اشفاق احمداپنے آپ کو بابا نہیں کہنے دیتے تھے۔ ان میں بابوں والے تمام عناصر موجود تھے۔ ان کی کہی باتیں، لکھی تحریریں آج بھی پہلے جیسی تروتازہ ہیں۔ ان کاٹی وی پروگرام زاویہ بہت مقبول ہوا تھا۔ آج کے نجی چینلز کے زمانے میں ہوتے تو شائد زاویہ کا رنگ ڈھنگ اور سحر ہی اور ہوتا۔ پی ٹی وی کے عام سے ڈیزائن والے سیٹ میں بھی اشفاق صاحب نے اپنی گفتگو کا وہ فسوں جگایا کہ آج تک لوگ سرشار ہیں۔ زایہ پروگرام کتابی شکل میں شائع ہو کر پزیرائی حاصل کر چکا ہے، اس کے اقتباسات اکثر سوشل میڈیا پر نظر آ جاتے ہیں۔
اشفاق صاحب کا ایک پروگرام مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ اس سے ایک ایسا سبق سیکھا جو دل پر نقش ہوگیا۔ ایک دن پروگرام کے آغاز ہی میں کہنے لگے، " میں اور بانوقدسیہ ہر روز صبح کی چائے پینے کے بعد بیٹھ کر ان سب لوگوں کے شکر گزار ہوتے ہیں جو ہمیں خط لکھتے ہیں، جنہوں نے ہمیں عید کارڈ بھیجے۔ وہ تمام کارڈز بانو نے کمرے ہی میں ایک میز پر اکٹھے کر کے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان میں سے ایک عید کارڈ اٹھا کر دیکھتے، بھیجنے والے کا نام پڑھتے اور پھر آپس میں بات کرتے ہیں کہ دیکھو یہ شاہ جی، چودھری صاحب، بٹ صاحب، کتنے اچھے، پیارے آدمی ہیں، ہمیں عید پر یاد رکھا، ہم سے محبت کرتے ہیں، اللہ ان سے راضی ہو۔ پھر کوئی اور کارڈ اٹھایا اور اسے بھیجنے والے کا ذکر کیا، اس کے لئے دعا کی۔ بعض کارڈز ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو بھیجنے والوں کو ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے۔ ان کے لئے خصوصی دعا کرتے ہیں کہ زاتی تعارف نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اتنی محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا۔"
اپنے مخصوص ڈرامائی اور دلکش انداز میں یہ سب بیان کرنے کے بعد اشفاق احمد کہنے لگے، " اس کام میں بمشکل آدھا گھنٹہ لگتا ہے، لیکن ایسا کرنے سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ ان لوگوں نے جس پیار اور خیر خواہی کا مظاہر ہ کیا، ہماری شکرگزاری اور ان کے لئے دعا کرنے سے ہم نے ان کے لئے جوابی محبت اور خیر سگالی ظاہر کی۔" اشفاق صاحب یہ سب باتیں اپنے سننے والوں کو بطور نصیحت بتانا چاہ رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ایک نیا خیال، نئی سوچ کا بیج سب کے دلوں میں بو دیاتھا۔ اس بات پر بارہا غور کیا اور ہر بار مزید قائل ہوا۔
آج زمانہ بدل چکا ہے، عید کارڈ کوئی نہیں بھیجتا۔ ڈیجیٹل کارڈ یا ٹیکسٹ میسج بھیج کر کام چلا لیا جاتا ہے۔ بہت بار یہ سب رسمی انداز میں کر دیا بلکہ بھگتا دیا جاتا ہے۔ قریبی عزیز، بہن بھائی، بھانجے، بھتیجے کی سالگرہ ہو، دوسرے شہر میں رہنے والے پتہ چلنے پر فٹ سے کسی کیک، مٹھائی کی تصویر کا واٹس ایپ میسج بھیج دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے جیسے خانہ پری ہوگئی۔ کیا واقعی ایسا ہوجاتا ہے؟ مجھے تو نہیں لگتا۔ فون کی بات مختلف ہے، مگر مجھے ڈیجیٹل رسمی برتھ ڈے میسج، شادی کی سالگرہ کے روٹین کے پیغامات، ٹیکسٹ میسجز وغیرہ متاثر نہیں کرتے۔ اس سے آگے جانا چاہیے۔
