Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Taliban Aarahe Hain

Taliban Aarahe Hain

جمعہ کو پاکستان میں ٹوئٹر کے ٹرینڈز میں سے ایک طالبان کے حق میں تھا۔ #TalibanOurGuardianکے نام سے چلنے والے اس ٹرینڈ میں ہزاروں لوگوں نے ٹوئیٹ کئے، ان میں کچھ افغان بھی تھے جبکہ زیادہ ترپاکستانی تھے۔ پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر اور متنازع مصنف حسین حقانی نے بڑے کرب اور تکلیف کے ساتھ اس ٹرینڈ پر افسوس کا اظہار کیا۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ حسین حقانی کس درجہ اذئیت میں ہیں۔ طالبان مخالف ہر شخص کے ساتھ کم وبیش یہی معاملہ چل رہا ہے۔ گزشتہ روز معروف افغان میڈیا ہائوس طلوع نیوز کی ویب سائٹ پر افراسیاب خٹک کا ایک مضمون پڑھا۔ روایتی فکری مغالطوں اور غلط تصورات سے لبریز اس مضمون میں بھی طالبان کے غلبے والے افغانستان کا خوف جھلکتا تھا۔

اگلے روز ایک نوجوان صحافی دوست نے گفتگو میں اچانک ایک جملہ کہا کہ پاکستان میں طالبان کو گلوریفائی کرنے کا عمل رکنا چاہیے، یہ نامناسب ہے، افغانستان میں سب سٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہیے، ورنہ خانہ جنگی ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے نوجوان ساتھی کو مشورہ دیا کہ افغانستان کے معاملے کو زیادہ سنجیدگی اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں، یوں سادہ سوئپنگ سٹیٹمنٹ سے کام نہیں چلے گا۔ افغانستان کے حوالے سے پیچیدگیاں موجود ہیں۔ وہاں کئی نسلی قومیتیں موجود ہیں، جن کے باہمی اختلافات موجود ہیں، تاہم بعض بنیادی نوعیت کی چیزیں اتنی واضح ہیں کہ تجزیہ کرتے ہوئے یا کوئی بھی سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینے سے پہلے ان پر غور کر لینا چاہیے۔

سب سے اہم یہ کہ طالبان ہی افغانستان کی واحد قوت ہیں، جنہوں نے امریکہ اور دیگر ممالک پر مشتمل غیر ملکی افواج کے قبضہ کے خلاف مزاحمت کی۔ انیس بیس سال تک یہ جدوجہد کرتے رہے، جن میں پچھلے بارہ تیرہ برسوں کی خوفناک اور سخت گوریلا جنگ شامل ہے۔ طالبان نے اس مزاحمت کی بڑی بھاری قیمت چکائی ہے۔ ان کے بانی امیر ملا عمر اپنے آخری چند سال تنہائی میں کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ جب آخری سانسیں لیں تو کوئی عزیز یا رشتے دارقریب نہیں تھا۔ دوسرے امیر ملا اختر منصور امریکی ڈرون حملے سے ہلاک ہوئے۔ موجودہ امیر پر بھی کئی حملے ہوچکے ہیں، ان کا بیٹا لڑتے ہوئے شہید ہوا، بھائی اور دیگر عزیز بھی نشانہ بن چکے ہیں۔ امریکی فوجوں کے افغانستان پر وارد ہونے سے پہلے افغانستان میں جو طالبان قیادت اور کمانڈر موجود تھے، ان کا بڑا حصہ آج موجود نہیں۔ وہ قابض غیر ملکی فوجوں سے لڑتے ہوئے کام آگئے۔ ہزاروں طالبان جنگجوئوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ لاکھوں کی زندگیوں کا بڑا حصہ یہ بیس سالہ جنگ نگل گئی۔ جو تب دس بارہ برس کا تھا، اس کا پورا زمانہ شباب لڑائیوں میں بیت گیا۔ بہت سے زخمی ہوئے، معذور ہوئے۔

