عمران خان کے ریفارمز کے ایجنڈے کو ہم نے پچھلے الیکشن میں سپورٹ کیا۔ ان کی حکومت بن گئی تو شروع کے سو دن سکون سے بیٹھے رہے، پھر ہلکی پھلکی تنقید شروع کی۔ اب جب حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا، حکومتی ترجیحات، وزیراعظم کی ٹیم سامنے آ گئی۔ ٹیم سلیکشن میں کی گئی بدترین غلطیاں واضح ہوئیں، ان پر وزیراعظم کا اصرار بھی نظر آیاتب لگا کہ اب کھل کر تنقید کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ کالموں کی حالیہ سیریز اسی سلسلے میں لکھی گئی۔ اب تک تین مسلسل کالم اس حوالے سے لکھے، پہلے میں تمہید، جبکہ باقی دونوں میں تنقیدی نکات شامل ہیں۔ ایک کالم ابھی میں لکھنا ہے۔ اس میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ خان صاحب نے ایک سال میں کچھ کھویا ہے تو کیا کچھ حاصل کیا؟
اس دوران البتہ ان کالموں پربعض اعتراضات، سوالات سامنے آئے، بعض احباب سوشل میڈیا کمنٹس میں جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہے۔ بعض دل جلوں نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگوں کی رائے غلط ہوئی مگر اس دوران خان صاحب تو ملک پر مسلط ہوگئے۔ اس پر لگا کہ کالمون کی سیریز تو اپنی جگہ مگر پہلے لگے ہاتھوں اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا جائے۔ چندضروری نکات اختصار کے ساتھ عرض کئے دیتا ہوں۔ صرف ان کے لئے جوبات سمجھنا چاہئیں۔
پہلی بات یہ کہ عمران خان نے ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ کے قریب ووٹ لئے ہیں۔ پاکستان کے تمام اخبارات کی اشاعت مل کر بھی پانچ سات لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ان میں سے کتنے کالم پڑھتے ہیںاور کتنے کالم پڑھ کر ووٹ ڈالتے ہیں؟ ہمیں اپنے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح، کالم پڑھنے والوں کی تعداد، کسی کالمسٹ کی رائے کو مقدس سمجھنے والوں کی تعداد کا درست اندازہ ہے۔ سوشل میڈیا پربھی ایک مخصوص حلقہ ہے جو باہمی انٹرایکشن کی وجہ سے ایک دوسرے کی پوسٹیںدیکھتا اور سمجھتا ہے کہ دنیا شائد ہے ہی اتنی۔ حال یہ ہے کہ آپ چھ آٹھ ماہ کے لئے اپنے گھروالوں کی پوسٹیں پڑھنا، ان پر کمنٹس چھوڑ دیں تو فیس بک اپنے مخصوص سسٹم کی وجہ سے ان کی پوسٹیں آپ کو دکھانا ہی بند کر دے، سوشل میڈیا کی دنیا میں گھر والے ہی اجنبی بن جائیں گے۔ عمران خان اپنے ووٹروں کی وجہ سے وزیراعظم بنا، میڈیا یا سوشل میڈیا کا اس میں ایک حصہ ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر تجزیہ کار جانتا ہے، اعتراف نہ کرے تو الگ بات ہے۔
یہ مت بھولا جائے کہ عمران خان کل بھی ایک سیاسی حقیقت تھا، آج بھی ہے۔ یہ کہنا کہ وہ ختم ہوگیا، غلط فہمی ہے۔ اس کی اپنی فالوئنگ ہے، ووٹ بینک اور مداحین کا خاصا وسیع حلقہ، سیاسی اصطلاح میں وہ عصبیت کا حامل ہوچکا۔ اتنی آسانی سے یہ عصبیت ختم نہیں ہوسکتی۔ عمران خان کی حکومت کا پہلا سال مایوس کن رہا ہے۔ اس سے بہت زیادہ توقعات تھیں، وہ پوری نہیں ہوئی۔ اس اعتبار سے اس کی ناکامی ہوئی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آگے جا کر اپنی غلطیاں درست نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس چار سال باقی ہیں، اگر ٹیم میں تبدیلیاں لے آئے، فوکس کرے، اہل لوگوں سے مشاورت کرے توپرفارم کرنے کا وقت موجود ہے۔
