افغانستان میں افغان طالبان کی حیران کن کامیابیوں نے ہر ایک کو حیران کر دیا ہے۔ طالبان مخالف حلقوں کے ساتھ جو گزر رہی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، مگر طالبان حامی عناصر بھی ان کی فتوحات سے مبہوت ہوچکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس سرعت اور برق رفتاری کے ساتھ طالبان نے پچھلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران افغان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے، اس کا بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ یہ مان رہے ہیں کہ طالبان نے مئی اور جون کے دوران افغانستان کے اسی پچاسی اضلاع پر کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان کے خاصے بڑے علاقوں پر پہلے ہی سے طالبان کا عملاً کنٹرول ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان اس وقت افغانستان کے اسی فیصد(80%) اضلاع پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
ایک معروف امریکی نیوز ویب سائٹ کے مطابق طالبان دانستہ چند ایک بڑے شہروں پر قبضہ نہیں کر رہے۔ مزار شریف اور بعض دوسری جگہوں سے طالبان جنگجوئوں کی آگے بڑھنے کی رفتار دانستہ سست کی گئی اور کہیں کہیں انہیں پیچھے بلا لیا گیا۔ اس کے پیچھے طالبان کی عمدہ حکمت عملی کارفرما ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر کسی بڑے شہر پر قبضہ ہوا تو امریکی فوجیوں کو افغان فوج کی حمایت میں طالبان پر فضائی حملے کرنے پڑیں گے۔ طالبان اس خواہ مخواہ کے تصادم سے بچتے ہوئے سردست ان اہم شہروں کے آس پاس کے اضلاع پر قبضہ کر رہے ہیں۔
افغانستان کثیر النسلی ملک ہے۔ پشتونوں کی اکثریت ہے، ان کے بعد دوسرے بڑے نسلی گروہوں میں تاجک، ازبک اور پھر ہزارہ، ترکمان شامل ہیں۔ طالبان بنیادی طور پر پشتون ہیں، مگر پچھلے چند برسوں میں انہوں نے تاجک، ازبک عوام کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا اثرونفوذ شمالی افغانستان میں خاصا بڑھا ہے۔ پچیس سال پہلے طالبان جب افغانستان پر قابض ہوئے، تب شمالی افغانستان خاص کر مزار شریف وغیرہ میں انہیں بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مزار شریف پر قبضے کے دوران وہاں ایرانی قونصل خانے کے بعض سفارت کار مارے گئے تھے، جس سے ایران کے ساتھ طالبان کی شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔ امریکہ کے خلاف مزاحمت کے دوران طالبان نے ایران کے ساتھ تعلقات خاصے بہتر کئے اور اب وہ افغانستان کی غیر پشتون نسلی برادریوں کو ساتھ لے کر چلنے کے اشارے دے رہے ہیں۔
افغانستان میں روایتی طور سے طالبان کا اثرورسوخ جنوبی مغربی افغانستان، جنوبی افغانستان اور مشرقی افغانستان کے علاوہ سینٹرل افغانستان کے کچھ علاقوں میں رہا ہے۔ شمال مشرقی افغانستان اور شمال مغربی افغانستان میں تاجک، ازبک غالب رہے، جبکہ سینٹرل افغانستان میں وادی پنج شیر اساطیری تاجک گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کا مستقر رہی۔ طالبان اپنے پچھلے پورے دور اقتدار میں مسعود سے اس کا علاقہ نہیں لے سکے۔ مغربی افغانستان کے فارح، ہرات وغیرہ جیسے علاقے ایران کے ساتھ ملتے ہیں، وہاں بھی فارسی بان آبادی اور ایرانی گہرے اثرات موجود ہیں۔
