Taqreer Aur Iss Ke Baad
Amir Khakwani129
کالم نگاروں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کالم کا موضوع، مواد، اس کے لئے وقت سب کچھ میسر ہے، مگر اس دن کالم نہیں دے سکتے کہ ہر کالم نگار کو مخصوص دن الاٹ ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارا کالم جمعہ، اتوار، منگل کو شائع ہوتا ہے۔ عمران خان کی تقریر کے اگلے روز اس پر لکھنے کا ارادہ تھا، مگر ممکن نہیں ہوسکا، اب دو دن گزر گئے، کئی سینئر ساتھیوں نے اس پر لکھ بھی ڈالا۔ اس کے باوجود ہم بھی اپنا کتھارسس کر یں گے، اس لئے کہ اس رات اپنے زیادہ دلچسپ، مفید کام چھوڑ کر خان صاحب کی خاطر نصف شب تک نیوز چینلز دیکھے، تقریر کی تکنیکی خرابیوں سے بے مزا ہونے کے باوجود ٹی وی بند نہیں کیا اور آخری لفظ تک پوری تقریر سنی۔ دوسرا پورے دو دنوں تک تبصرے کونہایت تحمل، برداشت سے سنبھالے رکھا اور سوشل میڈیا پر آویزاں نہیں کیا۔ خان صاحب کی تقریر کا وقت نہایت نامناسب، غلط اور عاقبت نااندیشانہ تھا۔ نصف شب کو تقریر کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ ایسی کیا آفت آ گئی تھی؟ اس تقریر میں ایسا کیا تھا، جسے اگلے دن نہیں کہا جا سکتا تھا؟ ایسی جلدبازی، اتاولا پن بچوں میں ہوتا ہے اور انہیں ہی زیب دیتا ہے۔ ہمارا سب سے چھوٹا فرزند عبداللہ خاکوانی اکثر کاموں میں ایسی جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ اگر رات کو نو بج کر پچپن منٹ پر اسے خیال آجائے کہ اپنے سکول کی کلرنگ بک میں رنگ بھرنے ہیں تو پھر وہ دس بمشکل بجنے دے گا۔ جس قدر سمجھایا جائے کہ یہ کام صبح بھی ہوسکتا ہے، اس وقت ایسی کیا آفت آگئی؟ عبداللہ کا ذہن مگر اپنی" تخلیقی آمد "کے حوالے سے بڑا حساس ہے اور دس میں سے نو مواقع پر وہ ٹھیک دس بجے ڈرائنگ اور کلرنگ کرتا نظر آئے گا۔ عبداللہ مگر صرف ساڑھے پانچ سال کا ہے اور اس کی معصوم، چمکتی سیاہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو فوری آ جاتے ہیں جنہیں دیکھنا اور سہنا بڑا مشکل کام ہے۔ کسی بھی بڑے، بالغ فرد، خاص کر کسی سیاستدان اور پھر اس سے بھی اگلی سطح پر ملک کے وزیراعظم کو اتنا جلدباز، من مانی کرنے والا نہیں ہونا چاہیے۔ اس تقریر کی ٹائمنگ غلط تھی، جسے کسی بھی صورت ڈیفنڈ نہیں کیا جا سکتا۔ تقریر کرنے کا بہترین وقت وہی ہے جو اسی، نوے کے عشرے سے حکمران کرتے آئے ہیں، یعنی رات آٹھ بجے۔ آٹھ سے نو بجے پورا گھرانہ عام طور پر سے ٹی وی کے آگے موجود ہوتا ہے۔ اگر اس وقت نہیں ہو پایا تو رات کے خبرنامے کے بعد یا پھر دس بجے تک کا وقت موزوں ہے۔ خدانہ کرے اگر ملک میں انقلاب آ جائے اور میرے عزیز ہم وطنو کہنے کی نوبت آ جائے، تب دوسری بات ہے۔ پھر تونہ صرف وقت بلکہ زندگی کے تمام پیمانے بدل جاتے ہیں۔ تقریر میں جو خوفناک قسم کی تکنیکی غلطیاں ہوئیں، انہیں دیکھ کر افسوس بلکہ صدمہ ہوا۔ یہ صرف عمران خان کی حکومت یا تقریر ریکارڈ کرانے والے عملے کی غلطی نہیں بلکہ نیشنل لیول کا ایشو ہے۔ ایسی غلطی جس سے عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوئی اور بہت برا تاثر قائم ہوا۔ پی ٹی وی ہمیشہ سے حکمرانوں کی تقاریر بڑے عمدہ اور پروقار طریقے سے ریکارڈ کر کے چلاتا ہے۔ ان کے پاس اس کے لئے دستیاب وسائل اور تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔ اگر اس بار باہر سے یہ کام کرایا گیا تو ایسا کیوں ہوا؟ اگر سرکاری چینل کے عملہ کی غلطی ہے تو ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے۔ وزیراعظم کے ایڈوائزرز میں سے جس نے تقریر کی ذمہ داری اپنے ذمے لی تھی، اسے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، نہیں تو یہ شبھ کام وزیراعظم کوانجام دینا چاہیے۔ تقریر کے دو تین الگ الگ حصے تھے، ان پر الگ سے بات ہونی چاہیے، مجموعی طور پر تقریر کو ایک جملے میں رد یا اس کی مدح کرنا انصاف نہیں۔ بدقسمتی سے زیادہ تر نے ایسا ہی کیا۔ تقریر کا پہلا حصہ رٹے رٹائے، یکسانیت زدہ، مخصوص جملوں پر مشتمل تھا۔ وہ سب باتیں جو وزیراعظم کئی بار کر چکے تھے۔ ان سب کو دہرانابیکار کی مشق تھی۔ سننے والوں کو بور کرنے اور سونے پر مجبور کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مصرف نہیں تھا۔ ہم نے استادوں سے یہی سیکھا تھا کہ تحریرکا پہلا جملہ ہی چونکا دینے والا اور دلچسپ ہو۔ یہ پہلا جملہ پہلے پیرے کو پڑھائے گا اور پہلا پیرا اگر دلچسپ اور پڑھنے والے کو باندھ کر رکھنے والا نہ ہو تو پھر وہ شروع ہی سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ تحریر میں آگے جا کر جتنے مرضی پھول، بوٹے کاڑھ دئیے جائیں، کوئی فائدہ نہیں۔ تقریر کی مثال بھی یہی ہے۔ اچھا مقرر اپنے ابتدائی جملوں سے سننے والوں کو گرفت میں لے لیتا ہے، وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ آخر تک پوری تقریر بیٹھ کر سنیں۔ اچھا تقریر لکھنے والا بھی یہی کرتا ہے۔ ہمارے سکول کالج کے زمانے میں جنرل ضیاء الحق صدیق سالک کی لکھی تقاریر کیا کرتے۔ کیا شاندار زبان اور مضبوط، جڑی ہوئی تقریر ہوتی، دلنشیں اشعار سے مزین۔ بی بی کی اردو کمزور تھی، ان کے پاس بھی تقریر لکھنے والے موجود تھے۔ میاں نواز شریف کبھی اچھے مقرر نہیں بن سکے، مگر انہیں بہترین تقریر نویسوں کی خدمات حاصل تھی، ان میں ہمارے بہت سینئر صحافی حضرات شامل ہیں۔ میاں نواز شریف نے بعض عمدہ، کبھی نہ بھولنے والی تقاریر اسی وجہ سے کیں۔ غلام اسحاق خان ڈکٹیشن نہیں لوں گا والی تقریر کا آہنگ کبھی دوبارہ سن کر دیکھئے گا، خون جوش مارنے لگتا ہے، یا ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد والا قوم سے خطاب۔ عمران خان بہت اچھے خطیب نہیں۔ وہ اگر لکھی ہوئی تقریر پڑھیں تو زیادہ بہتر ہے۔ عمران خان شائد اس میں اپنی توہین سمجھتے ہیں، تقریر ریکارڈ کرانے پر بھی وہ بمشکل تیار ہوتے ہیں۔ مذہب خان صاحب کا فیلڈ نہیں، اگرچہ انہیں زعم ہے کہ اقبال کو پڑھنے اور ایک دو مخصوص سکالرز کو پڑھنے سے وہ دینی سکالر اور دانشور بن گئے ہیں۔ ایسا مگر ہے نہیں۔ جب بھی خان صاحب مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی سنگین غلطی ان سے ہوجاتی ہے۔ اس تقریر میں بھی جنگ بدر، احد کا تذکرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اگر بولنا تھا تو کسی دین کا علم رکھنے والے سے مشورہ کر لیتے، غلطی سرزد نہ ہوتی۔ انہیں اس غلطی پر قوم سے معذرت کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام کا احترام ایک حساس مسئلہ ہے، عمران خان کو یہ نزاکت سمجھنا ہوگی۔ تقریر کا دھمکی آمیز لہجہ بھی غیر ضروری تھا۔ سیاسی جلسوں میں شعلہ فشانی اور قوم سے خطاب میں فرق ہوتا ہے۔ NROنہ دینے والی بات وہ بار بار کرتے ہیں۔ اس کی وضاحت بھی فرمائیں۔ کیسز کی تحقیقات نیب کر رہی ہے جو آزاد باڈی ہے، وزیراعظم اسے حکم بھی نہیں دے سکتا۔ احتساب عدالتیں ہمارے نظام انصاف کا حصہ ہیں، انہیں بھی حکومت ڈکٹیشن نہیں دے سکتی۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی آزادی، طاقت، اختیار مسلمہ ہیں۔ وزیراعظم کی کیا مجال کہ انہیں ہدایت دے۔ اعلیٰ عدالتیں اگر چاہیں تو میاں نواز شریف کی ضمانت لے لیں اور انہیں باہر جانے کی اجازت دے دیں، حکومت کوبھی روک دیں کہ انہیں نہ روکا جائے۔ ایسے میں وزیراعظم اپنے این آر او نہ دینے کی دھمکی کے باوجود کیا کر پائیں گے؟ یہ سب کچھ اب بہت زیادہ (Too Much )ہوگیا ہے۔ خان صاحب کو نیا بیانیہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تقریر کا ایک حصہ سب سے مدلل اور فوکسڈ تھا۔ جب انہوں نے اعداد وشمار کے ساتھ سمجھایا کہ پچھلے دس برسوں میں چوبیس ہزار قرضہ لیا گیا جبکہ اس سے پہلے کے ساٹھ برسوں میں صرف چھ ہزار قرضہ تھا۔ اسی طرح مشرف کے دور تک اکتالیس ارب ڈالربیرونی قرضہ تھا جو پچھلے دس برسوں میں ستانوے ارب ڈالر تک پہنچ گیا، یعنی چھپن ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو نواز شریف صاحب کو مئی 2013ء میں ڈھائی ارب ڈالر ملا تھا، اب وہ ساڑھے انیس ارب ڈالر ہے۔ عمران خان نے دلیل کے ساتھ یہ بات سمجھائی کہ معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں اس وقت کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا حصہ ہے اور جو تباہ حال معیشت اس وقت ہے، اس میں تحریک انصا ف کا کوئی حصہ نہیں۔ اڈہ پلاٹ والی اپنی مشہور تقریر کی طرح عمران خان نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے نکات قوم کو سمجھائے اور اپنے ووٹرز، ورکرز کو ایک واضح بیانیہ دیا۔ چوبیس ہزار ارب قرضہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن کا اعلان بھی خوش آئند ہے، اس کمیشن کو جس تیزی سے بنایا جا رہا، اس کے ٹی آو آرز طے ہو رہے ہیں، وہ بھی مثبت پیش رفت ہے۔ احتساب اور کرپشن ختم کرنا عمران خان کے بنیادی نعروں میں سے ایک ہے۔ اپوزیشن کو خواہ یہ نعرے کس قدر ناپسند ہوں، پی ٹی آئی کو بہرحال اس بنیاد پر مینڈیٹ ملا ہے۔ اس ایجنڈے کویہ حکومت پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ بنیادی بات مگر یاد رکھنا ہوگی کہ ماضی کی حکومتوں کا احتساب کرنا الگ معاملہ ہے اور خود ڈیلیور کرنا الگ بات۔ فیصلہ اسی پر ہوگا کہ عمران خان اور اس کی حکومت نے عوام کے لئے کیا کیا؟ صرف پچھلوں کو چور اور لٹیرا کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ انہیں زیادہ سے زیادہ اگلے بجٹ تک کی مہلت مل سکے گی۔ پھر ایسی نصف شب کو کی جانے والی پرجوش تقاریر بھی عمران خان کو سہارا نہیں دے پائیں گی۔