عمران خان آج بھی بہرحال ن لیگ کے سیاسی کرپٹ مافیاز اور ملکی تاریخ کے کرپٹ ترین شخص کی شہرت رکھنے والے زردار گروہ سے بہتر ہے۔ یہ دونوں جماعتیں گیارہ سال براہ راست حکمران رہیں جبکہ مشرف دور کو نکال کر پچھلے تیس برس سے صرف یہ دونوں فریق ہی سیاست میں موجود ہیں، ملک پربے پناہ قرضے لادنے، ادارے تباہ کرنے اور معیشت کی کمر توڑنے میں ان کا مرکزی کردار ہے۔
عمران خان ایک سیاسی آپشن تھا، اور ہے، شائد مستقبل میں بھی رہے۔ پنجاب کی سیاست میں خاص طور سے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہی دو ٓپشنز تھیں۔ ن لیگ پچھلے دس برسوں سے اقتدار میں تھی، جبکہ تحریک انصاف کو کبھی موقعہ نہیں ملا تھا، وہ نظام میں تبدیلی اور اصلاحات لانے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے۔ انہیں آزمانا ایک فطری اور منطقی چوائس تھی۔ اس کے بجائے ن لیگ ہی کو دوبارہ ووٹ ڈالنا قطعی دانشمندانہ سوچ نہ ہوتی نہ اس سے موجودہ معیشت سنورنی تھی۔ پی پی پی اور ن لیگ ہی کے باعث معیشت کے حالات بگڑے ہیں۔ ن لیگ ہی نے ایکسپورٹ پچیس ارب ڈالر سے انیس بیس ارب ڈالر تک پہنچائی تھی اورساڑھے انیس ارب ڈالر کا خوفناک کرنٹ اکائونٹ خسارہ ن لیگ کی حکومت ہی چھوڑ کر گئی۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا گردشی قرضہ( بارہ سو ارب سے زائد) مسلم لیگی حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔ سٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی تباہی میں پیپلزپارٹی اورن لیگ دونوں کا حصہ ہے۔ اس لئے ان کے پرجوش، اندھے حامیوں کو تو کوئی منطقی، اخلاقی حق نہیں پہنچتا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے والے کسی شخص کو طعنہ دے سکیں۔
عمران خان اگر پرفارم نہ کر پائے، اس کی حکومت پہلے سال کی طرح اپنی پوری مدت میں بھی ناکام ہوجائے، تب بھی اسے ووٹ دینا غلطی نہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی باہمی مفاہمت اور نورا کشتی نما فرینڈلی اپوزیشن سے نالاںلوگوں کے پاس عمران خان کی حمایت کے سوا اور کیا آپشن بچی تھی؟مسلم لیگ ن کے پاس یہ موقعہ تھا کہ وہ تحریک انصاف کے ریفارمز کے ایجنڈے کو ہائی جیک کر کے نظام میں تبدیلیاں لانے کی بامقصد، ٹھوس کوشش کرتی۔ اس نے سستی روٹی تنور، لیپ ٹاپ سکیموں پر اربوں اڑا ڈالے، مگر سوشل سیکٹر پر ویسی توجہ نہ دی۔ نیب کی موجودہ کارکردگی سے مسلم لیگ ن کے لیڈر اتفاق نہیں کرتے، ان سے سوال پوچھناچاہیے کہ اپنے دور حکومت میں احتساب کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ نیب قوانین میںخامیاں تھیں تو نہایت آسانی سے وہ تبدیلی کر سکتے تھے کہ واضح اکثریت موجود تھی۔ انہوں نے کرپشن کو ایجنڈا بنانے کی زحمت ہی نہیں کی اور کرپشن فرینڈلی ماحول ہی بنائے رکھا۔ مسلم لیگ ن کی غلطیوں کی وجہ سے سیاسی خلا پیدا ہوا اور تحریک انصاف کے لئے جگہ پیدا ہوئی۔ نظام میں تبدیلی لانے کے خواہاں لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا۔ اگر یہ پرفارم نہ کر پائی اور مکمل ناکام ہوگئی تو اگلی بار انہیں رد کرنے، ووٹ نہ دینے اور کسی دوسری آپشن کی طرف جانے کا جواز موجود ہے۔