اگر افغانستان کے ان حصوں کو مزید غور سے دیکھیں تو شمالی مشرقی افغانستان میں بدخشاں، بغلان، قندوز، تخار کے صوبے آتے ہیں۔ یہ صوبے پڑوسی ملک تاجکستان سے ملحق ہیں۔ مرحوم پروفیسر برہان الدین ربانی بدخشاں کے تاجک تھے۔ یاد رہے کہ بدخشانی تاجکوں کے ساتھ پاکستان کا تعلق نسبتاً بہتر رہا ہے جبکہ پنج شیری تاجک مسعود کے زمانے سے اینٹی پاکستان رہے، موجودہ افغان نائب صدر امراللہ صالح بھی پنج شیری ہیں۔ پچھلے ڈیڈھ ماہ میں طالبان نے بدخشاں، بغلان، قندوز اور تخار کے علاقوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے تاجکستان افغانستان سرحدی علاقہ پر کنٹرول سنبھال کر تاجکستان کراسنگ بند کر دی ہے۔ یہ اہم عسکری کامیابی ہے۔
شمال مغربی افغانستان میں سب سے اہم صوبہ بلخ جس کا دارالحکومت مزار شریف مشہور ازبک شہر ہے، یہ ازبک کمانڈر جنرل دوستم کا گڑھ رہا۔ اس کے علاوہ فاریاب، جوزجان، سمنگان، سرپل کے صوبے شامل ہیں۔ بلخ پڑوسی ملک ازبکستان کے ساتھ ملحق ہے جبکہ جوزجان، فاریاب وغیرہ پڑوسی ملک ترکمانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ سینٹرل افغانستان میں کابل کے علاوہ بامیان، کیپسیا، لوگر، پنج شیر، پروان، وردک کے صوبے شامل ہیں۔ طالبان نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ کابل سے ملحقہ صوبوں، وردک، لوگر، پروان وغیرہ میں کئی اضلاع پر قبضہ کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔ وہ دراصل کابل کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔
مشرقی افغانستان میں کنٹر، لغمان، نورستان کے علاوہ ننگرہارجس کا دارالحکومت مشہور شہر جلا ل آباد ہے، شامل ہے۔ کنٹر اور نورستان پاکستانی قبائلی علاقوں کے ساتھ ملحق ہیں، ٹی ٹی پی کے بیشتر لوگوں نے وہاں پناہ لی۔ مغربی افغانستان میں بدغس، فارح، غور، ہرات شامل ہیں، یہ بیشتر علاقے ایران سے ملتے ہیں۔ جنوبی افغانستان میں غزنی، خوست، پکتیا، پکتیکا شامل ہیں، یہاں طالبان ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔ معروف طالبان کمانڈر مولوی جلال الدین حقانی روس کے خلاف مزاحمت میں فاتح خوست بنے تھے۔ جنوب مغربی افغانستان میں ہلمند، قندھار، نیمروز، اورگزان، زابل، دایکندی کے صوبے ہیں۔ طالبان کے بانی ملا عمر کا تعلق قندھار سے تھا۔ یہ سب علاقے طالبان کا گڑھ ہیں۔ ہلمند میں سب سے زیادہ مغربی فوجی مارے گئے تھے۔
غیر ملکی افواج کی واپسی کی حتمی تاریخ اگرچہ گیارہ ستمبر ہے، مگر اگلے دو ہفتوں کے دوران امریکی اور نیٹو افواج کا تقریباً انخلا مکمل ہوجائے گا۔ جیسے ہی امریکی فوجیں افغانستان سے روانہ ہوجائیں گی، توقع ہے کہ طالبان جنگجو بھی بڑے شہروں پر دھاوا بول دیں گے۔ تب کابل پر بھی دبائو بڑھایا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ افغان حکومت اور سرکاری فوج کتنے عرصہ تک طالبان کے دبائو کا مقابلہ کر پائے گی؟ پہلے امریکی انٹیلی جنس ذرائع کا اندازہ تھا کہ نیٹو افواج کے نکلنے کے دو سال کے اندر افغان حکومت طالبان کے سامنے گر جائے گی۔ ممتاز امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے دو دن پہلے تازہ ترین امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اب خیال ہے کہ اشرف غنی کی حکومت چھ ماہ نکال پائے گی۔ طالبان کی عسکری حکمت عملی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں یہ مدت بھی زیادہ ہے اور چند ہفتے یا بمشکل تین چار ماہ ہی کافی ہوں گے۔
