Saneha Bahawalpur
Amir Khakwani131
میرے نزدیک بہاولپور میں ایک طالب علم کے ہاتھوں استاد کا قتل ایک بڑا سانحہ ہے۔ سانحہ ساہیوال اور سانحہ کرائسٹ چرچ کی طرح ایک بڑا المیہ، ایک سانحہ۔ واقعات کی نوعیت مختلف ہے، نیوزی لینڈ میں سفید فام برتری کے غرور سے سرشار دہشت گرد نے نمازیوں پر گولیاں برسا دیں، اس واقعے کو مغرب شائد جلد نہ بھلا سکے، دنیا بھر کے مسلمان ابھی تک شاک کی کیفیت میں ہیں۔ ساہیوال میں ایک معصوم خاندان غیر ذمہ دار، غیر محتاط پولیس جوانوں کی فائرنگ کا نشانہ بنا، اس واقعے نے دل پر جو گھائو لگایا، مدتوں اسے بھرنے میں لگیں گے۔ ہاتھ میں فیڈر پکڑے معصوم بچی کی تصویر کلیجے میں کھب گئی ہے، ظالموں نے اسے چشم زدن میں یتیم، یسیر بنا دیا۔ بہاولپور میں جنونی طالب علم کے ہاتھوں ایک قابل، مشفق، نہایت شریف استاد کا قتل بھی ویسا ہی ایک سانحہ ہے۔ یہ صرف قانون ہاتھ میں لینا، مشتعل ہو کر قتل کرنے کا معاملہ نہیں۔ ایسا ہولناک واقعہ، جس کے بعد پوری قوم کو کانپ جانا چاہیے۔ یوم سوگ منایا جائے اور قاتل کے خلاف سب یکسو ہو کر کھڑے ہوں، مظلوم، مقتول استاد کو خراج عقیدت پیش کیا جائے اور ان کے پسماندگان کے آنسو پونچھنے، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے۔ یہ بات بالکل صاف ہے کہ اس جاہل، جنونی طالب علم نے جو دین کی ابتدائی چیزوں سے بھی بے خبر ہوگا، صرف اپنے ناکافی علم اوراپنے سے زیادہ جاہل اور شدت پسندانہ مذہبی تعبیر رکھنے والے ایک حلقہ فکر سے متاثر ہو کر یہ قتل کا انتہائی اقدام کیا۔ اس واقعے کے حوالے سے ہم سب کو انتہائی یکسو ہوجانا چاہیے۔ قتل صرف قتل ہے اور قاتل کو کسی بھی قسم کی کوئی رعایت، تاویل کی سہولت نہیں ملنی چاہیے۔ ایک اسلامی معاشرے میں صرف عدالت کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے خلاف موت کی سزا سنائے اور پھر ریاست اس پر عمل درآمد کرے۔ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی متقی، نیک ہو، اسے اسلام نے یہ حق نہیں دیا۔ صحابہ سے اعلیٰ جماعت اور کون سی ہوگی؟ خلفاء راشدین کے مرتبہ اور درجہ کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، انہوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ اصل قوت اور اتھارٹی قاضی کی ہے۔ قاضی کا فیصلہ خلیفہ وقت بھی خوش دلی سے تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے یہ سوال ہی نہیں بنتا کہ کوئی شخص خود ہی مدعی بنے، خود ہی فیصلہ سنائے اور پھر خود ہی اس پر عمل درآمد کر ڈالے۔ ایسا کرنا ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ ایسا کرنے والا قاتل تو ہے ہی، مگر اس کے ساتھ اس نے فتنہ بھی پیدا کیا اور ریاستی نظم، انتظامی سٹرکچر کو برباد کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا دیکھتا رہا، مجھے شدید حیرت ہوئی کہ بعض اچھے بھلے مذہبی اور معقول لوگ بھی یہ سوال کرتے ملے کہ ٹیچر نے ضرور کچھ ایسا کیا ہوگا جس پر یہ طالب علم انتہائی قدم پر مجبور ہوا۔ میرے نزدیک یہ سوال ہی نہیں بنتا۔ ٹیچر ہو یا کوئی اور شخص، اگر کسی نے کچھ ایسا کہا یا کیا ہے جو کسی دوسرے کی نظر میں قابل اعتراض ہے، شدید قابل اعتراض ہے، تب بھی اس دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون ہاتھ میں لے اور قتل کر ڈالے۔ ایسا کرنے والا قاتل ہوگا، اسلامی اصولوں کے مطابق مردود، جہنم کا مستحق۔ ہمیں اپنا ردعمل دینے سے پہلے یہ تعین نہیں کرنا چاہیے کہ قاتل نے بلاجواز قتل کیا۔ قتل ہے ہی بلاجواز۔ اگر کسی فرد نے سخت قابل اعتراض حرکت کر دی، تب بھی اس کا قتل جائز نہیں۔ یہ عدالت ہی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ قابل اعتراض حرکت ہوئی یا نہیں اور ہوئی تو اس کی سزا کس قدر دی جانی چاہیے۔ یہ بنیادی اصول ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے۔ خاص کر اہل قلم اور اہل دانش سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس حوالے سے معاشرے کی تربیت کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ قانون کی حکمرانی کیا ہوتی ہے؟ اب اس واقعے کی جانب آ جائیں۔ یہ واردات بہاولپور کے سب سے مشہور اور پرانے تعلیمی ادارے ایس ای کالج میں ہوئی۔ میں اتفاق سے اس کالج میں نہیں پڑھ سکا، مگر میرے بڑے بھائی، کزن، دوست وہیں پر پڑھے۔ کالج کا تعلیمی معیار بہت اچھا ہے اورطالب علم اکثر بورڈ میں پوزیشن لیتے ہیں۔ قتل ہونے والے استاد خالد حمیدصاحب کا تعلق شعبہ انگریزی سے تھا۔ خالد صاحب کئی سال سعودی عرب میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، تین چار حج کئے ہوئے ہیں، صوم وصلواتہ کے پابند، نہایت شریف اور معقول انسان ہیں۔ ایس ای کالج کے مقبول ترین اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے اور بہت اچھے طریقے سے سمجھانے کے باعث وہ طلبہ میں پسند کئے جاتے تھے۔ سوشل میڈیا پربعض لوگوں نے کہا کہ مقتول استاد الحاد پر مبنی یا اس طرح کی قابل اعتراض گفتگو کرتے تھے۔ یہ صریحاً غلط الزام ہے۔ ان کے شاگرد اس کی سختی سے نفی کرتے ہیں۔ ساتھی اساتذہ کا بھی کہنا ہے کہ خالد صاحب کسی بھی تنازع میں پڑنے سے گریز کرتے تھے اور کبھی ان کی زبان سے قابل اعتراض گفتگو نہیں سنی گئی۔ وہ مولوی ٹائپ شخص تھے نہ ہی سیکولر۔ معتدل مذہبی انسان، جیسا کہ اہل بہاولپور کا عمومی مزاج ہے۔ کالج کے شعبہ انگریزی کی سالانہ تقریب بظاہر وجہ تنازع بنی۔ ہر کالج کی طرح شعبہ انگریزی میں بھی اینول پارٹی ہوتی۔ ویسی جو کسی بھی سرکاری کالج میں ہوسکتی ہے، تھوڑی بہت انٹرٹینمنٹ پھر ڈنر، ایسی ہر تقریب کا آغاز تلاوت قرآن اور نعت شریف سے ہوتا ہے، وہی روٹین کے دو چار ہلکے پھلکے آئیٹم، کسی طالب علم کی گائیگی، کوئی تقریر، کسی کی پیروڈی وغیرہ۔ برسوں سے یہ تقریبات ہر کالج میں ہوتی آئی ہیں۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا، اس میں قابل اعتراض کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اس بار مسئلہ طالب علموں کے ایک چھوٹے حلقہ کی جانب سے پیدا کیا گیا۔ قاتل خطیب حسین بی ایس پروگرام کے پانچویں سمسٹر کا طالب علم ہے، وہ بہاولپور کی تحصیل منڈی یزمان کا رہائشی ہے، بتایا جاتا ہے کہ پڑھائی میں اچھا تھا، مگر پچھلے چند ماہ میں وہ خاصا شدت پسند قسم کا مذہبی بن گیا۔ ایک خاص قسم کی شدت اس پر طاری ہوگئی، حتیٰ کہ وہ واٹس ایپ گروپوں میں دوستوں کی ہنسی مذاق کی باتیں بھی حرام قرار دیتا اور اس حوالے سے ایک مذہبی تنظیم کے رہنما کا فتویٰ بھی پیش کرتا کہ بلا وجہ کی ہنسی بھی حرام ہے۔ (یاد رہے کہ مذکورہ عالم آج کل اپنی شدت پسندی کی وجہ سے اسیر ہیں )۔ خطیب حسین اور اس کے بعض دوستوں کی جانب سے چند دن پہلے اینول پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع ہوئی کہ یہ اخلاق باختہ ہے اور یورپی کلچر کو یہاں لایا جا رہا ہے، اسلام کے منافی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہاتھ سے لکھے ہوئے بعض پوسٹرز بھی کالج کی دیواروں پر لگائے گئے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ اسی حلقے نے ڈپٹی کمشنر بہاولپور کو وہ پارٹی رکوانے کیلئے درخواست بھی بھیجی، اگرچہ ڈی سی آفس اس قسم کی کسی درخواست ملنے کی تردید کرتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ یا ساتھی طلبہ میں سے کسی نے خطیب حسین اور ا سکے شدت پسند دوستوں کے احتجاج کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ بات اتنا آگے چلی جائے گی۔ بات مگر بہت آگے چلی گئی اور دو دن پہلے اسی خطیب حسین نے اپنے شفیق اور قابل استاد خالد حمید پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ قاتل نے گرفتاری پیش کر دی تھی، اسے اپنے کئے پر کوئی ندامت نہیں۔ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کی برین واشنگ اس سطح کی ہوچکی ہے کہ وہ اب ذہنی طور پر انسانیت کے شرف سے محروم ہوچکا ہے۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب اس قاتل کو سپیڈی ٹرائل کے ذریعے سزائے موت دی جائے۔ زینب قتل کیس کی طرح اس کا فیصلہ بھی ایک دو ماہ میں ہوجائے تاکہ قاتل نہ صرف نشانہ عبرت بنے بلکہ دوسروں پر بھی واضح ہوجائے کہ جنونیت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ہمارے اہل دانش کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ سماج کے اندر ایسے منفی، شدت پسندانہ جذبات کیوں اور کیسے پیدا ہو رہے ہیں؟ اس طالب علم کا فیس بک پیج ایک خاص تنظیم یا جماعت کی سوچ سے متاثر ہے۔ تحقیق ہونی چاہیے کہ قاتل کے دوستوں یا کالج کے سٹاف میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جس نے لڑکے کو جذباتی ترغیب دی ہو۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے، اسے اچھے طریقے سے نمٹانا چاہیے۔ مشال کیس کی طرح سانحہ بہاولپور کو بھی بڑی سنجیدگی اور یکسوئی سے لینے کی ضرورت ہے۔