سرفراز اے شاہ صاحب لاہور کے معروف صوفی سکالر اور صاحب عرفان بزرگ ہیں۔ شاہ صاحب کی تصوف پر لکھی گئی کتابوں نے غیر معمولی پزیرائی حاصل کی ہے۔ ان کی پہلی کتاب کہے فقیر کے پچاس کے قریب ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، ان کی دیگر کتابیں " فقیر نگری"، "فقیر رنگ"، " لوح فقیر"، " ارژنگ فقیر"، " نوائے فقیر"، " عرض فقیر" بھی مقبول ہوئی ہیں۔ دو تین ہفتے قبل ان کی آٹھویں کتاب جہان فقیر شائع ہوئی۔ یہ کتابیں روحانیت کو سمجھنے کابہترین ذریعہ ہیں۔ تصوف کی جدید تاریخ میں ایسی عمدہ، عام فہم اورجامع کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ سرفراز شاہ صاحب سے میرا تعلق پچیس چھبیس برسوں پر محیط ہے، اس دوران ان کے کئی محفلوں، لیکچرز میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ دیانت داری کی بات ہے کہ قبلہ شاہ صاحب پیچیدہ اور دقیق نکات کو بھی پانی کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ برسوں سے جاری فکری الجھن کو وہ اپنے دو تین جملوں سے یوں سلجھا دیتے کہ آدمی مبہوت رہ جاتا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ اتنے برسوں میں کسی مسئلے کی بابت پوچھا ہو اورجواب کے بعد اطمینان، یکسوئی میسر نہ آئی ہو۔ علم لدّنی شائد اسی کا نام ہے۔
سرفراز شاہ صاحب سے دو دن پہلے ایک طویل نشست کا موقعہ ملا۔ کچھ باتیں قارئین کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ تصوف کے حوالے سے غلط فہمیوں پر بات شروع ہوئی۔ شاہ صاحب کا فرمانا تھا، "لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف نام ہے سپرنیچرل قوتوں کو حاصل کرنا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے چلے، مجاہدے کرنے چاہئیں۔ بنیادی طور پر تصوف یہ نہیں ہے۔ تصوف تواس چیز کا نام ہے کہ انسان اپنا پوٹینشل بڑھا سکے کہ میں شریعت پر زیادہ سے زیادہ عمل کر سکوں۔"شاہ صاحب سے میں نے سوال پوچھا کہ کیا تصوف انسان کی زندگی بدل سکتا ہے؟ شاہ صاحب نے فرمایا: تصوف ایک ایسی راہ ہے جس میں ہم حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اپنے علاوہ باقی سب کو بے پناہ عزت دیتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کو عزت دیتے ہیں تو ہمیں بھی جواب میں عزت ملتی ہے۔ جب ہم بندوں کے حقوق ادا کرنے میں اتنا آگے چلے جائیں کہ اپنے حقوق سے بھی دستبردار ہوجائیں، تب ہمیں بہت اچھا ریسپانس ملتا ہے، لوگ خود ہمارے حقوق کا خیال رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے زندگی کی کوالٹی بہت بہتر ہوجاتی ہے۔ تصوف کے ذریعے ہماری زندگی میں یہ فرق آتا ہے۔
"شریعت کا غور سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمے حقوق دو طرح کے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق۔ رب تعالیٰ کے حقوق تو اس کا حق ہیں ہی، مگر شریعت کا بہت بڑا حصہ دراصل حقوق العبادہیں۔ انسان کی عادات، انسان کی فطرت، طور طریقے، انسان کا چلن۔ ان سب کو شریعت چینلائز کرتی ہے ایک خاص سمت میں۔ وہ ہے کہ آدمی پارسا ہوجائے اوریہ احساس بیدار ہو کہ میں لوگوں کا قرض دار ہوں۔ روپے پیسے سے نہیں بلکہ ان کے حقوق کا قرض دار۔ شریعت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دوسروں کے حقوق کیا ہیں اور انہیں ہر قیمت پر ادا ہونا ہیں، اس میں ہم ڈنڈی نہ ماریں۔ جب ہم شریعت پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں تو ہم بہت اچھے انسان بن جاتے ہیں، ایسا انسان جوLovableہے۔"