ہمارے ایک دوست نے اپنے گھر میں یہ رجحان ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ بچے ایک دوسرے کی سالگرہ پر خط لکھیں۔ انہیں ترغیب دی کہ اپنے بھائی یا بہن کی سالگرہ پر اسے خط لکھو، تحریری وش کرو، جیسے سمجھ آئے، مگرلکھو ضرور۔ کچھ تو ایسی یادگار چیز ہو، جسے محفوظ کیا جا سکے، برسوں بعد بھی اسے دیکھ کر حظ اٹھا سکیں۔ میری نزدیک توشادی کی سالگرہ پر بھی پارٹنرز کو ایک دوسرے کو خط ضرور لکھنا چاہیے۔ مصروفیت کی وجہ سے اس روز ممکن نہیں تو اگلے چند دنوں میں ایسا کر لیں۔ ضروری نہیں کہ کوئی پختہ رائٹر ہو۔ جیسے جی چاہے، جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں، لکھ ڈالیں۔ دل آزاری سے بچتے ہوئے، خوشگوار باتیں کریں، اپنی لطیف یادیں تازہ کریں، مہکتے لمحات کو پھر سے محسوس کریں اور اسے تحریر کریں۔ ہر سال ایک خوبصورت تحریری یاد جمع ہوتی جائے گی۔ قلم سے لکھنے میں مشکل ہے تو موبائل وغیرہ پر لکھ کراسے واٹس ایپ کیا جا سکتا ہے۔
یہ تو خیر گھر کے افراد، قریبی رشتوں ناتوں کی بات ہورہی تھی۔ ہر روز تو شائد ہم نہ کر پائیں، مگر کسی روز، کسی لمحے ہمیں ان لوگوں کو یاد ضرور کرنا چاہیے جنہوں نے ہمارے ساتھ نیکی، بھلائی کی۔ قریبی دوست، ہمسائیے، محلے دار، تعلق دار، سوشل میڈیا کے دوست، جو ہمارے لئے اچھا سوچتے، ہمارے لئے کچھ کرتے ہیں ہمیں بھی ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ ہم اپنے گھر میں، تنہائی کے لمحوں میں بیٹھ کر ان کے بارے میں جوابی خیر خواہی سے سوچیں، دعا گو ہوں تو اس کا عکس ہمارے عمل میں لازمی پڑے گا۔ تب ہمیں یہ خیال آئے گاکہ جوابی طور پر ان سے بھلائی کرنی چاہیے، ان کے مشکل میں کام آیا جائے۔ آپ کسی مالی مشکل میں تھے، کسی دوست، عزیز نے آگے بڑھ کر خاموشی سے دور کرنے میں مدد کی۔ کہیں کام پھنسا ہوا تھا، ایسے میں کوئی جاننے والا کام آیا۔ ہمسایے نے گھر کے بحران میں عملی مدد فراہم کی۔ بیمار تھے، کوئی دوست عزیز تیمارداری کے لئے آتے ہوئے پھل وغیرہ لے آیا۔ نجی مسئلہ، بچوں کا کوئی تعلیمی ایشو، دفتر کے مسائل، غرض کسی بھی حوالے سے جو آپ کے کام آیا، مشکل سے نکالا، اسے یاد رکھیں۔ دل سے دعا دیں۔ رابطہ نہ ٹوٹنے دیں، اگر وہ مشکل میں پھنسے تو سرعت سے مدد کے لئے جائیں۔ اگر کبھی اس سے تلخی ترشی ہوگئی تو برداشت کریں، نظرانداز کریں۔ کسی روز یوں ہی ایک فہرست تو اپنے محسنین کی بنائیں۔ اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں، مگر اس تجربہ سے ضرور گزریں۔ اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی اور زندگی کے مختلف مراحل پر جس جس نے اچھا کیا، اس کا نام فہرست میں لکھیں۔ کسی بھولی بسری شخصیت کا نام یاد نہیں آ رہاتواس کا حوالہ ہی لکھ دیں۔ فہرست بن گئی تو پھر باری باری ان کے لئے دعا کا سلسلہ شروع کر دیں۔ شکرگزاری کی عملی صورت بنے تو وہ لازمی کریں۔
