Sunday, 08 September 2024
    1.  Home/
    2. Amir Khakwani/
    3. Mosiqar e Azam

    Mosiqar e Azam

    سیاسی بحثیں ہمارے ہاں آج کل کچھ اس قدر تلخ اور جارحانہ انداز اختیار کرتی جا رہی ہیں کہ اس سے ہٹ کر کتابوں میں پناہ لینا ضروری ہوگیا۔ آپ بیتی پڑھنا مجھے ہمیشہ سے پسند ہے۔ آدمی خواہ کسی بھی شعبے کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کا نچوڑ بیان کرے تو کچھ نہ کچھ اس میں دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہوتا ہی ہے۔ اگر کوئی بڑا آدمی اپنی داستان حیات سنائے تو اس میں بہت کچھ ایسا ہوگا جو ہر ایک کے لئے دلچسپ اور مزے کا ہو۔

    موسیقار نوشاد بالی وڈ کے عظیم موسیقار رہے ہیں، پچاس سال سے زائد عرصہ انہوں نے فلم انڈسٹری کو دیا، بے شمار لاجواب اور امر قسم کے گیت ترتیب دئیے۔ انہیں لکھنے پڑھنے سے بھی شغف تھا، چند ایک فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ نوشاد کی داستان حیات دہلی، بھارت کے مشہور جریدے شمع میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ بعد میں مکمل کتاب کے طور پر بھارت سے شائع ہوئی۔ پاکستان میں بھی اٹلانٹس پبلی کیشنزنے اسے زندہ کتابوں کے سلسلے میں"موسیقار اعظم۔ نوشاد کی خودنوشت "کے عنوان سے شائع کیا۔ کتاب پڑھنا شروع کی تو ایسی دلچسپی محسوس ہوئی کہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کی کچھ چیزیں اور چند واقعات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

    نوشاد بتاتے ہیں کہ مجھے موسیقی سے بچپن ہی سے گہری دلچسپی تھی۔ ان کا خاندان مذہبی پس منظر رکھتاتھا، والد لکھنوکی عدالت میں محرر تھے اور سینیما، موسیقی وغیرہ کے مخالف، اسے گناہ سمجھتے۔ نوشاد کو دس سال کی عمر میں اپنے ماموں کے ساتھ حضرت وارث علی شاہ کے عرس کے موقعہ پر دیوہ شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ عرس کی تقریبات دس دن تک چلتی رہتیں، ایک دنیا وہاں آتی۔ معصوم بچے کو جہاں دکانوں، کھانے پینے کی چیزوں، کھلونوں وغیرہ میں دلچسپی محسوس ہوئی، وہاں اسے درگاہ میں آنے والے گائیگ حضرات کے فن نے بھی مسحور کر دیا۔ نوشادکا کہناتھا کہ لکھنو کے ایک بڑے فنکار استاد نصیر الدین خان غزل گائیگی میں کمال رکھتے تھے۔ وہ درگاہ میں آ کر گاتے تو ایک خلقت مبہوت ہوجاتی۔ نوشاد کے حافظے میں ان کی گائی غزل کا ایک شعر نقش ہوگیا۔:

    چھٹے اسیر تو بدلہ ہوا زمانہ تھا
    نہ پھول تھے نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا

