آج کل سرما کے مخصوص بھیگے، نم آلود، یخ بستہ دن چل رہے ہیں۔ سر شام ہی شدید دھند کی لہریں امنڈ آتی ہیں، دن دس گیارہ بجے تک یہ نہیں چھٹتی۔ مسافر پریشان کہ پانچ گھنٹوں کا سفر نو دس گھنٹے طویل ہوجاتا ہے۔ ٹھنڈ ایسی کہ جسم میں سرائیت کر جائے اور گرم کپٹروں کے باوجود آدمی آگ کی تپش ڈھونڈتا پھرے۔ بدقسمتی سے اب گیس ہیٹر کی عیاشی متروک ہوتی جا رہی ہے کہ چولہا سلگانے کے لئے گیس نہیں ہوتی، گیزر، ہیٹر کہاں سے چلیں گے۔ یہ موسم مگر میرے جیسے لوگوں کے لئے بہت سی سہانی، نرم گرم یادیں لئے آتا ہے۔
اس موسم میں ماں کی یادیں چھپی ہیں، ان کے ہاتھ کے ذائقے یاد آتے ہیں۔ پچیس تیس سال پہلے آبائی شہر احمد پورشرقیہ میں مقیم تھا۔ مجھے یاد ہے کہ انہی موسموں میں میری والدہ (مرحومہ) ہمیشہ بعض چیزیں بڑے اہتمام سے بناتی تھیں۔ ان میں سے ایک گجریلا ہوتا۔ رات کو دودھ اور کش کی گئی گاجریں ہلکی آنچ پر دیر تک پکتی رہتیں۔ صبح والدہ ہم دونوں بھائیوں کو اٹھا کر گجریلے سے بھرا پیالہ دیتیں، رات بھر پکنے سے وہ گاڑھا ہوجاتا اور دودھ میں ربڑی کا سا ذائقہ آ جاتا۔ پیالے میں اوپر ملائی کی گاڑھی تہہ ہوتی، باداموں کا چورا بھی چھڑک دیا جاتا۔ یہ پیالہ جیسے ہی ختم ہوتا، ایک عدد ابلا ہوا انڈا بھی دیا جاتا۔ امی کا اصرار تھا کہ اگر گجریلا کھانا ہے تو پھر انڈا لازمی کھانا پڑے گا کہ ان کے بقول گجریلے کی ٹھنڈک اس سے بیلنس ہوگی۔
مجھے ہمیشہ خیال آتا کہ انڈے کی گرمی بیلنس کرنے کے لئے ایک پیالہ گجریلا کا اور ملنا چاہیے، مگر اس منطقی مطالبہ کو رد کر دیا جاتا۔ ہمارے والدین چائے شوق سے پیا کرتے، مگرہمیں اجازت نہیں تھی۔ چائے پینے کا شوق میں نے صحافت میں آ کر پورا کیا، خاص کر جب گھر سے دور لاہور رہنا پڑا تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بہترین دودھ پتی چائے پینے جایا کرتے۔ ان سردیوں میں البتہ ہمیں چائے ملا کرتی، شائد دوائی کے طور پر۔ مجھے اب یاد نہیں مگر شائد اس کے قہوے میں خشک دھنیا یا دارچینی یا کچھ اور ملایا جاتا۔ بہرحال اسی چائے کو غنیمت سمجھتے۔
اسی سرد رت کے دوران گھر میں سری پائے بھی پکتے۔ لاہور میں آ کر دیکھا کہ بیشتر جگہوں پر صرف پائے پکائے جاتے ہیں، چھوٹے پائے یا بڑے پائے۔ ہمارے ہاں سری پائے کا رواج تھا بلکہ بہت سے گھروں میں صرف سری کا سالن بھی بنتا، بکرے کی سری۔ اس پر پسی ہوئی کالی مرچ چھڑک دی جاتی، اس سالن کو توے سے اترتے گرم گرم پھلکے کے ساتھ کھانا کا سواد ہی کچھ اور ہے۔ ہم اچھے سری پائے کی شناخت اس سے کرتے کہ شوربے میں بھیگی انگلیاں آپس میں چپکتی ہیں یا نہیں۔
اس زمانے میں ہم نا ن نام کی کسی چیز سے واقف نہیں تھے۔ تنورسے صرف روٹی ملا کرتی تھی۔ نان سے واقفیت لاہور آ کر ہوئی اور پتہ چلا کہ یہاں ناشتے میں باہر سے نان چنے منگوانے کا بہت رواج ہے۔ چنے البتہ ہمارے ہاں بھی عام ہیں، مگر انہیں چھولے کہا جاتا ہے۔ احمد پور، بہاولپور، ملتان اور دیگر سرائیکی شہروں میں چھولے چاول کا بہت رواج ہے۔ پلیٹ یا پیالے میں کچھ چاول کے اوپر چنے ڈال دئیے جاتے، اوپر پیاز، ٹماٹر، سبز کتری مرچوں کا سلاد اور ایک سائیڈ میں پودینے کی چٹنی والا رائتہ۔
