سینیٹ میں چیئرمین صادق سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اپوزیشن کے سیاسی اتحاد کی شکست ہی نہیں، بلکہ ان کے لئے تباہ کن بھی ثابت ہوگی۔ اس سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن اپوزیشن کے حلقوں میں مزید توڑ پھوڑ کا باعث بنے گی۔ اگر کچھ ارکان اسمبلی ابھی تک کسی حسن ظن کا شکاریاامید رکھے بیٹھے تھے تو انہیں بے رحم سیاسی حقائق کا ادراک ہوگیا ہوگا۔ ملک میں تبدیلی آئے یا نہ آئے، اپوزیشن جماعتوں میں جگہیں تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوجائے گا۔
تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعدمین سٹریم چینلز کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی دھواں دھار بحث شروع ہوگئی۔ اپوزیشن کو ظاہر ہے شدید دھچکا لگا۔ بلاول بھٹو غریب نئے نئے وادیِ سیاست میں وارد ہوئے ہیں۔ اپنے اتالیق حضرات کی لکھی ہوئی جذباتی تقریریں پڑھنے، بھٹو صاحب کے انداز کی نقل کرنے، پریس کانفرنس میں بات بے بات دلکش انداز میں مسکرانے اور صحافیوں سے اپنی آکسفورڈ انگلش میں جملہ بازی کرنا ہی سیاست گردانتے ہیں۔ وہ بیچارے اپنے والد محترم کو سیاسی دانش کا پہاڑ سمجھتے تھے۔ خیال ہوگا کہ زرداری صاحب کی سجھائی ہوئی چال کارگر ثابت ہوگی۔ بلاول کو اندازہ نہیں کہ جب برا وقت آجائے تب ہر چال الٹ پڑتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے موصوف ایسے جھلائے کہ رکنا مناسب نہیں سمجھا، فوری چلتے بنے۔ مریم نواز صاحبہ کے لئے ایک پریشانی تو یہ کہ ان کی آگ برساتی تقریریں نشر ہوتی نہ اشاعت کے مرحلے سے گزر پاتی ہیں۔ نیب کی پیشیوں اورتیکھے سوالات نے بھی (جدید محاورے کے مطابق )دماغ دہی بنا دیا ہوگا۔ اوپر سے اگر تحاریک عدم اعتماد بھی ناکام ہونے لگیں توظاہر ہے بی بی کا درد ِسر بڑھ جائے گا۔ ایسے میں صرف ٹوئٹر ہینڈل ہی بچتا ہے جہاں غصہ نکالا جا سکے۔ شہباز شریف صاحب پہلے ہی اپنوں، غیروں سب سے خفا، برہم پھر رہے ہیں، ناکامی کی خبر آنے کے بعد انہوں نے بھی چلتے چلتے ایک آدھ جلا بھنا فقرہ کہا اور پھر رخصت ہوگئے۔ رہے مولانا تو وہ شائد 73ء کے آئین کے تناظر میں اس شکست کا تجزیہ فرما رہے ہوں گے۔ البتہ مانڈوی والا کو کامیابی مبارک ہو، اگر اپوزیشن ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مکمل طور پر حصہ لیتی تو وہ بھی خیر سے باہر ہوجاتے۔ قدرت نے سنجرانی صاحب کی جیت کو مانڈوی والا کے لئے سعدشگون بنا دیا۔
تحریک کی ناکامی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سٹیٹس لکھے تو ایک صاحب نے جھنجھلا کرسوال کیا کہ کیا آپ نتیجے سے مطمئن ہیں؟ بھئی سوال میرے اطمینان یا عدم اطمینان کا ہے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی نتیجہ متوقع نہیں تھا؟ کیااپوزیشن کے تھنک ٹینکس کو اندازہ نہیں تھا کہ تحریک ناکام رہے گی، کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ جب انہیں معلوم اور یہ پتہ تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اوران کے لئے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانا ممکن نہیں تو پھر سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ اس چال اور پھر ناکامی سے کیا حاصل ہوا؟ کیا ان کی قوت کا رہا سہا بھرم جاتا نہیں رہا؟ کیا اب اپوزیشن ارکان اسمبلی میں فرسٹریشن نہیں پھیلے گی؟ زرداری صاحب کی فراست کو بھی اکیس توپوں کی سلامی ہے کہ جس شخص کو چیئرمین بنوایا، اسی کے خلاف ناکام تحریک عدم اعتماد پیش کی، جو ناکام ہوئی اور ساتھ ہی اب چیئرمین ان کا نہیں رہا۔
ایک اور صاحب نے سوال پوچھا کہ سینیٹر حضرات نے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ووٹ بدلا، کیا یہ اخلاقی طور پر ٹھیک ہے؟ جواب مشکل نہیں، ظاہر ہے یہ غلط ہے۔ ہر سینیٹر کو اپنی جماعت کے فیصلے کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ اصولی موقف تو یہی ہونا چاہیے اور ہے۔ ارکان سینیٹ کا ٹوٹنا سیاسی، اخلاقی اعتبار سے افسوسناک بات ہے، مگر کیا یہ پہلی بار ہے؟ ہر بار سینٹ کے الیکشن میں کروڑوں روپے بانٹنے جانے کی خبریں آتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے سائز کے مطابق نشستیں نہیں لے پاتیں، ہر صوبائی اسمبلی میں دو چار اپ سیٹ لازمی ہوجاتے ہیں۔ اس غیر اخلاقی کھیل پر سب سیاسی جماعتیں خاموش رہتی ہیں، کیونکہ ایک کی شکست سے دوسرے کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھاکہ سینیٹر بننے کا عمل خواتین کی مخصوص نشستوں کی طرح خودکار ضابطے کے تحت کر دیا جاتا کہ جس پارٹی کی جتنی صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں، اسی حساب سے اسے سینٹ کی نشستیں الاٹ ہوجائیں اور اس پارٹی کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لوگ رکن بن جائیں۔ اس طرح ارکان صوبائی اسمبلی کو گھیرنے کی نوبت ہی نہ آئے اور پیسے خرچ کئے بغیر پارٹیاں اپنے اہم، ضروری ساتھیوں کو سینیٹر بنوا سکیں۔ ایسا مگرکبھی ہوا، نہ ہو گا۔ کیوں؟ اس لئے کہ سیاسی جماعتیں ان تمام معاملات میں شفافیت چاہتی ہی نہیں۔ ایسی خرابیاں رہنے میں انہیں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح چیئرمین سینٹ، ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی خفیہ کے بجائے اوپن ہونا چاہیے، مگر مخصوص مفادات کے تحت ایسا نہیں کیا گیا۔ آج اس کانقصان پھر ان لوگوں کو ہوگیا جنہوں نے ماضی میں یہ فیصلہ کیا تھا۔
اخلاقی، جمہوری طور پر تو یہ سب غلط ہوا۔ جن چونسٹھ سینیٹرحضرات نے اپوزیشن کی تحریک کے حق میں کھڑے ہو کر اپنی حمایت کا غیر رسمی اعلان کیا، انہیں اس تحریک کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہیے تھا۔ پندرہ کے قریب سینیٹرز نے ایسا نہیں کیا۔ مسترد ہونے والے ووٹ بھی مشکوک ہی ہیں۔ عام طور پر قسم اور حلف وغیرہ سے بچنے کے لئے دونوں امیدواروں کے آگے مہر لگا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں اور تکنیکی طور پر ووٹ مسترد ہوا ہے تو یہ اور خفت کی بات ہے۔ اس سطح پر آ کر کر بھی اگر کسی کو ووٹ ڈالنے کا ڈھنگ نہیں آتا تو اسے ویسے ہی نااہل کر دینا چاہیے۔
ایک معصومانہ سوال ہم بھی پوچھنا چاہیں گے کہ تحریک عدم اعتماد میں جو ہوا وہ تو چلیں غلط ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سنجرانی صاحب جب چیئرمین بنے تھے، اس وقت کیا ہواتھا؟ آٹھ سینیٹر رکھنے والی جماعت کا امیدوار چیئرمین بن گیا اور تیس سینیٹر رکھنے والی جماعت کا امیدوار الیکشن ہار گیا تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی جناب سنجرانی کے ساتھ کھڑی تھی۔ بلاول بھٹو نے خوشی سے نہال ہو کر ٹوئٹ کیا، جسے گزشتہ روز بے شمار لوگوںنے شیئر کیا۔ نوجوان بلاول نے لکھا کہ جنرل ضیا کا اوپننگ بلے باز (یعنی بزرگ مسلم لیگی رہنما راجہ ظفر الحق )شکست کھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت سنجرانی صاحب کی حمایت کا کیا اخلاقی، سیاسی جواز تھا؟آج جب حالات بدلے ہیں، نیب نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے خلاف کیسز اوپن کر لئے، ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، تب یہ سب اکٹھے ہوگئے ہیں کہ کسی طرح زور لگا کر نکل بھاگیں۔ چیئرمین سینیٹ تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر بھی سوال پوچھنا چاہیے؟ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ کیا چیئرمین کا رویہ غلط رہا؟ سینٹ میں کارروائی کے دوران وہ حکومتی جماعت کو ناجائز طریقے سے سپورٹ کر رہے یا اپوزیشن کو نقصان پہنچا رہے تھے؟ ایسا کچھ بھی نہیں۔ خود اپوزیشن والے مانتے ہیں کہ چیئرمین سینٹ کا رویہ مثالی ہے۔ ایسے میں پھر تحریک عدم اعتماد بلاجواز اور غیر منطقی چال تھی۔ زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن دونوں بڑے زیرک سیاستدان سمجھے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ عملی سیاست کی نبض پر ان کی انگلی ہوتی ہے اور وہ زمینی حقائق کو خوب سمجھتے ہیں۔ تو اب زمینی حقائق تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی خبر نہیں دے رہے تھے؟ مولانا جیسے بزعم خود ہوشیار اور زرداری صاحب جیسے سمارٹ سیاستدان نے یہ چال کیوں چلی؟ کیا یہ گناہ بے لذت اوردعوت شکست نہیں تھی۔
صاحبو! ہم اخلاقیات، عدم اخلاقیات پر بحث کر ہی نہیں رہے۔ یہ ہارڈ پالیٹیکس ہے، رئیل پالیٹکس جسے جرمن ریال پالیٹیکس کہتے ہیں۔ بے رحم، سفاک، رعایت نہ کرنے والی سیاست۔ یہ پاور پالیٹکس ہے، جس میں اخلاقیات کا کوئی سوال نہیں۔ ہار اور جیت اہم ہے۔ ہارنے والے اخلاقیات کا سوال اٹھاتے ہیں، جیتنے والے صرف مسکراتے ہیں۔