    نوشاد درگاہ میں آ کر بانسری بجانے والے ایک فنکار کے فن سے بھی بہت متاثر ہوئے۔

    تب بولتی فلموں کا دور دورہ نہیں تھا، لکھنو کے ایک سینما میں خاموش فلموں کی نمائش ہوتی۔ رواج تھا کہ پردے پر خاموش فلم چلتی اور پردے کے قریب بیٹھا آرکسٹرز سین کی مناسبت سے موسیقی بجاتا۔ خوشی کے منظر میں پرمسرت موسیقی جبکہ المیہ مناظر میں دکھی کر دینے والا سوگوار میوزک بجایا جاتا۔ رقص اگر ہوتا تو ارکسٹرا اسی مناسبت سے دھنیں بجاتا۔ نوشاد وہاں بار بار جاتے اور ان کا دل چاہتا کہ وہ بھی ساتھ بیٹھ کر پرفارم کریں۔ ان کے پاس ہارمونیم نہیں تھا۔ سازوں کی ایک دکان کے سامنے وہ کھڑے ہو کر سازوں کو تکتے رہتے۔ دکان کے مہربان مالک نے انہیں کچھ دیر دکان پر بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ ایک دن نوشاد چپکے سے بیٹھے ہارمونیم بجا رہے تھے کہ دکان مالک سے سن لیا۔ وہ متاثر ہوا اور اس نے نہ صرف ہارمونیم نوشاد کوتحفہ میں دے دیا بلکہ اس سینما کے آرکسٹرا کو لیڈ کرنے والے فنکار سے ان کی سفارش بھی کر دی۔ یوں ہارمونیم نے ان سے باقاعدہ سیکھنا بھی شروع کر دیا اور وہ بھی آرکسٹرا میں شامل ہوگئے۔

    نوشاد اس آرکسٹرا میں پرفارم بھی کرتے، ایک استاد ببن خان سے کلاسیکل میوزک کی ٹریننگ بھی لینے لگے۔ جلد ہی نوشاد نے محسوس کیا کہ ان کی مناسبت ساز بجانے سے زیادہ موسیقی کی دھن ترتیب دینے سے ہے۔ وہ سینما کے آخری شو کے بعد گھرا ٓتے تو ان کی شفیق دادی چپکے سے دروازہ کھول دیتیں تاکہ نوشاد کے والد کو پتہ نہ چلے۔ بے چارہ لڑکا کچھ کھائے پیئے بغیر سوجاتا کہ کہیں باپ اٹھ نہ جائے۔ دن کے وقت گھر کی کوٹھری میں چھپ کر ہارمونیم بجانے کی مشق بھی کرتے رہتے۔ ایک روز پول کھل گیا۔ والد نے دیکھ لیا۔ وہ سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ یہ میراثی کا کام ہے، خبردار جو آئندہ گانے بجے کا کام کیا۔ نوشاد نے تو ٹھان رکھی تھی، کیسے باز آتے۔ والد نے دوسری بار پکڑا تو ہارمونیم اٹھا کر گلی میں پھینک دیا۔ ہارمونیم ٹوٹ گیا اور نوشاد نے بڑی مشکل سے اسے ٹھیک کرایا۔

    اس دوران ایک ناٹک کمپنی لکھنوآئی، وہاں ہارمونیم بجانے کی جگہ نکلی تو نوشاد چپکے سے گھر چھوڑ کر اس ناٹک کمپنی کے ساتھ ہولئے۔ بریلی، لکھیم پور، احمدآباد اوربعض دیگر شہروں میں پروگرام کئے۔ پھر کمپنی فیل ہوگئی، سازوسامان تک بک گیا۔ نوشاد کچھ وقت گزرنے کے بعد گھر واپس پہنچے تو والد سخت ناراض تھے۔ یہ گھر میں والد سے چھپتے رہے، مگر آخر سامنا ہونا ہی تھا۔ والد نے کہا، تم جو کچھ بھی کر رہے ہو، یہ غلط ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود گانے بجانے سے لگے ہوئے ہو، خاندان کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ تم انتخاب کرلو کہ میوزک کا شعبہ چننا ہے یا گھر؟ نوشاد نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ میں اب جس جگہ جا چکا ہوں، وہاں سے واپس نہیں آ سکتا۔ میں سنگیت ہی کروں گا۔

    یوں گھر چھوٹ گیا۔ عادل ان کے ایک شاعر دوست تھے، ان کے گھر شفٹ ہوگئے۔ عادل نے ایک دن انہیں کہا کہ بمبئی میں اب بولنے والی فلمیں بن رہی ہیں، تم وہاں جا کر قسمت آزمائو۔ اس نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر عبدالعلیم نامی کے نام رقعہ لکھ کر ساتھ دے دیا۔ ڈاکٹر نامی معروف نقاد اور مصنف تھے، تھیٹر اور گیت پر ان کی کئی کتابیں ہیں۔

