Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sabaq Jo Column Nigari Ke Safar Mein Seekhe (2)

Sabaq Jo Column Nigari Ke Safar Mein Seekhe (2)

گزشتہ نشست میں ان نکات پر بات ہوئی جو اپنے بیس سالہ کالم نگاری کے سفر میں سیکھے یا یہ کہہ لیں کہ بات سمجھ آئی کہ یہ چیزیں کرنا ضروری ہیں، ان میں اچھا سپورٹ سسٹم بنانا بھی شامل ہے اور یہ بات کلیئر کر لینا کہ کالم نگاری کوئی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ نہیں بلکہ لمبے دورانئے کی کرکٹ ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اپنے بیک گرائونڈنالج کو مسلسل آپ ڈیٹ رکھیں۔ بیک گرائونڈ نالج سے مراد سمجھ لیں اپنے اندر کا برتن، اپنے اندر کا گھڑا۔ گھڑا جلدی خالی ہوجائے گا، اسے بھرتے رہیے۔

جب کوئی نیا لکھنے والا کالم یا بلاگ لکھنا شروع کرے تو ابتدا میں کئی واقعات، دلچسپ کہانیاں ذہن میں موجود ہوتی ہیں۔ جب ہم کسی مقبول کالم نگار کی ایسی تحریر دیکھتے تو سوچتے ہیں کہ یہ کیا خاص بات ہے، ایسا تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ ہم بھی ایسا سوچتے تھے۔ جب آپ لکھنے لگتے ہیں تو کچھ عرصے کے بعد واقعات ختم ہونے لگتے ہیں۔ جب ہفتے میں دو تین کالم لکھے جائیں تو چند ہی ماہ کے بعد آدمی سوچنے لگتا ہے کہ آج کیا لکھا جائے۔ وجہ وہی ہے کہ اپنے اندر کا گھڑا آخر ختم ہی ہوجاتا ہے۔ اسے مسلسل بھرنا پڑتا ہے۔

نئی کتابوں، فلموں، رسالوں، جرائد، ریسرچ پیپرز، شاعری، موسیقی وغیرہ سے اپنے اندر کے گھڑے کو بھرتے رہیں۔ واقعات، نئے خیال، سوچ کے مختلف پہلو وغیرہ کھوجتے رہیں، جہاں کوئی نکتہ ذہن میں آئے، اسے فوری نوٹ کر لیں۔ خیال کو باندھ کر رکھنا پڑتا ہے، بہت بار خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپک کر آتا ہے اور چند سکینڈز بعد غائب ہوگیا۔ شاعروں کو اس کا بہت تجربہ ہوتا ہے۔ اسی لئے بہت سے شاعر سرہانے کاپی پینسل لے کر سوتے ہیں، جہاں نیا مصرع ذہن میں آیا، فٹ سے لکھ لیا۔ آج کل موبائل کی وجہ سے بڑی سہولت ہوگئی ہے۔ آسانی سے اپنے پوائنٹس نوٹ کئے جا سکتے ہیں۔

سب سے اہم تازہ مطالعہ ہے۔ متنوع قسم کا مسلسل مطالعہ ضروری ہے۔ اخبارات پڑھنے اہم ہیں، مگر یاد رکھیئے کہ سوچ میں گہرائی اور پختگی کتابوں سے آتی ہے۔ اہل علم کی مجالس میں شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ کسی سکالر کے ساتھ گھنٹے دو گھنٹے کی نشست کئی کتابوں سے زیادہ فائدہ دے سکتی ہے۔ اہم نکتہ یہی کہ اپنے اندر کا گھڑا بھرتے رہیں، یہ سب تخلیق کی صورت میں باہر آئے گا۔

مشہور ادیب ہمینگوئے کی بات ایک بار پڑھی۔ نہایت خوبصورت نکتہ اس نے بیان کیا۔ کہتا ہے کہ ناول، ڈرامہ، افسانے میں جو کچھ بیان ہوتا ہے، وہ کسی آئس برگ (سمندر کے پانیوں میں چھپے برف کے پہاڑ)کی صرف نوک ہوتی ہے۔ آئس برگ آپ کا بیک گرائونڈ نالج ہے۔ جس کا بیک گرائونڈنالج یعنی آئس برگ جتنا بڑا ہے، اتنا ہی اس کی تحریر زیادہ بھرپور اور دلچسپ ہوگی۔ یہ بیک گرائونڈ نالج مطالعہ ہی سے بن سکتا ہے۔ اگر اب تک کی عمر مطالعہ میں نہیں گزاری تو سمجھ لیں کہ آپ کی محنت دوگنی ہوگئی۔ آج ہی شروع کر دیں۔

صحافتی برادری سے ستائش کی توقع نہ رکھیں آپ باقاعدہ صحافی ہیں یا پھر صرف کالم لکھنے تک محدود ہیں، دونوں صورتوں میں صحافی کمیونٹی سے کچھ زیادہ بھلے یا ہمدردی کی امید نہ رکھیں۔ دنیا کی چند سفاک ترین برادریوں میں سے ایک صحافتی برادری ہے۔ دراصل صحافیوں کی عمومی تربیت دوسروں کی غلطیاں پکڑنے، نقائص تلاش کرنے اور منفی پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی ہے۔ ان کے نزدیک کتے کا انسان کو کاٹنا خبرنہیں، انسان کا کتے کو کاٹنا خبر ہے۔ کوئی مثبت یا خیر کا کام ایک بور، بوگس خبر ہے جبکہ کہیں پرسنسنی خیز، منفی سکینڈل مل جائے تو چاندی ہوجائے گی۔