ایسے بہت سے لوگ اردگرد ہوتے ہیں جو گھنے درخت کی چھائوں بن کر ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک خاص سطح پر ان کے شکرگزار بھی ہوتے ہیں، مگربسا اوقات اظہار کا خیال نہیں آتا۔ کھل کر ان کی تعریف کرنے، شکریہ ادا کرنے کا نہیں سوچتے۔ کئی بار تو ہم ان کے خلوص، مہربانی کو فارگرانٹیڈ لیتے ہیں، اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ہمیں شکرگزار ہوناچاہیے۔ ہمارے آقاﷺ کی یہی تربیت ہے۔ آپ ﷺ سے جس کسی نے کبھی بھلائی کی، آپ ﷺ نے اسے نہیں بھلایا، ہمیشہ یاد رکھا۔ ایسا کرنے کی تلقین کی۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ان لکھنے والوں، مفکرین، دانشوروں، ادیبوں کا شکرگزار ہونا ہے، جن کی فکر، سوچ، تحریروں، گفتگو نے آپ کی زندگی پر گہرے مثبت اثرات مرتب کئے۔ کئی ایسی کتابیں ہیں جنہیں پڑھنے والوں کی زندگی بدل گئی۔ ان کے مصنفین کے لئے دعاگو رہنا چاہیے۔ ایسے بہت سے لوگ دنیا میں نہیں۔ بعض صدیوں پہلے چلے گئے۔ دنیا سے جانے والوں کو سب سے زیادہ ضرورت دعائے مغفرت کی رہتی ہے۔ ان کی فہرست بنائیں اور ممکن ہو تو ہر روز اپنے اعمال، معمولات میں چند منٹ ان سب کی دعائے مغفرت کے لئے نکالیں۔ ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ دفتر، کاروبار کی جگہ پر آتے جاتے ہوئے سفر میں چند سورتوں کی تلاوت کر لیں، درود پاک کی تسبیح، اس کے بعد (اگرمسلکی طور پر قائل ہیں تو)اس کا ثواب ان مرحومین کو بطور تحفہ بھیجنے کی استدعا کریں، ان کے لئے رب کریم سے مغفرت اور درجات بلند کرنے کی دعا کریں۔ رب کریم قبول کرنے والا، نرم، رحیم، کریم ہے، وہ کرم فرمائے گا۔ کہتے ہیں کہ مرحومین کو ایسی ہر دعائے مغفرت کی اطلاع ملتی ہے۔ یہ سوچ کر ہی کتنا اچھا لگتا ہے کہ آپ کے پسندیدہ سکالر، دانشوریا مصنف کو آپ کی طرف سے سلام، دعائے مغفرت پہنچی۔ ایک طرح کا روحانی رابطہ ہی اسے سمجھ لیں۔
میری تو دلی خواہش ہے کہ جب یہاں نہ ہوں تو پڑھنے والوں میں سے کم از کم کچھ لوگ ہی فراخ دلی سے یہ کام کریں۔ میں نے اپنی دونوں کتابیں (زنگار، زنگارنامہ) شائع کرتے ہوئے دانستہ ایسی تحریریں شامل کیں، جنہیں پڑھتے ہوئے قاری کو مثبت تبدیلی کا احساس ہو اور اس کے دل سے دعا نکلے۔ معلوم نہیں کتنی کامیابی ہوئی، مگر کوشش یہی تھی۔ ایک دوسرے کو یاد رکھیں، کمزور سے کمزور کڑی کی صورت میں بھی رابطہ ضرور رکھیں۔ اسی بیج سے شکرگزاری، نیکی، بھلائی کی کونپلیں پھوٹیں گی، یہی ان شااللہ ثمربار ہوجائیں گی۔