    نوشاد بمبئی ڈاکٹر نامی کے پاس پہنچ گئے۔ نامی صاحب نے انہیں ایک شخص فیض سے ملوایا جو فلموں کے پبلسٹی کارڈ بناتا تھا۔ انہی دنوں ممتاز فلمساز کاردار صاحب فلم باغبان بنانے کے لئے کلکتہ سے پورا یونٹ لے کربمبئی آئے ہوئے تھے۔ فیض نے کاردار کے موسیقار سے ملوایا جنہوں نے نوشاد کو فلم سٹوڈیو بلوایا۔ ستم ظریفی یہ کہ کئی روز تک وہ وہاں جاتے رہے، مگر سٹوڈیو کے چوکیدار انہیں اندر داخل نہ ہونے دیتے۔ پھر ایک اور فلم سٹوڈیو جاتے رہے، وہاں بھی کسی نے گھسنے ہی نہیں دیا۔ پیسے ختم ہوگئے تھے، وہ بس پر جانے کے بجائے بیس میل کا سفر پیدل طے کرتے۔ رہائش ڈاکٹر عبدالعلیم نامی کے ساتھ تھی۔ ایک دن نامی صاحب نے نوشاد کے پیدل چل چل کر تباہ حال جوتے دیکھے تو انہیں نئے جوتے لے کر دینے کی پیش کش کی۔ نوشاد نے نرمی سے معذرت کر لی۔

    چند دنوں کے بعد نامی صاحب نے شکایت کی کہ تمہارے دوست عادل نے پندرہ روپے کا منی آرڈر بھیجا ہے، تم میرے پاس رہتے ہو، ضرورت تھی تو مجھے کہتے، اتنا دور سے کیوں پیسے منگوائے۔ نوشاد نے صاف کہہ دیا کہ آپ کے پاس رہ رہا ہوں، یہ بھی آپ کا احسان ہے، مجھے ڈر تھا کہ کہیں کچھ اور مانگا تو اس سے نہ جاتا رہوں۔ نامی صاحب اس سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے تفصیل سے نوشاد کے حالات جانے اور ایک دلچسپ فقرہ کہا، "اپنی ڈائری میں لکھ لو، تم اپنے مقصد میں ان شااللہ ضرور کامیاب ہوگے۔ اگر میں زندہ رہا تو تمہیں آداب کرنے ضرور آئوں گا"۔

    نوشاد نے یہ جملہ اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا اور پھر پوچھا کہ یہ بات آپ نے کس توقع میں کہی؟ ڈاکٹر نامی کہنے لگے، بہت سے لوگ یہاں آئے، مگر دس پندرہ دن رہ کر مایوس ہو کر مجھ سے ٹکٹ کے پیسے لے کر واپس چلے جاتے ہیں۔ تم دس پندرہ دن تک بھوکے پیاسے پیدل آتے جاتے رہے۔ یہ خودداری اور جذبہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ اسی لئے میں نے لکھوایا ہے کہ تم ضرور کامیاب ہوگے۔ (نوشاد نے کئی عشرے بعداپنی داستان حیات سناتے ہوئے بتایا کہ وہ تحریر میرے پاس آج تک محفوظ ہے۔)

    یہی ڈاکٹر نامی پھر ایک دن نوشاد کے پاس ملنے آئے، تب نوشاد فلم انڈسٹری کے سپر سٹار موسیقار بن چکے تھے، ہر بڑی کمپنی اور ہر بڑا ڈائریکٹر انہیں اپنی فلموں کی موسیقی سونپنا چاہتا تھا۔ نوشاد اور نامی صاحب کے درمیان ہونے والا مکالمہ بھی دلچسپ رہا۔ نامی صاحب بھی بلا کے خوددار آدمی تھے، انہوں نے بعد میں ایسی خودداری اور عزیمت کا مظاہرہ کیا کہ خود نوشاد حیران رہ گئے۔

    اس کی تفصیل اور لیجنڈری گلوکار کے ایل سہگل، مغل اعظم فلم بنانے والے منفرد ہدایت کار کے آصف اور فلم مدر انڈیا کے نامور ہدایت کار محبوب کے حوالے سے نوشاد کے بتائے واقعات بھی بڑے دلچسپ اور نقاب کشا ہیں۔ ان کی تفصیل مگر اگلی نشستوں میں، ان شااللہ۔