لاہور میں چھولے چاول بہت ہی کم دیکھے۔ یہاں دال چاول کا عام رواج ہے یا پھر چکڑ چھولے جس کاا پنا ہی منفرد ذائقہ ہے۔ سرائیکی خطے میں چکڑ چھولے نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ احمد پورشرقیہ کے قدیمی محلے کٹرہ احمد خان میں جہاں ہمارے دادا مرحوم کا آبائی گھر تھا، وہاں ایک خاص انداز کے چھولے ملا کرتے۔ آج بھی دستیاب ہیں۔ سرخ رنگ کے یہ چنے اتنے لذیذ ہیں کہ پاکستان بھر میں ان کی کوئی اور مثال نہیں دیکھی۔ ملتان میں سوتری وٹ کے چنے مشہور ہیں مگر میری ناچیز رائے میں کٹرہ احمد خان کے سرخ چھولوں کا مقابلہ نہیں۔ ان چھولوں کے لئے البتہ جلدی اٹھ کر جانا پڑتا۔
صبح سات ساڑھے سات بجے تک نہ پہنچے تو دیگچہ خالی ملتا۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ دو آنے یا چونی کے چنے ایک بڑے سے پتے پر ڈال کر دئیے جاتے۔ یاد نہیں وہ پتہ کس درخت کا تھا، مگر چھوٹی پلیٹ جتنے سائز کا ہوتا۔ اس پر چنوں کا ایک چمچہ ڈال کر اوپر سے پیلی گاڑھی دال مونگ کا چھوٹا چمچ ڈال دیا جاتا۔ اس کا بھی انوکھا ذائقہ تھا۔ ہم گھر سے چنگیر لے جاتے ہیں، جسے سرائیکی میں چھبّی کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر بچے کے لئے الگ الگ چھولے کا پتا ڈلوا کر لے آتے۔ واپسی کے سفر میں البتہ یہ کاریگری ہوتی کہ کسی طرح دوسروں کے پتوں سے موٹے موٹے چھولے کے دانے اپنے والے میں لڑھکا دئیے اور دائو لگنے پر دو چار دانے چٹ بھی کر جاتے۔
احمد پورشرقیہ ہی میں دنیا کا بہترین قتلمہ کھانے کو ملا۔ اسے مال پوڑا بھی کہتے۔ لاہور میں قتلمہ بالکل ہی مختلف قسم کی چیز ہے، یہاں عرس میں یہ نظر آتا ہے، نمکین ذائقہ اور بہت وسیع وعریض۔ ہمارا قتلمہ یوں سمجھیں کہ دو تین پوڑیوں کی موٹائی کا اور نہایت کرسپی، غضب کامزہ۔ ساتھ حلوہ اور خاص وضع کے چنے ہوتے۔ تب یہ صرف گرمیوں میں ملتا۔ مجھے کراچی، لاہور، پنڈی سمیت کسی دوسرے شہر میں ویسا ذائقہ نہیں ملا۔ اس پر شدید غصہ آتا کہ سردیوں میں اسے ہونا چاہیے کہ یخ بستہ موسم میں گرما گرم پوڑیوں، قتلمہ کھانے کا اپنا مزا ہے، معلوم نہیں تب یہ سردیوں میں کیوں نہیں ملتا تھا۔
سرائیکی وسیب (خطے)میں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ "ر" والے مہینوں میں ہی مچھلی کھائی جائے، یوں ستمبر سے اپریل تک ہی مارجن رہتا۔ والد مرحوم خوش ذوق تھے، اچھے کھانے سے شغف تھا اور اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کرتے۔ جنوری میں خاص طور سے ہیڈ پنجند کی تازہ دریائی مچھلی منگوائی جاتی۔ لاہور میں جس مچھلی کو "روہو"کہا جاتا ہے، سرائیکی اسے ڈمبرا کہتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی خاص فارمولا تھا کہ ڈیڑ ھ سے دو کلو کے درمیان وزن والا دانہ ہو۔ کم یا زیادہ ہوا تو کہا جاتا تھا کہ لذت اس میں نہیں۔ ہم لڑکوں کو مچھلی کے کانٹے ایک آنکھ نہ بھاتے۔