شاہ صاحب سے اتنے طویل تعلق میں یہ بات نوٹ کی کہ وہ وظائف کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں ترجیح کوشش اور جدوجہد کی ہے اور دعا کا درجہ اس کے بعد آتا ہے، اس کے لئے وہ غزوہ بدر کی مثال دیتے ہیں کہ جو کچھ کیا جا سکتا تھا، وہ کیا گیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے رب کے حضور طویل دعا کی۔ اس کے برعکس آج کل وظائف کا چلن عام ہوگیا ہے، لوگ ہر کام کے لئے وظیفہ چاہتے ہیں۔ کوئی اپنی شرٹ کے بٹن اچھے سے بند کرنے کے لئے وظیفہ لینے کا خواہش مند ہوتا ہے تو کسی خاتون کو ایسا وظیفہ چاہیے جس سے ان کی ہانڈی کبھی نہ جلے چاہے وہ کتنی دیر تک فون پر گپیں لگاتی رہیں۔ سرفراز شاہ صاحب کے ہاں یہ چیزیں رائج نہیں۔
اسی طرح بعض جگہوں پر مراقبوں اور توجہ کی مشقوں پر خاصا فوکس کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اسی نام سے ان کے مراکز بھی بنے ہیں، بعض ارباب تصوف چلّے، کٹھن مجاہدوں، ریاضت کی بات کرتے ہیں۔ سرفراز شاہ صاحب کے لیکچرز، ان کی کتب، گفتگو میں کبھی ایسی تلقین نہیں دیکھی۔ اس بارے میں سوال پوچھا تو شاہ صاحب کہنے لگے، " دراصل مراقبے، چلے، توجہ کی مشقیں ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے دور لے جاتے ہیں۔ اولاد کی حیثیت سے ہم پر والدین کے حقوق ہیں، بطور بھائی اپنے بہن بھائیوں کے حقوق کے مقروض ہیں، خاوند کے طور پر بیوی کے حقوق جبکہ باپ کی حیثیت میں اپنے بچوں کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ (مجاہدوں، چلّوں کے چکر میں) ان حقوق کی ادائیگی میں ناکامی ہونے لگتی ہے، ہم ذمہ داریوں سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے عائد کردہ عبادات کے فرائض پورے کریں، مناسب حد تک رب کو یاد کریں اور پھر یہ تمام حقوق العباد کی ذمہ داریاں نبھائیں جو کہ بطور مسلمان بذات خود عبادت ہے۔"
تصوف اور روحانیت کا ذکر ہو اور کشف کی بات نہ چھڑے، یہ ممکن نہیں۔ کشف یعنی چھپی ہوئی چیز کا ظاہر ہونا، مخفی باتوں کا علم ہوجانادراصل ایک ایسا معاملہ ہے، جس نے بہت سی غلط فہمیاں اور مغالطے پیدا کر رکھے ہیں۔ تصوف کے حوالے سے زیادہ تر بحث کشف کے وجود، عدم وجود اور ا سکی حقیقت پر ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ دوستوں کی کئی محفلوں میں گھنٹوں کشف کے حوالے سے بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ بعض دوستوں کا اصرار ہوتا کہ اگر کشف کوئی علم ہے تو اس کے پیرامیٹرز طے ہونے چاہئیں، تاکہ اس کاعقلی وسائنسی تجزیہ کیا جا سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ روحانیت کو میٹا فزکس یعنی مابعداطبیعات ہی کہا جاتا ہے، سائنسی فارمولے اور ٹولز اس جانچنے، ناپنے کے لئے ناکافی اور غیر موثر ہیں۔ کشف تو ویسے بھی روحانیت کی دنیا میں عطا سمجھی جاتی ہے، یہ کوئی ڈگری یا کورس نہیں کہ اتنے دنوں میں محنت کر کے حاصل ہوجائے گی اور طالب علم اچھے نمبروں سے پاس ہو کر یہ میڈل گلے میں لٹکا لے گا۔
