Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shikast Ki Zillat

Shikast Ki Zillat

صاحبو! ہم اس کے قائل نہیں کہ" قومی کرکٹ ٹیم تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے"۔ ہرگز نہیں ہمارا پیار اتنا بھی غیر مشروط نہیں، پہلے خود کو اس کا مستحق ثابت کریں۔ یہ بھی ایک بیکارجملہ ہے کہ کھیل میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے، اس لئے جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ کہ جذبات سے بے بہرہ کون ہوسکتا ہے؟ صرف مجسمے، مجنوں، اورمردہ ہی اس سے پاک ہوسکتے ہیں۔ ہار جیت بے شک سکے کے دو رخ ہیں، ایک ٹیم نے ہارنا، ایک نے جیتنا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ نہیں کہ ہمیشہ جیتتے رہو۔ کوئی احمق ہی یہ بات کرے گا۔ اتنا ہم سب، پوری قوم چاہتی ہے کہ میچ میں جان ماری جائے اور اگر شکست ہو تو پتہ چلے کہ لڑ کر ہارے ہیں۔ جس پرشرمندگی نہ ہو۔ شاعر خوش نوا سعداللہ شاہ نے کہا تھا:اے میرے دوست! ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میر ا سر بھی تو پڑ ا ہے دستار کے ساتھیہ تبصرہ بھی اکثر سننے میں ملتا ہے، " حیرت ہے آپ ابھی تک کرکٹ دیکھتے ہیں، ہم نے تو برسوں پہلے (فلاں ورلڈ کپ کے بعد)دیکھنا چھوڑ دی تھی، آپ بھی کوئی اور ڈھنگ کا کام کریں۔"واہ، گویا قصور تھرڈ کلاس کھیل پیش کر کے ذلت انگیز شکست کھانے والی کرکٹ ٹیم کا نہیں، بلکہ ہم ہی قصور وار ہیں جو اپنی قومی ٹیم کے میچز دیکھتے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ ان صاحبان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ نے کرکٹ دیکھنا ترک کر کے کون سا مفید شغل شروع کر ڈالا؟ ڈنڈ بیٹھکیں لگا، مگدر پیل کر مسلز بنا تے ہیں یا پھر نیوٹن کی پرنسپیکا میتھمیٹیکاکا جواب دینے میں مگن ہیں۔ مرزاغالب کے خطوط کی تضمین لکھ رہے ہیں یا پھر آئن سٹائن کی سٹرنگ تھیوری غلط ثابت کرنے میں وقت صرف کرتے ہیں؟ چلیں کوئی مذہبی شخص کھیلوں کو لہوولعب سمجھتے ہوئے اس سے دور رہے اور اپنا وقت عبادت میں گزارے تو یہ اور بات ہے، ہم بھی ان کے احترام میں خاموش ہوجائیں گے۔ کرکٹ دیکھنا ترک کر کے فیس بک پر گھنٹوں پوسٹیں دیکھنے، کینڈی کرش کھیلنے والے تو کم از کم نصیحت نہ فرمائیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کھیلوں اور قوموں کے مورال کا بڑا قریبی تعلق ہے۔ ہم اسی لئے کرکٹ کو اہمیت دیتے ہیں کہ عملاً یہ قومی کھیل بن چکا ہے۔ اس سے ملنے والی خوشی پوری قوم کو آسودہ اور مسرور کر دیتی ہیں جبکہ شکست ہر ایک کو رنجیدہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ورلڈ کپ میچ میں بھارت سے ذلت آمیز شکست نے قوم کو دکھ اور صدمہ پہنچایا۔ کسی کو یہ امید نہیں ہوگی کہ پاکستانی ٹیم میچ میں یوں بے دلی، پست حوصلگی، تھڑدلی اور افسوسناک بزدلی کا مظاہر ہ کرے گی۔ بھارت سے دوستی کے خواب دیکھنے والوں کا معلوم نہیں، ہم جیسے توروایتی حریف کو شکست فاش دیتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے شکست جو ان کے غرور اور نخوت سے لبریز پیکر پر ضرب لگائے اور سنگھاسن سے اتار کرزمین پر کھڑا کر دے۔ پیر کے روز بھارتی اخبارات کی سرخیاں دل میں خنجر کی مانند پیوست ہوگئیں۔ انڈین ایکسپریس کی لیڈ تھی نومیچ (No Match)۔ بات گو تلخ مگر سچ ہے کہ پاکستانی ٹیم مقابلہ ہی نہیں کر پائی، وہ میچ یعنی انڈیا کاجوڑ ہی ثابت نہیں ہوئی۔ دیگر انڈین اخبارات، انڈین سوشل میڈیا بلاگرز کی پوسٹیں، کمنٹس یہی تھے کہ پاکستان کا اب بھارت کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں رہا۔ پاکستان بھارت سے کس طرح میچ ہارا، دیکھنے والے سب جانتے ہیں، بہت کچھ تبصرے آ چکے ہیں۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ نہ کرنے والے فیصلے پر ہر ایک نے تنقید کی۔ درست بات ہے۔ کپتان سرفراز نے اس کا عجیب وغریب دفاع کیا ہے کہ فیصلہ درست تھا، مگر ہمارے بائولرز نے بہترین بائولنگ نہیں کی۔ پوچھنا چاہیے کہ پہلی بار اس بائولنگ لائن کے ساتھ کھیلے ہو؟ معلوم نہیں کہ پچھلے تین میچز، وارم اپ میچ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز میں انہی بائولرز نے کیسی بائولنگ کرائی، ان کی کیا فارم ہے اور نئی گیند سے یہ بالکل ہی وکٹیں نہیں لے رہے۔ جس کپتان کو اتنی سادہ باتیں معلوم نہ ہوں، جو کوچ ان چیزوں سے بے بہرہ ہے، کیاان کے ہاتھ میں پاکستان اور پاکستانی قوم کی نمائندگی کا جھنڈا پکڑانا درست ہے؟ سرفراز میں تو اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں کہ اپنے بلنڈر کو تسلیم کر سکے۔ ٹیم سلیکشن غلط تھی۔ شعیب ملک سے رنز نہیں ہو رہے، آئوٹ آف فارم تو کیاہونا، اس کی کرکٹ کے آخری دن ہیں، ایک چلا ہواکارتوس ویسے بھی کیا شکار کر سکتا ہے؟ حارث سہیل تکنیکی اعتبار سے بہتر بلے باز ٹیم میں موجود ہے، اسے نہیں کھلایا۔ حسن علی آئوٹ آف فارم ہے، مسلسل شاٹ پچ گیندیں کرا کر چھکے کھاتا ہے۔ روہت شرما شاٹ پچ گیندوں کو تباہ کن انداز میں کھیلتا ہے، حسن علی کا اس نے یہی حال کرنا تھا۔ مینجمنٹ میں کوئی ایسا نہیں جو آئوٹ آف باکس سوچ سکتا۔ محمد حسنین پاکستان کا تیز ترین بائولر بنچ پر بیٹھا ہے، اسے کھلانے کا رسک ہی لے لیتے کہ شائد اپنی سپیڈ سے وہ شروع میں وکٹیں لے سکتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی پہلے سے طے ہوچکی تھی۔ ہمارے ساتھ یہی ہونا بنتا تھا اور وہی ہو رہا ہے۔ قدرت کے اپنے اصول ہیں، محنت کا بدلہ اچھا اور سستی، نالائقی کا بدلہ برا ہی ملتا ہے۔ جن ملکوں نے کرکٹ ورلڈ کپ کے لئے محنت کی، اپنی ٹیم تیار کی، مخالفین کو سرپرائز پیکیج دیا، کھلاڑیوں میں جذبہ بھرا، ان کی خامیاں دور کیں اور لڑنے مرنے پر آمادہ کیا، انہیں ثمرات ملتے نظر آ رہے ہیں۔ انگلینڈ کی ٹیم پچھلے ورلڈ کپ میں بہت برا کھیلی، کوارٹر فائنل میں نہ پہنچ پائی۔ انگلینڈ نے اس کے بعد اپنا کپتان بدلا، کوچ تبدیل کیا، پورا ون ڈے سٹائل ہی بدل ڈالا۔ آج نہایت جارحانہ انداز سے مثبت، فیصلہ کن کھیلنے والی انگلش ٹیم سب کے سامنے ہے۔ اس ورلڈ کپ میں وہ فیورٹ ہے، ممکن ہے ورلڈ چیمپئن بن جائے۔ نہ بھی بنی توکم از کم اپنے کھیل سے ملک اور عوام کو سرخرو تو کر رہی ہے۔ بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان سے ہاری۔ یہ واضح طور پر ایک تکا تھا، مگر اس سے پاکستانی کھلاڑیوں خاص کر سرفراز نے خوب فائدہ اٹھایا، دو سال تک کپتان بنا رہا اور کروڑوں اینٹھ بھی لئے۔ بھارت نے اپنی اس ٹیم میں کئی اہم تبدیلیاں کیں۔ ا یشون ان کا اہم بائولر تھا، جبکہ یوراج سنگھ میچ ونر بلے باز۔ ویراٹ کوہلی نے اندازہ لگالیا کہ یہ کارتوس اب چل چکے ہیں۔ یوراج پاکستانی شعیب ملک سے ابھی تک بدرجہا بہتر کھلاڑی ہے، اسکے لئے مگربھارتی ٹیم میں جگہ نہیں تھی۔ ادھر شعیب ملک اپنی ناقص فارم اور خوفناک بیٹنگ سٹائل کے باوجود ٹیم میں شامل ہے۔ کوہلی نے ایشون کی جگہ مسٹری سپنر کلدیپ اور چاہل کو موقعہ دیا۔ دونوں نے بھارت کو کئی میچز اور ٹورنامنٹ جتوائے۔ پاکستان کے خلاف حالیہ میچ میں کلدیپ ہی نے فیصلہ کن وکٹیں لیں۔ بمرا پر کوہلی نے اعتماد کیا، اس کی خامیاں دور کرائیں، آج وہ دنیا کا خطرناک ترین ون ڈے بائولر ہے۔ ورلڈ کپ سے کچھ دن پہلے کالم لکھا تھا، انضمام الحق افسوس آپ ناکام ہوئے۔ اس میں ان تین بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی، جو پچھلے دو برسوں سے ٹیم میں موجود تھیں، مگر انضمام نے ان کو دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ پہلی خامی کپتان سرفراز ہے۔ سرفراز کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ وہ اوسط سے کم درجے کے ون ڈے بلے باز ہیں۔ کسی بھی اچھی ٹیم میں انہیں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اس لئے کھیل رہے ہیں کہ کپتان ہیں۔ سرفراز جیسی کیپنگ اور اس سے تین گنا بہتر بیٹنگ کرنے والا رضوان موجود ہے، مگر اسے ٹیم میں نہیں شامل کر پا رہے۔ اس وقت لکھا تھاکہ سرفراز کی ناقص کارکردگی ٹیم پر بوجھ بنی رہے گی، برا کھیلنے والا کھلاڑی کپتانی بھی بری کرتا ہے، یوں سخت مقابلوں میں اس کا نقصان ٹیم کوہوگا۔ دوسری بڑی خامی ڈیتھ اوورز یعنی آخری دس اوورز میں اچھی بائولنگ نہ کرنے والے بائولرز ہیں۔ ہمارے پاس یارکر سپیشلسٹ بائولرز نہیں۔ ڈھونڈنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں ہوئی۔ تصور کریں کہ اگرچیف سلیکٹر کی ابتدائی ٹیم ورلڈ کپ کھیلتی جس میں عامر ہوتا نہ وہاب ریاض تو کیا بنتا؟ یہ تو شکر ہے کہ عامر نے عمدہ کارکردگی سے کچھ عزت رکھ لی، وہاب ریاض بھی ریورس سوئنگ سے آخری اوورز میں وکٹیں لے لیتے ہیں، ورنہ ہر میچ میں چار سو رنز خلاف بنتے۔ تیسری خامی آخری اوورز میں تیز کھیلنے، چھکے لگانے والے پاور ہٹر کا نہ ہونا ہے۔ یہ خامی کئی برسوں سے ہے، عبدالرزاق کے بعد کوئی ویسا ملا نہیں۔ ہم نے بھی ڈھونڈنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ حتیٰ کہ پی ایس ایل میں اچھا کھیلنے والے سامنے آئے تو انہیں بھی موقعہ نہیں دیا گیا۔ مکی آرتھر جیسے دفاعی، کنفیوز سوچ والے کوچ کا ہونا بھی بڑا مسئلہ ہے، آرتھر پی ایس ایل میں کراچی کنگز کے کوچ ہیں اور ایک بار بھی ان کی کوئی عمدہ سٹریٹیجی یا چال نظر نہیں آئی۔ ورلڈ کپ میں اس نے خاک کرنا تھا۔ پاکستان بھارت سے اتوار کا میچ ہارا، مگر افسوس کہ ہم ورلڈکپ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہار چکے تھے۔ اس کے ذمہ دار ہمارا چیف سلیکٹر، کوچ، کپتان ہیں۔ کرکٹ بورڈ مینجمنٹ بھی بے قصور نہیں جو سب کچھ دیکھتے ہوئے تماشائی بنی رہی۔ اگر کچھ بدلنا ہے تو ان سب کو بدلنا ہوگا۔ ورنہ باقی پھر کہانیاں ہیں بابا۔