یہ دلیل مجھے کبھی متاثر نہیں کر پائی تھی کہ جتنے چھوٹے کانٹے ہوں گے اتنی مچھلی لذیذ ہوگی۔ میرا احتجاج یہی ہوتا کہ جب کانٹے ہیں تو پھر لذت کہاں کی؟ کہیں سے پتہ چلا کہ "ملی" مچھلی میں کانٹے نہیں ہوتے۔ والد صاحب سے مطالبہ کیا کہ کبھی یہ بھی منگوائیں۔ وہ ہر بار جواب دیتے کہ کہ ملی مچھلی لذیذ نہیں ہوتی۔ ایک بار مجبوراً لے آئے۔ کھائی تو کانٹے واقعی نہیں تھے، مگر نہایت بے مزا، بے سواد۔ آئندہ فرمائش نہیں کی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے ایک معروف مسلک کے ہاں اسے ممنوع سمجھا جاتا ہے کہ اسکی اسکن پر چاننے نہیں ہیں۔
سردیوں ہی میں سرائیکی علاقے کی سب سے مشہور سوغات سوہن حلوے کی کشش بھی ہوتی۔ سوہن حلوہ جسے ہم بچے سونا حلوہ کہتے، یہ گھروں میں بنا کرتا اور گلی محلے کی دکانوں سے بھی مل جاتا۔ پاکستان میں ملتان کا ایک مشہور سوہن حلوے کا برانڈ مشہور ہے، مگر جنہیں کھانے کا اتفاق ہوا، وہ جانتے ہیں کہ اصل ذائقے کہیں اور ہیں۔ ملتان میں محلہ قدیرآباد میں اس کی اصل دکان تھی، اب تو بے شمار دعوے دار ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے لیں۔ بہاولپور میں فرید گیٹ کے اندر ابتدا میں اللہ بخش کا اڈہ مشہور ہوا اور پھر مچھلی بازار میں حاجی رشید کے ہاتھ کا سوہن حلوہ اخیر ذائقے کا ہے۔
احمد پورشرقیہ کے مشہور چوک منیر شہید جسے ہم چکر کہا کرتے تھے، وہاں دو تین دکانیں تھیں، ایک حاجی صاحب تھے، ایک اور شیر پنجاب کے نام سے مشہور تھے، معلوم نہیں یہ نام کیوں پڑا؟ شائد کوئی پہلوانی کا قصہ تھا۔ ایک اور حافظ صاحب بھی بعد میں آ گئے۔ سب کا اپنا مزا تھا۔ کٹرہ محلہ کے ساتھ ایک اور قدیمی محلہ فتانی ہے، یہاں پر جو بہترین سوہن حلوہ ایک چھوٹی سی دکان سے کھایا، وہ بعد میں کہیں نہیں ملا۔ یہاں کے ایک معروف سیاستدان یہ سوہن حلوہ اس زمانے میں میاں نواز شریف کو بھجوایا کرتے تھے۔ یہ نوے کے عشرے کی بات ہے جب میاں صاحب اینٹی بھٹو ووٹ بینک کے مسلمہ لیڈر تھے۔
گھروں میں سوہن حلوہ کے علاوہ چنے کی دال کا حلوہ بھی بنتا، ایک خاص انداز کا حلوہ بھی بنا کرتا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مکھڈی حلوہ ہے۔ ویسا حلوہ ڈیرہ اسماعیل خان اور میانوالی میں بہت مقبول ہے۔ دونوں شہروں کے مکینوں کا دعویٰ ہے کہ اصل ہم بناتے ہیں، دوسرے تو بس پیروی کر رہے ہیں۔ بارشوں کے موسم میں ہمارے ہاں ایک اور میٹھی چیز بنا کرتی جسے ہم چرڑے یاچلڑے کہتے۔ یہ چاول کے قدرے پتلے آٹے کی میٹھی روٹی ہوتی۔ بناتے ہوئے یہ بہت کرسپی ہوجاتی اور کبھی اس کے ٹکڑے ٹکرے ہوجاتے۔ شادی کے بعد میں نے اپنے سسرال میں چاول کی نمکین روٹی کھائی، وہ اسے ساگ کے ساتھ کھاتے۔ میری اہلیہ کا آج بھی یہی دعویٰ ہے کہ چاول کے روٹی کھانے کایہی بہترین طریقہ ہے۔ ہم نے خیر اس دعوے کو ہمیشہ نگاہ غلط سے دیکھا اور میٹھے چلڑے کو ہی افضل اور اعلیٰ مانا۔