Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sabaq Jo Column Nigari Ke Safar Mein Seekhe (1)

Sabaq Jo Column Nigari Ke Safar Mein Seekhe (1)

میرا پہلا کالم تو زمانہ طالب علمی میں شائع ہوگیا تھا، باقاعدہ کالم نگاری فروری، مارچ 2004 میں شروع کی۔ یعنی بیس سال ہوچکے ہیں۔ آغاز روزنامہ ایکسپریس سے ہوا، پھر روزنامہ دنیا اور اب پچھلے سات برسوں سے روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز میں کالم لکھ رہا ہوں۔ اس سفر کے دوران بہت کچھ تلخ وشیریں دیکھنا پڑا۔ تلخ کم اور شیریں زیادہ۔ اسے اللہ کا بے پناہ کرم ہی کہوں گا کہ کالم نگاری کے سفر نے بے اندازہ مسرتوں اور خوشیوں سے ہم کنار کیا۔ ایک چھوٹے پسماندہ شہر کے رہنے والے لڑکے کو رب کریم نے قلم کے ذریعے ہی ہزاروں، لاکھوں لوگوں تک پہنچایا، بے شمار نئے لوگ حلقہ محبت میں شامل ہوئے۔ دوردراز کے شہروں، قصبات، دیہات، اوورسیزپاکستانیوں کی جانب سے جب محبت بھرے میسج، ای میلز، پیغامات آتے ہیں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ اللہ ہی ہے جو ہم جیسوں کا بھرم رکھتا ہے، اسی نے عزت دی اور وہی ان شااللہ آگے بھی سرخرو رکھے گا۔ اس سفر میں چند ایک سبق سیکھے، نوجوان کالم نگاروں کے لئے انہیں بیان کر رہا ہوں، ممکن ہے انہیں اس سے فائدہ ہو۔

کالم ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ ہے کالم لکھنا شروع کیا تو کچھ ہی عرصے بعد اندازہ ہوگیا کہ یہ لمبی اننگ والا معاملہ ہے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹی ٹین لیگ یا ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ ہے۔ وہ بھی پرانے زمانے کا جب تین تین دن بیٹنگ کرنے والے بلے باز ہی کو بڑا تصور کیا جاتا تھا۔ اب یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوچکا ہے۔ کئی اخبارات ہیں جن میں درجنوں کالم روزانہ شائع ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی بہت سے نئے اور پرانے لوگ کالم اور بلاگ لکھ رہے ہیں۔ ایسے میں اپنی جگہ بنانا مشکل ہوچکا۔ جس طرح پی ٹی وی کے زمانے میں ایک ڈرامے سے اداکار ہٹ ہو جاتے تھے۔ آج کل کئی انٹرٹینمنٹ چینلز ہیں اور بہت سے اداکار برسوں سے کام کرنے اورہٹ ڈرامے دینے کے باوجود ملک گیر شہرت حاصل نہیں کر پاتے۔ یہی حال آج کے کالم نگار کا ہے۔ ایک اخبار میں کم سے کم بھی آٹھ دس کالم روز شائع ہوتے ہیں۔ نمایاں کالم نگاروں کی تعداد بھی تیس چالیس سے کم نہیں جبکہ مجموعی طور پر یہ سو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہوں گے۔ ان میں سے چند ایک تیس چالیس سال سے لکھ رہے ہیں، مگر دس پندرہ بیس برسوں سے لکھنے والے بھی بہت سے ہیں۔

ان تمام بڑے چھوٹے ستاروں میں کسی نئے کالم لکھنے والے کے لئے جگہ بنانا آسان نہیں۔ ناممکن بھی نہیں، مگر محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ لکھنا ہوگا، تب ہی کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔ شروع کے کئی ماہ توصرف نام رجسٹرڈ ہونے میں لگ جاتے ہیں۔ قاری کچھ عرصے بعد ہی لفٹ کراتا ہے۔ عام طور پر لوگ کالم لکھنا شروع کرتے ہیں، دو چار کے بعد حسب منشا ردعمل نہ پا کر مایوس ہوجاتے ہیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، مستقل مزاجی سے لکھتے رہیے، آپ کو اپنا حصہ اور حق ضرور ملے گا۔