صحافی فطرتاً شکی مزاج بھی ہیں۔ چیزوں کی حقیقت کو ہمیشہ شکی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ داد دینا، تعریف کرنا انہوں نے سیکھا نہیں۔ موقعہ پرست، چاپلوس صحافیوں کی بات نہیں کر رہا۔ وہ اس فن کے ماہر ہیں، مگر ظاہر ہے وہاں اسے استعمال کرتے ہیں جہاں سے مالی مفاد بٹور سکیں۔ میں نے کالم لکھنا شروع کیا تو بڑی حیرت ہوتی کہ آس پاس کے لوگ بھی یوں تاثر دیتے جیسے انہیں پتہ ہی نہیں کہ میں بھی کالم نگار بن گیا ہوں۔ پریس کلب جاتا تو ایسے لوگ بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ ملتے، جن کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا کہ وہ لائبریری میں بیٹھ کر میرا کالم پڑھتے اور اس پر تند وتیز تبصرے کرتے ہیں۔ ملنے پر وہ یہ تاثر دیتے کہ کبھی خواب میں بھی میرا کالم نہیں دیکھا۔ دوسروں کی تو چھوڑئیے، میں میگزین انچارج تھا، ایک صاحب میری ٹیم میں شامل تھے، چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھتے، کئی بار انہیں ادارتی صفحہ کھول کر پڑھتے دیکھا، مگر کبھی پھوٹے منہ سے بھی میرے کالم کی تعریف تو دور کی بات ہے، کوئی تنقیدی تبصرہ بھی نہیں کیا۔ اس طرح کا رویہ تکلیف دیتا ہے، مگر پھر عادت ہوگئی۔

لیفٹ کے ایک معروف سینئر کالم نگار نے ایک بار اپنے کالم میں میرا نام لے کر تعریف کر ڈالی۔ وہ سمجھتے تھے کہ شائد یہ کراچی سے تعلق رکھنے والا کالم نگار ہے۔ وہ صاحب روزانہ دفتر آیا کرتے تھے۔ اگلے روز ادارتی صفحہ کے انچارج نے انہیں بتایا کہ جس نوجوان کا آپ نے ذکر کیا، وہ اسی اخبار میں میگزین انچارج ہے، کہیں تو آپ سے ملوائوں۔ وہ بزرگ صحافی یہ سن کر ناخوش ہوئے، کہنے لگے کہ میں تو سمجھا تھا کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے اور کوئی سینئر آدمی ہے، مگر تصویر جوانی کی دے رکھی ہے۔ خیر انہوں نے ملنے کی زحمت بھی نہ کی اور اس کے بعد کبھی بھول کر بھی ذکر نہ کیا۔ اچھی مثالیں بہرحا ل موجود ہیں، سینئرز میں منو بھائی، ہارون الرشیدصاحب، مجیب الرحمن شامی صاحب، سجاد میر وغیرہ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ ارشاد عارف صاحب اس سے پہلے مجھے سی این اے کا حصہ بنا چکے تھے، جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سب کی تفصیل اپنی پہلی کتاب "زنگار" کے دیباچے میں لکھ چکا ہوں۔ نئے لکھنے والوں کو بہرحال ہر قسم کے ردعمل کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

لفظ نہیں خیال اہم ہے اخبارات اور سوشل میڈیا پرنیا لکھنے والوں کو اکثر لفظوں کے سحر میں گرفتار پایا۔ وہ اپنی تحریر میں مشکل، رنگین نثر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اندازہ کئے بغیر کہ اس سے ان کا ابلاغ کم ہوگا۔ ابتدا میں ہم نے بھی مختلف تجربات کئے، پھر یہ بات سمجھ آئی کہ آخری تجزیے میں اہمیت خیال کی ہے۔ وہی زندہ رہتا اور دلوں کو مسخر کرتا ہے۔ تحریر میں بے شمار الفاظ پھینک دینے کے بجائے مربوط خیال اہم ہے، اس پر توجہ دیں۔ بسا اوقات انشاپردازی کے چکر میں ہم خیال کا تعاقب نہیں کر پاتے اور لفظوں کی گھمن گھیریوں میں ابلاغ کہیں کھو دیتا ہے۔ میرا مشورہ تویہی ہے کہ رواں نثر لکھیں اور اس میں جو کہنا چاہتے ہیں اسے مدلل اور مربوط انداز میں بیان کریں۔ یہ زیادہ اہم ہے۔ زبان اہم ہے، مگر اس میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ ایسے بہت سے صاحب علم لکھاری دیکھے جو زبان دانی کے چکر میں اچھے، مقبول کالم نگار نہیں بن سکے۔ چند ایک قابل احترام مستثنیات البتہ موجود ہیں جو فسوں ساز نثر لکھتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں کلام نہیں۔ یہ مشکل کام ہے، ہر کوئی نہیں نبھا سکتا۔ جو کر سکتا ہے، وہ ضرور کرے، مگر نئے لکھنے والے محفوظ کھیلیں۔ نئے آئیڈیاز سوچیں اور انہیں اچھے طریقے سے بیان کریں۔ مایوسی نہیں ہوگی۔ (جاری ہے)