اگر تحریک انصاف بھی ن لیگ اور پی پی پی کی طرح پرفارم نہ کر پائی اور اس کے لوگ کرپشن میں ملوث ہوئے، تب بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف واپسی کوئی آپشن نہیں۔ دونوں پرانی جماعتیںجب تک اپنی سیاست پر نظرثانی نہیں کرتیں۔ پارٹی کو خاندانی جاگیر سمجھنے، شہزادوں، شہزادیوں کو عوام پر مسلط کرنے، کرپٹ گھسے پٹے مہروں کو ساتھ لے کر چلنے کی روش پر سفر جاری رکھیں گی، تب تک انہیں سپورٹ کرنے کا جواز موجود نہیں۔ تحریک انصاف کی ناکامی پہلے سے ناکام شدہ لوگوں کی طرف لوٹنے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
تحریک انصاف کے پرجوش حامیوں کو عمران خان اور ان کی ٹیم پر تنقید ناگوار گزرتی ہے۔ انہیں برداشت کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اپوزیشن میں جو رعایتیں میسر ہوتی ہیں، حکمران جماعت کے حامیوں کووہ نہیں مل سکتیں۔ حکمران جماعت کے ہر فیصلے کا جائزہ لیا جائے گا، اس پر تنقید بھی ہوگی، نیت پر شک بھی لازمی کیا جائے گا۔ کرپشن سکینڈلز اگر سامنے آئیں تو صحافی کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟کل جن باتوں پر تحریک انصاف کے لیڈر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو طعنے دیتے ہیں، وہ حرکتیں آج ان سے سرزد ہوں تو انہیں آئینہ کیسے نہیں دکھایا جائے گا؟میڈیا تنقید کرے گا کہ یہ اس کا کام ہے۔ ممکن ہے کہیں اس میں زیادتی ہوجائے، اخبارنویس بھی انسان ہیں، ہر جگہ وہ متوازن رویہ نہیں دکھا پاتے۔
یہ بنیادی بات سمجھنا چاہیے کہ میڈیا کے مختلف حصے اور بہت سی پرتیں ہیں۔ میڈیا ہائوسز کی پالیسیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہیں، مختلف کالم نگار اور اینکر حضرات اپنے انداز اور سوچ کے مطابق بات لکھتے اور کہتے ہیں۔ مختلف شہروں اور اداروں میں کام کرنے والے یہ لوگ ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر حکمت عملی نہیں بناتے۔ ان پر طعن کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھی جائے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید میں شدت آئی تو اس کی ایک وجہ ایک سال پورا ہونا بھی ہے۔ پہلے سال تک لحاظ کرنے، خاموش رہنے کا جواز تھا کہ نئے لوگ ہیں، ماحول سے ہم آہنگ ہوجائیں، اپنی ترجیحات درست کر لیں۔ سال گزر جانے کے بعد رعایت ختم ہوگئی۔ اب گزرتے وقت کے ساتھ حکمران جماعت پر تنقید بڑھے گی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں، حامیوں کو برداشت کی عادت ڈالنا ہوگی۔ بعض ن لیگی احباب پرو پی ٹی آئی اخبارنویسوں کی تنقیدسے یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ شائد اسٹیبلشمنٹ کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور خان صاحب کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اس سازشی تھیوری سے باہر آئیے، خواہ مخواہ چند دنوں بعد مایوسی ہوجائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ وہی ہے۔ حکومت، عسکری قیادت ایک ہی پیج پر ہیں۔ آزاد اخبارنویسوں کی تنقید کو درست تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو سب سوالات کے جواب مل جائیں گے۔