طالبان جب امریکی فوج اورا نکے اتحادیوں کے افغان دھرتی پر قبضہ کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، تب افغان عوام کے بعض دوسرے دھڑے نہایت دل وجاں سے امریکیوں کی اطاعت اور چاپلوسی میں لگے تھے۔ وہ تاجک ہو ں (پنج شیری، بدخشانی)، ازبک اور ہزارہ ہوں یا ترکمان وغیرہ یا حامد کرزئی، اشرف غنی، استاد سیاف اور دیگر پرو امریکہ پشتون زعما، ان سب کی قیادت اور اشرافیہ نے امریکہ قبضہ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ امریکیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج بھی یہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجیں رکھے اور پہلے کی طرح انہیں مال ودولت سے نوازتا رہے۔ ان میں سے کسی کو اس سے دلچسپی نہیں کہ زندہ، بیدار، خود دار قوم غیر ملکی قبضہ اور غیر ملکی افواج کی موجودگی قبول نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانوں کی روایتی غیرت، جذبے اور شجاعت کی تمام باتیں صرف کہانیاں ثابت ہوتیں، اگر طالبان بے جگری سے امریکیوں کے خلاف نہ لڑتے۔

صرف افغان طالبان ہی ہیں جنہوں نے افغان قوم کی مزاحمت، عزیمت اور فائٹنگ سپرٹ کی لاج رکھی۔ بدقسمتی سے بیشتر تاجک، ازبک، ہزارہ اور کرزئی، اشرف غنی ٹائپ پشتون لیڈروں نے نہایت افسوسناک کردار ادا کیا۔ انہوں نے لٹیا ہی ڈبو دی۔ تاجکوں میں سے پنج شیری تاجک جنگجووں اور ان کے اساطیری شہرت رکھنے والے کمانڈر احمد شاہ مسعود نے روسی افواج کے خلاف غیر معمولی مزاحمت کی۔ وہ طالبان کے خلاف بھی برسرپیکار رہے۔ احمد شاہ مسعود کا طرز عمل مجموعی طو رپر اینٹی پاکستان رہا، مگر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ انہوں نے غیر ملکی افواج کے خلاف مزاحمت کی۔ اگلے روز معروف صحافی اور کالم نگار برادرم افتخار گیلانی نے اپنے کالم میں وہ پورا قصہ رقم کیاکہ کس طرح احمد شاہ مسعود نے بھارت سے مدد حاصل کی، مگر واضح کر دیا کہ وہ بھارتی فوجی مداخلت کی حمایت نہیں کریں گے۔ اسی طرح جب طالبان کے ہاتھوں ایرانی سفارت کاروں کی ہلاکت ہوئی تو مبینہ طور پر ایرانی فوجی مداخلت کا خدشہ پیدا ہوا۔ احمد شاہ مسعود نے ایرانیوں سے بھی کہا کہ میں طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت کر رہا ہوں، مگر افغان سرزمین پر کسی غیر ملک کی فوج کی آمد کی حمایت نہیں کر سکتا۔ افسوس کہ اسی احمد شاہ مسعود کے ساتھیوں، حامیوں اور مداحین نے بڑے زور شور کے ساتھ امریکی فوجوں کا استقبال کیا، ان کی بھرپور حمایت کی۔ امریکی فوجیوں کے ہاتھوں لاکھوں افغان ہلاک ہوئے، امریکی ڈالروں نے مگر ان تاجک لیڈروں اور ان کے مقلدین کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ طالبان سے نجات پانے کے لئے وہ امریکی افواج کے آگے سرجھکانے اور گھٹنے ٹیکنے پر بھی خوشدلی سے تیار ہوگئے۔ مجھے اندازہ ہے کہ بہت سے احباب کو برا لگے گا، مگر تلخ حقیقت ہے کہ گلبدین حکمت یار جیسے بڑے کمانڈر نے بھی عصر کے وقت روزہ افطار کر دیا۔ وہ برسوں امریکیوں سے نبرد آزما رہے، مگر پچھلے دو تین برسوں میں انہوں نے افغان کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اور ایک طرح سے امریکی تسلط کو قبول کر لیا۔ طالبان نے اس کے برعکس ابتدا ہی سے یہ موقف لیا تھا کہ جب تک غیر ملکی قابض افواج افغانستان سے چلی نہیں جاتیں یا ان کے جانے کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوگا، تب تک ان سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ طالبان نے اپنے لہو کا نذرانہ دیا، مگر اپنی شرائط منوائیں۔

دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی دعوے دار امریکی افواج کو اپنی شکست تسلیم کر کے واپسی کی راہ اپنانا پڑ رہی ہے۔ یہ شکست نہیں تو اور کیا ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر وسائل، جنگی قوت، ٹیکنالوجی کی سبقت اور ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طالبان کوختم نہ کر سکا۔ وہ طالبان لیڈر شپ کے عزم کو ہلا نہیں سکا۔ طالبان میں اختلافات پیدا کرنے، دھڑے بنوانے اور افغان عوام کے دلوں سے دور کرنے کی امریکی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ وہ طالبان کے نیٹ ورک کو نہیں توڑ سکا، اپنی تمام تر کوششوں اور فوج میں اضافوں کے باوجود طالبان کو تسخیر کرنے کی حکمت عملی کارگر نہیں ہوئی۔

جدید امریکی تاریخ میں ہنری کسنجر بہت اہم سفارت کار، مدبر اور دانشور سمجھاجاتا ہے، امریکی حکومتیں، اہم ادارے اور میڈیاکسنجر کی بات کو ہمیشہ اہمیت دیتی رہی ہیں۔ ہنری کسنجر کا ایک مشہور قول ہے کہ اگرریگولر آرمی کسی گوریلا تنظیم کو ختم نہیں کر سکی تو یہ فوج کی شکست ہے۔ گوریلوں کا اپنا وجود اور قوت برقرار رکھنا ہی ان کی جیت ہے۔ اس اعتبار سے امریکہ کو اپنی تاریخ کی ایک بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس بارالبتہ ویت نام جیسی ذلت نہیں اٹھانا پڑی کہ سفارت خانے کی چھت سے امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے لٹک کر بھاگ نکلیں۔ ویت نام میں مگر پورا کمیونسٹ بلاک اور سوویت یونین جیسی قوت ویت نامی گوریلوں کے ساتھ تھی۔

طالبان کے ساتھ کوئی ایک ملک بھی نہیں تھا۔ پوری مغربی دنیا، سوویت یونین اور تقریباً پوری مسلم دنیا امریکیوں کی طرف کھڑی تھی۔ زیادہ سے زیادہ پاکستان کی ڈھکی، چھپی مدد تھی۔ پاکستان کے لئے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کھل کر طالبان کی حمایت کر پاتا، بڑی احتیاط اور پلاننگ کے ساتھ جو کچھ ہو سکا وہ پاکستانی اداروں نے مگر کیا۔ ممکن ہے کبھی اس کی تفصیل سامنے آ سکے۔ پاکستانی مددبہرحال اہم تھی کہ دنیا کی کوئی بھی گوریلا تحریک ہمسایہ میں بیس کیمپ کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی۔ جنگجوئوں کو ہر کچھ عرصے کے بعد واپس لوٹنا پڑتا ہے، اہل خانہ کی حفاظت، زخمیوں کا علاج، سپلائی لائن، سیف ہائوسز وغیرہ۔

اصل کامیابی بہرحال طالبان کی ہے۔ وہ فاتح ہیں۔ مستقبل کے افغانستان میں طالبان کو ان کا شیئر دینا پڑے گا جو یقینی طور پر غیر معمولی ہوگا۔ امریکیوں سے لڑ کر انہیں ہرانے والے افغان طالبان اور امریکیوں کے مطیع بن کرمزے لوٹنے والے دیگر افغان کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ وہ برابر کے سٹیک ہولڈر کیسے ہوں گے؟