طالبان کی اس کامیابی کی وجوہات تو کئی ہیں، ان پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے۔ حالیہ فتوحات کی بڑی وجہ افغان سرکاری فوج کی نالائقی، نااہلی اور کمزور ڈسپلن ہے۔ افغانستان کی حکومتوں کو پچھلے بیس برسوں میں امریکیوں نے بے شمار ارب ڈالردئیے۔ سب کرپشن، بدانتظامی اور حکمرانوں کی خود غرضی کی نذر ہوگئے۔ حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک ہر ایک کی حکومت اور انتظامیہ نے جی بھر کر دولت لوٹی۔ حامد کرزئی کے آج کل کے بیانات پڑھیں تو لگے گا کہ کوئی بڑا افغان مدبر یا اللہ کا ولی گفتگو کر رہا ہے۔ کرزئی صاحب افغانستان کی تباہی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے خود، ان کے قریبی ساتھیوں اور انتظامیہ نے بے پناہ کرپشن کی، انفراسٹرکچر بننے نہیں دیا، ادارے مضبوط نہیں کئے اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی۔ اشرف غنی بڑے بلندبانگ دعوے کر کے آئے تھے، کارکردگی ان کی بھی بدترین رہی۔
ہر کسی کو علم تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان ملک بھر میں حملہ آور ہوں گے۔ کامن سینس تو یہی کہتی ہے کہ طالبان کا دفاع کرنے کے لئے افغان سرکاری فوج کو زیادہ سے مضبوط بنایا جاتا، جدید ترین ہتھیار ملتے، باقاعدگی سے تنخواہیں، بھرپور فوجی مشقیں اور فوج کی مدد کے لئے تربیت یافتہ، منظم پولیس فورس اور دیگر شہری ادارے بنتے۔ اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ بیشتر جگہوں پر فوجیوں کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، ان کا مورال انتہائی پست، ڈسپلن نہ ہونے کے برابر، فوجی استعداد معمولی اورلڑنے کا جذبہ سرے سے مفقود ہے۔ افغان سرکاری فوج کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ طالبان حملوں کے نتیجے میں تیزی سے یہ فوجی منحرف ہو کر طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں یا پھر وہ اپنے ہتھیار طالبان کے حوالے کر کے محفوظ راستہ مانگتے ہیں کہ ہمیں گھر جانے دو، تمام گنیں، ٹینک، توپیں وغیرہ خود رکھ لو۔ اسی وجہ سے بیشتر اضلاع میں فوجی پسپا ہوئے اور طالبان چھاتے جا رہے ہیں۔ ابتدا میں افغان حکومت نے کہا کہ ہم دانستہ حکمت عملی کے تحت بعض شہر خالی کر رہے ہیں، مگر اب یہ بات مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ کون سی حکومت اپنا ستر اسی فیصد علاقہ خالی کر کے مخالف لشکر کے حوالے کرتی ہے؟
صدر اشرف غنی کی یہ صورتحال ہے کہ ایک مغربی ویب سائٹ نے امریکی ماہر کے حوالے سے لکھا، " اشرف غنی صدارتی محل میں تنہا، دلبرداشتہ اور غیر متعلق ہوئے بیٹھے ہیں۔ وہ صرف تین چار لوگوں سے بات کرتے ہیں، اپنے چیف آف سٹاف، اپنے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور ظاہر ہے اپنی بیوی سے۔"اشرف غنی سے کئی ملاقاتیں کرنے والے اس ماہر کے مطابق اشرف غنی فطرتاً شکی مزاج ہیں اور وہ کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ اس سب کے نتائج وہی نکلنے تھے، جو سامنے ہیں۔
طالبان کی پیش قدمی اور افغان فوج کی پسپائی اورمسلسل شکست کے بعد مزار شریف اور بعض دیگر جگہوں پر اہم افغان لیڈروں نے مقامی کمانڈروں، ان کی ملیشیا اور مختلف نسلی، مذہبی تعصبات کی بنا پر نوجوانوں کو اکٹھا کر کے لشکر بنانے کی کوشش کی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جن طالبان کا امریکی فوجی مقابلہ نہ کر سکے، ریگولر افغان سرکاری فوج پسپا ہوگئی، ان کا مقابلہ مقامی وارلارڈز اور ملیشیاز کب تک کر لیں گی؟