مجھے یاد ہے کہ ابھی صحافت میں نہیں آیا تھا، ایک دن ملک کے ایک معروف کالم نگار کوخط لکھا۔ اس خط میں بڑے لمبے چوڑے دعوے کئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ مجھے کالم لکھنے کا موقعہ ملے تو تین ماہ میں یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا وغیرہ۔ کئی برس بعد کالم لکھنے شروع کئے تو اندازہ ہوا کہ ابتدائی تین ماہ میں تو قاری آپ کے نام اور" لوگو "سے بمشکل مانوس ہو پاتا ہے، ریڈرشپ تو بعد میں کہیں بن پاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور پہلو لکھنا شروع کرنے کے بعد سامنے آیا۔ ابتدا میں ایک کالم میں کئی آئیڈیاز استعمال کر دیتا۔ پھر سمجھ آئی کہ یہ ٹیسٹ میچ ہے، ہر اوور میں چھکوں کی بارش کی ضرورت نہیں۔ بعدمیں کئی بار کوئی واقعہ لکھ کر آخری مرحلے پر ایڈٹ کر دیتا کہ پھر کبھی اس پر لکھوں گا۔

یہاں اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے فیس بک پر مجھے اکثر بیشتر نوجوان لکھنے والوں کی جانب سے ای میل یا ان باکس میسج ملتا رہتا ہے کہ آپ کا شاگرد بننا چاہتے ہیں، آپ ہماری رہنمائی کریں، ہماری تحریروں کی اصلاح کریں وغیرہ وغیرہ۔ بھائی سچی بات یہ ہے کہ کالم نگار ی میں اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس میں استاد شاگرد والا روایتی معاملہ نہیں چلتا۔ یہ شاعری نہیں جس کی اصلاح کی جائے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں، خاص کر پروفیشنل اخبارنویس غریب آٹھ گھنٹے کی ملازمت کرے(زیادہ تر اخبارات میں آٹھ گھنٹے لازمی گزارنے پڑتے ہیں چاہے کام جلدختم ہوجائے۔)، اپنے کالم کی بھی فکر کرے اور پھر شاگردوں کی اصلاح بھی کرے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔

مشورہ یہی ہے کہ صحافت میں کسی مینٹور (Mentor)یعنی مرشد، گرو ڈھونڈنے کے بجائے خود محنت کی جائے۔ اچھے کالم پڑھے جائیں، ان سے سیکھا جائے۔ جتنا مطالعہ ہوگا، اتنا ہی فائدہ ملے گا۔ اگر کسی سے مدد لینی ہے تو قریبی حلقے میں کوئی پڑھا لکھا استاد یا اچھا قاری زیادہ معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ جس کے پاس وقت ہو اور وہ نئے لکھنے والے کو دیانت داری سے اپنا فیڈ بیک دے سکے۔

اپنا سپورٹ سسٹم ضرور بنائیں اپنے آپ پر بھروسہ رکھیں، فوکس ہو کر محنت کریں۔ اس کے ساتھ مگر اپنا سپورٹ سسٹم ضرور بنائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر کیسز میں کالم نگاری ایک پیکج ڈیل ہوتی ہے۔ نام ایک ہی کا مشہور ہوتا ہے، مگر اس کے آس پاس کئی لوگ مدد کرنے والے ہوتے ہیں۔ کوئی اچھا مخلص دوست، صاحب علم بزرگ، کسی خاص حوالے سے مدد کرنے والا کوئی ریسرچر وغیرہ۔ مجھے تو اس حوالے سے پائیلو کوہیلو کے ناول الکیمسٹ کی کہانی درست لگتی ہے کہ جب کوئی اپنے مشن کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے، کائنات کی قوتیں اس کی مدد کے لئے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ہوتا ہے، مگر پہلے خود کو سنجیدہ امیدوار ثابت کرنا پڑتا ہے۔ قدرت بھی غیر ذمہ دار، ناسمجھ لوگوں کی مدد نہیں کرتی۔

یہ اسباب کی دنیا ہے، بے پناہ امکانات پیدا ہوجاتے ہیں، مگر پہلے خون پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ اخبار کے لئے لکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنا کوئی حلقہ فکر بھی بنائیں، کسی ایسے فورم کا حصہ بنیں جہاں سے اسے فائدہ ہو۔ ایک طرح کا مائنڈ کنسورشیم بنانا پڑتا ہے۔ میرا تیسرا کالم شائع ہوا تھا کہ میں کوشش کرکے کونسل آف نیشنل افئیرز یعنی سی این اے کا حصہ بن گیا۔ یہ لاہور کا ایک اہم تھنک ٹینک ہے، اس زمانے میں بہت سے ممتاز لکھنے والے، دانشور، اہل فکر اس کا حصہ تھے، یہ آج بھی فعال ہے۔ مجھے سی این اے سے بہت فائدہ پہنچا۔ اسی طرح مختلف اہل علم کی مجالس میں جاتے رہے، ان سے سیکھنے کی سعی رہی۔ یہ سب سپورٹ سسٹم کا حصہ ہی ہے۔ تو اپنا سپورٹ سسٹم لازمی بنائیں۔

(جاری ہے)