس میں چند منٹ پشتو میں خطاب کیا۔ اس میں کچھ خفیہ نہیں تھا، وہی عام باتیں تھیں جو اردو میں کہی گئیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پشتومیں گفتگو کیوں کرنا پڑی؟ اس لئے کہ حاضرین کی غالب اکثریت پشتون ہے۔ سندھی تو شائد مولانا کو آتی بھی نہ ہو، انہوں نے پنجابی، سرائیکی میں ایک فقرہ بھی نہیں کہا۔ یاد رہے کہ ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے جو اکثریتی سرائیکی بولنے والا علاقہ ہے۔ مولانا نے اس لئے ایسا نہیں کیا کہ شرکا دھرنا میں یہ زبانیں سمجھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہاں پر ایک بات سمجھانا ضروری ہے کہ پشتون یا پشتو بولنے والے شرکا دھرنا یا مارچ سے کوئی منفی تاثر قائم نہیں ہوتا۔ پشتون پاکستان کا حصہ ہیں اور اتنے ہی اہم، معتبر اورقابل احترام جتنے دوسری زبانیں بولنے والے۔ مولانا فضل الرحمن کے جلسہ یا مارچ میں پشتونوں کی اکثریت ہونا کوئی منفی عنصر نہیں اور میں نے یہ بات طنزاً نہیں کہی۔ اس حقیقت سے مگر یہ واضح ہوتا ہے کہ مولانا کامارچ اور دھرنا قومی نہیں تھا۔ اس میں پاکستان کے دونوں سب سے بڑے صوبوں کے عوام شامل نہیں ہوئے بلکہ وہ دونوں جماعتیں بھی شامل نہیں ہوئیں جنہیں وہاں پر بڑا عوامی مینڈیٹ حاصل ہے۔ مولانا کے دھرنے میں اگر کراچی کی اہم سیاسی جماعت ایم کیو ایم شامل ہوجاتی تب بھی وہ ایک سطح تک سندھ کی شمولیت کا دعویٰ کر سکتے تھے۔ ایسا نہیں ہو سکا اور مولانا اپنے تمام تر جوڑ توڑ اور سیاسی حیلوں کے باوجود ملک گیر اجتماع منعقد نہ کر سکے۔ مولانا کا دھرنا اپنے اندر گہرائی اور جامعیت پیدا نہیں کر سکا تو ایک وجہ یہ بھی تھی۔ یہاں پر یہ بھی لکھتا چلوں کہ عمران خان کا دھرنا بھی محدود اور جامعیت سے عاری تھا۔ اس میں سندھ، بلوچستان کی جماعتیں بالکل شامل نہیں تھیں اور زیادہ حصہ پنجاب یا خیبر پختون خوا کا تھا۔ خان صاحب کے دھرنے کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی رہی۔
دوسرا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ اس مارچ کو مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ شروع میں اگرچہ اس کا تاثر دیا گیا، بلکہ خود مولانا پوچھے جانے پرصاف انکار کرنے کے بجائے گول مول جواب دیتے جس سے یہ تاثر نکالا جا سکتا کہ اندر سے کچھ لوگ انہیں سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ سب تاثر بعدمیں غلط نکلا۔ یہ تو خیر ابتدا ہی سے معلوم تھا کہ حکمران جماعت یا اس کے اتحادیوں کے درمیان اختلافات یا فارورڈ بلاک وغیرہ بننے کے کوئی آثار نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف وہی مارچ کامیاب ہوئے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پہلے سے معاملات طے کر کے کئے گئے۔ نوے کے عشرے میں میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپنے مخالفوں سے جان چھڑائی۔ حتیٰ کہ عدلیہ کی بحالی کے لئے میاں صاحب نے لانگ مارچ نکالا جو گوجرانوالہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ججز بحالی کا اعلان ہوگیا۔ اس میں بھی بہت کچھ پہلے سے طے تھا۔ فون ایسے بلاوجہ نہیں آ جاتے۔ صرف ڈراموں اور فلموں میں کرشمے ہوتے ہیں، عملی سیاست میں پہلے سے لکھے گئے سیاسی سکرپٹ ہوتے ہیں، جن پر عمل درآمدکیا جاتا ہے۔ یا پھر سکرپٹ کے بغیر مارچ کیا جاتا ہے جو Dead End پر پھنس جاتا ہے، حتیٰ کہ باعزت واپسی کا راستہ نکالنا بھی آسان نہیں رہتا۔ ایک تیسری صورت یہ بھی ہے کہ کوئی سیاستدان اپنی فراست یا دانش کے زعم میں ٹریپ ہوجائے۔ اسے غلط سگنل دئیے جائیں، مختلف لوگوں کے ذریعے ادھوری، کچی پکی، نیم پختہ اطلاعات پہنچائی جائیں۔ اپنی خوش فہمی میں وہ انہیں درست سمجھ کرلائو لشکر سمیت نکل کھڑا ہو۔ آگے جا کر پتہ چلے کہ وہ سب اطلاعات، خبریں، اشارے غلط تھے اور اب وہ گمراہ کرنے والے فون سننے کے روادار بھی نہیں۔ مولانا کا مارچ ان تینوں میں سے کون سا ہے، یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
مولانا کا پلان A یہ تھا کہ ملک بھر سے اپنے تنظیمی کارکنوں، ساتھیوں، حامیوں کو اکھٹا کر اسلام آباد پر چڑھائی کی جائے۔ اتنا بڑا اجتماع جمع ہوجائے کہ حکومت بھی سہم جائے اورمقتدر قوتیں بھی پریشان ہوجائیں۔ حکومت آپریشن کی غلطی کر بیٹھے تو کام آسان ہوجائے گا، ورنہ جم کر بیٹھ جایا جائے۔ سیاسی قوت کے رعب سے دو تین دنوں میں سب گھٹنے ٹیک دیں گے۔ یہ پلان تو ناکام ہوگیا۔ مولانا کو اسلام آبا دپہنچے آج نواں دن ہے۔ پہلے دو دنوں میں وہ اگر کچھ کر سکتے تھے تو کر لیتے۔ اب تو ان کی سیاسی قوت پوری طرح ایکسپوز ہوگئی۔ ہر گزرتا دن دھرنے کے شرکاء کی تعداد کم کر رہا ہے۔ بارش سے لوگ بہت پریشان ہوئے، سردی کی شدت بڑھ گئی ہے، رات گزارنے کے لئے انتظامات ناکافی ہیں۔ ادھر حکومت کو کوئی جلدی نہیں۔ وہ دھرنے کے شرکا کو تھکانا، مولانا کے اعصاب چٹخانا چاہتی ہے۔ جتنی دیر ہوگی، اس کا فائدہ حکومت کو اور نقصان مولانا کو پہنچے گا۔
سوال یہ ہے کہ مولانا کا پلان بی کہاں ہے؟ کیا وہ پلان یہی تھا کہ شرکا مارچ کو سردی اور بارش میں خوار کیا جائے اور خود گرم کمروں میں مذاکرات کرتے رہیں؟کیا پلان بی، سی یہی تھے کہ فیس سیونگ کے لئے علامتی سی چیزوں پر سمجھوتا کر کے واپسی کی راہ لی جائے؟ کیا ملک بھر سے اپنے تمام کارکنوں، ساتھیوں کو اس کام کے لئے اکٹھا کیا گیا، اپنی تمام قوت جھونک دی گئی؟کیا یہی سیاسی فراست اور یہی پلان اے، بی اور سی تھے؟ مولانا کو آج نہیں تو کل، ہمیں نہیں تو اپنے ساتھیوں کو سہی، جواب تو دینا پڑے گا۔