اس تناظر میں قبلہ سرفراز شاہ صاحب سے سوال پوچھا کہ بہت سے لوگ کشف حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں کیا کرنا چاہیے؟ شاہ صاحب مسکرا کر کہنے لگے:"اس کا آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ ہم اپنے خیالات کو مثبت کر لیں، عبادات پوری دلجمعی اور خوش دلی سے کریں یعنی ذوق شوق سے عبادت اور نیکی کی راہ اختیار کر لیں۔ اگر ان تین چیزوں کا امتزاج ہم اپنے اندر جمع کر لیں، خیالات کی پاکیزگی، عبادات بڑے ذوق وشوق سے کرنا اور یہ بنیادی شرط ہے، تیسری ہے نیکی۔ اگر ایسا ہو تو روح بہت لطیف ہوجائے گی اور یہ چیزیں ازخود انسان کوحاصل ہونے لگتی ہیں۔"
شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس راہ پر چلنے والوں میں بسا اوقات خرق عادات (ExtraOrdinary) چیزیں آ جاتی ہیں، مگر جو حقیقی معنوں میں اہل تصوف ہیں، وہ خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں اور لوگوں کو بھی یہی تلقین کرتے ہیں۔ یہ چیزیں توجہ بھٹکاتی ہیں، اللہ کی راہ سے آدمی بھٹک جاتا ہے، ان سے دور رہنا چاہیے۔۔"
میں نے پوچھا کہ عام آدمی اللہ کو اپنی ترجیح اول کیسے بنائے؟ شاہ صاحب نے فرمایا، " بہت آسان بات ہے، اگر ہمیں یہ سمجھ آجائے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں۔ کہتے تو ہم سب ہیں، مگر لفظی کارروائی کے انداز میں کہتے ہیں۔ بندگی نام ہے سو فی صد اطاعت کا اور اپنے آپ کورب کے حضور ٹوٹل سرنڈر کرنے کا۔ جب ہم اپنے آپ کو رب کے آگے سرنڈر کر دیں تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم نے اپنے ارادے، اپنی خواہشات، اپنے عمل سب اللہ کے احکامات کے تابع کر دئیے۔ جب ہماری تمام زندگی اللہ کے احکامات کی پابندہوگئی تو ہم خود نیکی کے مقام پر بیٹھ گئے اور رب ہم سے راضی ہوگیا۔"
کسی بھی مسلمان کے لئے سب سے زیادہ اہم اور بڑی بات اپنے آقا سرکار مدینہ ﷺ سے قرب حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ آپ ﷺ کی زیارت کرنے والے توکمال خوش نصیب ہیں، آپ ﷺ کے پسندیدہ امتی ہونے کی سعادت حاصل ہونا بھی کم خوش نصیبی نہیں۔ سرفراز شاہ صاحب سے سوال پوچھا کہ سرکار ﷺ سے کس طرح قریب ہوا جا سکتا ہے؟ شاہ صاحب نے فرمایا:" آپ ﷺ سے غیر مشروط پیارکیا جائے، ایسا پیا ر کہ انسان کی جان، مال، اولاد سب پیچھے رہ جائے۔ یہ البتہ ضرور یاد رکھا جائے کہ پیار کی سچائی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ جس سے ہم عشق کر رہے ہیں، ان کی چھوٹی سے چھوٹی، بڑی سے بڑی سنت پر عمل کیا جائے۔ ایسا تو نہ ہو کہ میں پیار تو کروں، مگر میری زندگی سنت کی پیروی سے خالی ہوجائے۔ یہ عشق رسول ﷺ نہیں۔ آپ ﷺ سے بے لوث اور غیر مشروط پیار کیا جائے تو انسان خود کو آپ ﷺ سے قریب محسوس کرنے لگتا ہے۔ درود پاک بھی کثرت سے پڑھا جائے۔ بہت سے درود شریف بتائے جاسکتے ہیں، مگر درود ابراہیمی ہم سب کے لئے آسان ہے کہ ہم نماز میں اسے پڑھتے ہیں۔ اسے کثرت سے پڑھا جائے تو ان شااللہ اس کی برکات حاصل ہوں گی۔"(جاری ہے)