Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Wazir Azam Ilmi Idaron Ko Bhi Tahafuz Dain

Wazir Azam Ilmi Idaron Ko Bhi Tahafuz Dain

وزیراعظم عمران خان پر بعض اوقات ترس آتا ہے۔ امور مملکت میں وہ نئے ہیں، انتظامی معاملات سنبھالنے کا تجربہ موجود نہیں۔ ایسے میں غلطیاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ افسوس کہ انہیں ناتجربہ کار اور عاقبت نااندیش ٹیم کا سامنا ہے۔ اپنے ٹیم لیڈر کے لئے آسانیاں فراہم کرنے، راستے کے کانٹے چننے کے بجائے وہ قدم قدم پر نئی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق ہر روز ایک نیا کٹا کھول دینے کے ماہر۔ جنہیں اس محاورے کا اندازہ نہیں، آسان اردو میں وہ یہ سمجھ لیں کہ مویشیوں کے کسی باڑے میں اگر بھینس کا نر بچہ (کٹا) کھل جائے تو وہ خاصی ہڑبونگ مچادیتا ہے، پہلے تو ماں کا دودھ پینے کی کوشش کرے گا، وہاں سے بھگائو تو کسی اور جگہ جا کر کچھ اور کر ڈالے گا۔ ایک تیز طرار پھرتیلے کٹے کو پکڑنے کی کوشش میں مصروف باڑے ملازمین کو اگر پتہ چلے کہ کسی کم بخت نے ایک اور کٹا کھول دیا ہے تو ان کے غصے، جھنجھلاہٹ کی انتہا کیا ہوگی؟ جہاں ایسے ناسمجھ ملازمین ہوں، وہ باڑہ زیادہ دن چلتا نہیں۔ موجودہ حکومت میں شامل افراد اپنی کمزوریوں، نالائقیوں کے باعث معاملات بروقت سنبھال نہیں پارہے۔ وزرا اور مشیر صاحبان دانش مند اور ہوشیار نہ ہوں تب بیوروکریسی کی بن آتی ہے۔ بیوروکریٹ اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے اور اپنے مفادات کی خاطر حکومت کو ذلیل کرائے رکھتے ہیں یا پھر کسی سیاسی ایجنڈے کے تحت حکمرانوں کے لئے متواتر شرمندگی کا ساماں پیدا کر ڈالتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات میں غیر معمولی اضافے کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ اچانک سے بیٹھے بٹھا ئے ایک نیا دردسر مول لینے کی کیا ضرورت تھی؟ عمران خان نے معاملہ سنبھال لیا ہے، تاہم دو تین پہلو واضح ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے سیاستدان خاصے سفاک قسم کے مفاد پرست، بے حس اور عوامی جذبات سے بے نیاز ہیں۔ انہیں کوئی سروکار نہیں کہ ملک کتنے بڑے بحرانوں سے گزر رہا ہے، دیوالیہ ہونے تک معاملہ پہنچ گیا تھا، بمشکل صرف چند ماہ کے لئے مہلت ملی ہے۔ انہیں صرف اپنے روٹی، حلوے سے غرض ہے۔ یہ تک نہیں سوچا کہ اس پر عوام کیا ری ایکٹ کریں گے؟ تحریک انصاف حکمران جماعت ہے، اس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت کا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک رہا۔ اس وقت اس اضافے کی کوئی تک اور منطق نہیں تھی۔ افسوس کہ مسلم لیگ ن، ق لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ ثابت ہوا کہ نہ صرف سیاست کے بلکہ سیاستدانوں کے سینے میں بھی دل ہے نہ آنکھ میں وضع داری۔ وزیراعلیٰ پنجاب جسے عمران خان ہمیشہ سراہتے ہیں، انہوں نے بھی دل وجاں سے اس ڈرامے میں حصہ لیا اور اپنا حصہ لینے کی بھرپور کوشش کی۔ چھ ماہ کی چیف منسٹری پر تاحیات گھر لینے کی بات تو نرم سے نرم لفظوں میں بھی قابل مذمت ہے۔ عمران خان پریہ تنقید ہونی چاہیے کہ انہیں پہلے اطلاع کیوں نہیں ملی؟ ان کی اپنی پارٹی اور اراکین اسمبلی کی نبض پر انگلی ہونی چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کے گرد ایسے تجربہ کار مشیر موجودنہیں جو خرابی پیدا ہونے سے پہلے روک دیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کوالبتہ کھل کر داد ملنی چاہیے۔ میں نے پچھلے بیس پچیس برسوں میں کسی بڑی جماعت کا ایسا پرجوش، جذباتی، پارٹی کی خاطر سب کچھ دائو پر لگا دینے والا، مگرحکومتی غلطی پر فوری بھڑک جانے اور سخت تنقید کرنے والا ورکر نہیں دیکھا۔ یہ تحریک انصاف کی خوش نصیبی ہے کہ ایسے کمٹیڈ لوگوں کی انہیں حمایت حاصل ہے۔ سوشل میڈیا پر گزشتہ روز ایک طوفان برپا تھا۔ شائد ہی کوئی انصافین ایسا ہو، جس نے اس کمزور، غلط فیصلے کا دفاع کیا۔ سب نے اپنی ہی حکومت، اپنے ہی وزیراعظم کو آڑے ہاتھ لیا۔ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ وزیراعظم کو مداخلت کرنا پڑی۔ اس بل سے تحریک انصاف کو خاصا ڈیمیج پہنچا، وزیراعظم نے ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کی۔ یہ البتہ سوچنا چاہیے کہ انہیں ہی مداخلت کرنا ہے تو پھر وزیر، مشیر کس کام کے لئے رکھے گئے؟ عمران خان کو اپنی ٹیم میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ وہ جان گئے ہوں گے کہ کون ان کے لئے بوجھ ہے، اس سے نجات پالینی چاہیے۔ عمران خان کو چاہیے کہ ایک اور معاملے کو بھی سنبھالنے کی کوشش کریں۔ وہ ایک پڑھے لکھے شخص ہیں، عالمی اخبارات میں مضامین لکھتے رہے، اپنی سوانح حیات میں تفصیل سے اقبال کے فلسفہ پر کلام کیا، مختلف اہل علم سے محفلوں کا تذکرہ کیا۔ ایسے وزیراعظم کے آنے کے بعد یہ توقع تھی کہ اہل علم کی پزیرائی ہوگی اور علمی ادارے مضبوط ہوں گے۔ افسوس کہ تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے بھی مایوس کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف کا کتاب، مطالعہ سے اتنا ہی تعلق تھا، جتنا خاکسار کا ورزش اور واک سے ہے۔ الحمدللہ انہوں نے سال سال بھر کوئی کتاب نہیں پڑھی، ہم نے یہی عادلانہ سلوک اپنی ورزش کی مشین سے کیا، سردیوں میں وہ سوئیٹر اور گرمیوں میں ٹی شرٹ لٹکانے کے کام آتی ہے۔ یہ تو خیرجملہ معترضہ سمجھ لیجئے۔ کہنا تھا کہ میاں صاحب نے کتاب بیزاری کے باوجود عرفان صدیقی جیسے بڑے کالم نگار اور صاحب مطالعہ شخص کو اپنا مشیر بنایا، تمام علمی اداروں کو ان کی تحویل میں دے دیا، اس فیصلے پر نواز شریف کو کبھی پچھتانا نہیں پڑا۔ یہ حقیقت ہے کہ عرفان صدیقی کے دور میں ان اہم ترین علمی، ادبی اداروں کی سربراہی کے لئے بہترین افراد منتخب کئے گئے۔ ایسے لوگ جنہوں نے ان اداروں کی توقیر میں اضافہ کیا۔ صدیقی صاحب نے افتخار عارف جیسے بزرگ شاعر کو مقتدرہ قومی زبان، ڈاکٹر انعام الحق جاویدجیسے شاعر اور نہایت متحرک شخص کو نیشنل بک فائونڈیشن، عقیل عباس جعفری جیسے محقق کو قومی لغت بورڈ اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر جیسے وقیع دانشور، ادیب، نقاد کو اردو سائنس بورڈ کا سربراہ بنایا۔ میاں صاحب کا کوئی دشمن بھی ان تقرریوں میں نقص نہیں نکال سکتا۔ ممکن ہے کسی کو افتخار عارف پسند نہ ہوں یا کسی اور کا چہرہ اچھا نہ لگے، مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ فیصلہ میرٹ سے ہٹ کر ہوا۔ اسی دور میں اکادمی ادبیات نے ایک شاندار کانفرنس منعقد کی، جس میں نواز شریف نے پچاس کروڑ کا انڈومنٹ فنڈ دینے کا اعلان کیا۔ یہ غیر معمولی کام تھا۔ اس فنڈ سے اب ہر سال پانچ کروڑ منافع ملتا ہے۔ یہ اور بات کہ اکادمی ادبیات کوآج تک ایک روپیہ تک نہیں دیا گیا اور سب فنڈ منسٹری دبائے بیٹھی ہے۔ عمران خان نے بدقسمتی سے کسی ایسے شخص کو اپنا مشیر نہیں بنایا جسے علم وادب اور اہل علم کے مرتبہ سے شناسائی ہو اور وہ وزیراعظم کو ان امور پر درست رہنمائی کر سکے۔ اس بارحکومتی سول ایوارڈز کے اعلانات میں بہت زیادتی ہوئی۔ اکادمی ادبیات پاکستان آج کل چیئرمین سے محروم ہے، بیوروکریٹس اسے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے ادب کے شعبے میں مناسب لوگ تجویز ہی نہیں کئے۔ سندھ حکومت کی سفارش پر تاج بلوچ جیسے جینوئن ادیب کو ایوارڈ ملاجبکہ اہل پنجاب محروم رہے۔ صحافت، ادب، کلچر اور سماجی خدمت ان تمام شعبوں میں جو افسوسناک فیصلے ہوئے، ان پر گزشتہ نشست (تیرہ مارچ)کو کالم لکھ چکا ہوں۔ کراچی میں ایک صاحب کو آرٹ کے شعبے میں ایوارڈ دیا گیا ہے۔ موصوف شاعر ہیں نہ ادیب، کبھی ڈرامہ لکھا نہ کوئی تصویر بنائی۔ صرف ایک اچھے ایونٹ مینجر ہیں اور آرٹس کونسل کے لئے کانفرنسیں کراتے رہے۔ چلیں اچھی ایونٹ مینجمٹ پر کوئی ایوارڈ دے ڈالتے، مگر آرٹ اینڈ کلچر کے شعبے کو کیوں بدنام کیا؟ یہ تو ایسا ہے کہ کسی اچھے سرکولیشن مینجر کو بہترین صحافی کا ایوارڈ دے دیا جائے کہ اس نے اخبار کی اشاعت بڑھائی ہے۔ دوسری طرف حد یہ ہوئی کہ پنجاب کی ایک خاتون گلگت بلتستان میں پڑھاتی ہیں، انہیں جی بی کے کھاتے میں ایوارڈ دے ڈالا۔ یہ تو سراسر ظلم ہے۔ گلگت بلتستان کے کسی مقامی فرد کا یہ حق بنتا تھا۔ اگر حکومت اس حوالے سے کچھ تلافی کر سکتی ہے تو ضرور کرے، مگر وقت بہت کم ہے، ایک ہفتہ بعد یہ ایوارڈ بانٹنے کی نوبت آ جائے گی۔ بیوروکریسی کی سازش سے ایک اور غلط، تباہ کن فیصلہ کرایا جا رہا ہے۔ قومی لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ جیسے ادارے جن کی اپنی شناخت ہے، کئی عشروں سے وہ شاندار کام کر رہے ہیں۔ انہیں ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان کا نیا نام)میں ضم کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین جن کے دست مبارک سے کبھی کوئی اچھا کام نہیں ہوا، اس ملک کے لئے تمام تر مواقع ملنے کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پائے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے شہباز شریف کے صرف اس لئے قصیدے پڑھے کہ نگران وزیراعظم بننے میں شائد مدد ملے۔ ڈاکٹر عشرت کی تجویز تباہ کن ہے۔ اسے ہر صورت میں مسترد کرنا چاہیے۔ علمی، ادبی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ مزید ایسے ادارے بنائے جائیں، نہ کہ جو ہیں، انہیں ایک دوسرے میں کھپا کر برباد کر دیا جائے۔ افسوس کہ بیورو کریسی اور نااہل ٹیکنوکریٹس یہی کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کو معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ان خرابیوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اس وقت تین اہم ادارے اکادمی ادبیات پاکستان، اقبال اکیڈمی اور لوک ورثہ کسی سربراہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بھی ٹیسٹ کیس ہوگا کہ ان اہم اداروں کے لئے کیسے لوگ منتخب کرتے ہیں؟ ۔