کچھ عرصہ قبل کسی کالم میں برادرم رئوف کلاسرا نے لکھا تھا کہ چالیس سال کے بعد انسان کی زندگی کا ایسا دور آتا ہے، جب اس کے بچپن، لڑکپن، نوجوانی کی یادگار شخصیات رفتہ رفتہ دنیا سے رخصت ہونے لگتی ہیں، ہر کچھ دنوں کے بعد کسی کے جانے کا صدمہ پہنچتا ہے۔ کالم پڑھتے ہوئے غور کیا توکلاسرا کی یہ بات درست لگی۔ یہ عجیب بات ہے کہ اگلے چند ماہ میں یکے بعد دیگرے ذاتی طور پر ایسے کئی دکھ دینے والے لمحات جھیلنے پڑے۔ والدہ محترمہ کی وفات تو ایسا حادثہ ہے جس کی شدت کا ابھی تک اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا۔ اس بارے میں سوچنے لگوں تو چند ہی لمحوں میں ذہن مائوف ہونے لگتا ہے، دانستہ طور پردھیان ہٹانا پڑتا ہے ورنہ معلوم نہیں دل پھٹ جائے یاکچھ اور ہوجائے۔ ماں کا رشتہ ہے ہی مقدس۔ محبت کی شیرینی میں لپٹا ہوا۔ ہر ماں عظیم ہے اور ہر بچے کو اس کی ماں مثالی اور مکمل لگتی ہے۔ اپنی والدہ محترمہ کے حوالے سے کچھ لکھنے کا جی چاہتا ہے، مگر یادوں کے توشہ خانے کا دروازہ کھولنے کی ابھی ہمت نہیں۔ ابھی تو ایک طرح Denial (اس کا ترجمہ انکار کرنابھی درست نہیں) والی کیفیت چل رہی ہے۔
والدہ صاحبہ کے بعد میرے چچا زاد بھائی کے بیٹے شاہنواز خان خاکوانی انتقال کر گئے۔ عمر میں مجھ سے خاصے بڑے تھے۔ بڑے قدآور جوان تھے، قوی ہیکل، شاندار جسامت کے مالک۔ خوش خوراک آدمی، بھنا ہوا دنبہ کھا جانے والے۔ افسوس کہ آخری دو برس تکلیف میں گزرے۔ گردے خراب ہوگئے، ہر ہفتے دو بار ڈائیلسز کی تکلیف سہنا پڑتی۔ جوانی میں پہلوانی کرتے رہے، ان دنوں ہارون آباد رہتے تھے، وہاں کئی دنگل جیتے۔ بعد میں احمد پورشرقیہ آبائی گھر آ گئے۔ والی بال کے نامور کھلاڑی تھے۔ آخری دنوں میں انہیں چھڑی کے سہارے چلتے دیکھ کردکھ ہوتا۔ شکر گزار آدمی تھے، نقشبندیہ سلسلہ میں بیعت تھے۔ شوگر کے باعث بینائی بھی کم ہوگئی تھی، ڈائیلیسز کی مصیبت اپنی جگہ، مگر جب بھی پوچھا جاتا، یہی کہتے اللہ کا شکر ہے، بالکل ٹھیک ہوں۔ رب تعالیٰ سے امید ہے کہ اسی صبر اور شکر کو ان کی مغفرت کا باعث بنائے گا۔ ان کی قرآن خوانی کے موقعہ پر مسجد میں بیٹھارہا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے کئی اور بزرگو ں کی رخصت کی اطلاع ملی۔ احمدپورشرقیہ اب سال دو سال بعد ہی جانا ہوتا ہے، تاسف سے بیٹھا سوچتا رہا کہ یادوں کی مال ٹوٹ رہی ہے۔ ایک ایک کر کے یادوں کے امین رخصت ہوئے جارہے ہیں۔
گزشتہ روز اچانک ہی اپنے بزرگ عزیز عبدالحلیم خان کی اچانک وفات کی خبر ملی۔ وہ میرے بڑے بھائی محمدطاہر ہاشم خاکوانی کے سسر بھی تھے۔ ایسا شفیق، نرم اور منکسرالمزاج شخص کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔ گریڈ اٹھارہ میں ریٹائر ہوئے، زمیندار آدمی تھے، ذاتی باغات، جائیداد، مگر ہر کسی سے نہایت انکسار اورروایتی سرائیکی حلاوت سے ملتے۔ دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کرتے، خاموشی سے بہت سے گھروں میں راشن کے پیسے بھجوا دیتے۔ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں سے جب بھی ملتان جانا ہوتا، ان کے گھر ہی قیام رہتا۔ گھنٹوں گپ لگاتے۔ اخبارات اور کالموں کا بغور مطالعہ کرتے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتا، مختلف کالموں پر اپنی رائے دیتے اور کئی کالم نگاروں، تجزیہ کاروں پر سیر حاصل تبصرہ فرماتے۔ سیاسی بحثیں بھی خوب ہوتیں۔ بڑے بھائی صاحب مسلم لیگ ن کے زبردست حامی ہیں، سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامی ن لیگیوں کو چھیڑنے کے لئے انہیں پٹواری کہہ دیتے ہیں۔ معلوم نہیں پٹواری نام کیوں رکھا گیا۔ بھائی صاحب ازراہ تفنن خود کو انجمن پٹواریان کا تاحیات رکن قرار دیتے ہیں۔ ان کے سسر صاحب اس کے برعکس عمران خان کی طرف نرم گوشہ رکھتے اور شریف خاندان کی سیاست سے اعلانیہ بیزاری ظاہر کرتے۔ دونوں سسر، داماد میں گھنٹوں بحث مباحثہ چلتا رہتا، باقی گھر والے پسند کے مطابق اپنے اپنے کیمپس میں پوزیشن لے لیتے۔ کبھی تلخی پیدا نہیں ہوئی، تحمل سے بات سنی جاتی، سنائی جاتی۔ عبدالحلیم خان صاحب کھانے پینے کا عمدہ ذوق رکھتے تھے، کھانے سے زیادہ مگر کھلانے پر یقین تھا۔ آخری ملاقات بھی ان کے گھر ناشتہ کے دسترخوان پر ہوئی۔ اصرار کر کے کئی چیزیں پکوائیں۔ رواں کی پھلیاں تو لاہور میں بھی کھائی جاتی ہیں، ثابت رواں مگر سرائیکی خطے میں ہی ملتے اور پکائے جاتے ہیں۔ خاص اہتمام سے انہوں نے ناشتے کے دیگر لوازمات کے ساتھ ثابت رواں پکوائے۔ اللہ ان کی روح کو سکون بخشے۔ ہم نے ان میں اچھائیاں اور بھلائی ہی دیکھی۔ انتقال کی خبر سن کر آنکھیں نم ہوگئیں۔
یہ تو خیرنجی حوالے سے گفتگو تھی، قارئین سے معذرت، مگر دل بھر آیا، رہا نہ گیا۔ بات یہ ہور ہی تھی کہ عمر کا ایک فیز ایسا آتا ہے جب ہمارے بچپن، لڑکپن، نوجوانی کی یادگار بہت سی چیزیں دنیا سے مٹتی جاتی ہیں۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو دنیا سے غائب ہی ہوگئیں، اب واپسی ممکن ہی نہیں۔ عید کارڈز، وی سی آر، ابتدائی شکل کے موبائیل فون، تار وغیرہ۔ ان پر کبھی بعد میں بات کریں گے۔ ہم اب اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جب فنا دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ایسے بہت سے لوگ جن سے بے شمار خوشگوار یادیں وابستہ تھیں، اب نہیں رہے۔
ٹی وی، فلم کے بہت سے خوبصورت، کمال اداکار، جن کی اداکاری نے ہمیں مسرت وانبساط کے بے شمار لمحات سے لطف اندوز کیا۔ اب وہ نہیں۔ ایک طویل فہرست ہے، لکھنے بیٹھوں تو کالم ختم نہیں ہوگا۔ کون ہوگا جسے شفیع محمد یاد نہیں ہوگا؟ کیا خوبصورت لب ولہجہ تھا۔ ویسی اداکاری کوئی اور نہیں کر پایا۔ جو کردار شفیع محمد نے نبھائے، وہ انہی کا خاصا تھے۔ پی ٹی وی کے سنہرے دنوں کی یادگار ایسے بہت سے اداکار، نغمہ نگار، لکھنے والے اور ہدایت کارآج ہم میں نہیں۔ ہم اپنے بچوں سے ان کی یادیں شیئر بھی نہیں کر سکتے۔ ان کا ذوق بھی اس قدر مختلف ہے کہ پرانے ڈراموں کی سی ڈیز بھی شائد پرکشش نہ لگیں۔ سال ڈیڑھ پہلے اپنی اہلیہ کے ساتھ پی ٹی وی کے یادگار دنوں کا ڈرامہ آنگن ٹیڑھا دیکھااور بے حد محظوظ ہوئے۔ سلیم ناصر نے اس میں ایک یادگار کردار ادا کیا۔ سلیم ناصر کو گئے ہوئے بھی کتنے برس بیت گئے۔ اللہ شکیل کو زندگی دے، ان کے لہجہ کی شائستگی کا بھی کوئی جواب نہیں۔ نئی نسل کو آنگن ٹیڑھا جیسے ڈرامے شائد پسند ہی نہ آئیں۔ ٹی وی، فلم کی دنیا سے ہٹ کر لکھنے والوں کی طرف آئیں تو ادھر بھی بہت سے فیورٹ جا چکے ہیں۔ بڑے ادیبوں کی فہرست میں سے اب ہمارے تارڑ صاحب ہی موجود ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے، اردو ادب کی وہ آبرو ہیں۔ اتنے تواتر سے ایسے شاندار ادبی شاہکاربرصغیر پاک وہند کے کسی اور ادیب نے تخلیق نہیں کئے۔ اگلے روز اردو کے بہترین ناولوں کی فہرست بنانے بیٹھا تو تارڑ صاحب کے کم ازکم تین چار ناول اس میں لازمی آ جاتے۔ فہرست جتنی مختصر کی جاتی، تارڑ صاحب کے کام کو نظرانداز کرنا مشکل ہوجاتا۔ ان کے صحت اور قلم کی تروتازگی کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ڈائجسٹوں سے ہمارے ثقہ ادیب خاصے بیزار رہتے ہیں، ہمارا تو ان ڈائجسٹوں اور ان کے لکھنے والوں سے محبت کا تعلق رہا ہے۔ کئی بڑے ڈائجسٹ فکشن رائٹر ایسے ہیں جن کی تحریریں دل پر نقش ہیں۔ علیم الحق حقی کے ساتھ اردو ناقدین نے بہت زیادتی کی۔ حقی صاحب نے کمال کے ناول اور ناولٹ لکھے۔ عشق کا عین، حج اکبر، امائو س کا دیا اور ایسی کتنی ہی شاہکار تحریریں انکے قلم سے نکلیں۔ بدقسمتی سے یہ سب ڈائجسٹوں میں شائع ہوئیں، اس لئے حقی صاحب کو پاپولر ادب کے کھاتے میں ڈال کرنقاد حضرات نچنت ہوگئے۔ حقی صاحب آخری کئی سال بیمار رہے، انہیں کسی قسم کا ایوارڈ نہیں ملا۔ تمام زندگی وہ قلم کے سہارے جیئے اور پھر ایک دن خاموشی سے آنکھیں موند لیں۔ ایم اے راحت نے پچاس سال تک قلمکاری کی، لاتعداد کہانیاں، سلسلہ وار ناول لکھے۔ وہ آخری دنوں میں لاہور شفٹ ہوگئے تھے، گمنامی میں دنیا سے چلے گئے۔ محی الدین نواب ڈائجسٹ فکشن کے مقبول ترین لکھاری تھے۔ ان کی کہانی دیوتا دو تین عشرے تک چلی۔ نواب صاحب کی کہانیاں اور ناولٹ بھی کمال تھے، ان کا اپنا خاص اسلوب اور ڈکشن تھی۔ چند سطریں ہی بتا دیتیں کہ محی الدین نواب کی تحریر ہے۔ الیاس سیتا پوری تاریخی کہانیاں لکھنے والا ایک دیو قامت ادیب، تین چار عشروں تک انہوں نے سسپنس ڈائجسٹ کی ابتدائی تاریخی کہانی لکھی۔ کیاکردار نگاری اور کہانی کی بنت ہوتی تھی۔ سیتاپوری صاحب کا کم از کم میں نے کوئی انٹرویو کسی اخبار میں نہیں پڑھا۔ ان کے جانے کی بھی خبر کہیں نہیں پڑھی۔ بلامبالغہ لاکھوں لوگ ان کی تحریر کے مداح تھے، مگر ہمارے مین سٹریم میڈیا نے اتنے مقبول ادیب کو معمولی سی کوریج بھی نہیں دی۔
یادوں کی مالا ہے ٹوٹتی چلی جا رہی ہے۔ ایک ایک کر کے دانے، قیمتی موتیوں جیسے لوگ رخصت ہو رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا خلا، اپنی کمی ہے، ہر ایسی اطلاع دل میں پیوست ہوجاتی ہے۔ ایک ترک ڈرامہ نگار نے کہا تھا کہ کسی قریبی، پیارے کے جانے کی ہر اطلاع دراصل اپنے اندر یہ خبر بھی لئے ہوتی ہے کہ نمبر لگ چکا۔ ایک دن سننے والے کا بھی آخری لمحہ آ جائے گا۔ ممکن ہے پھراس کالم جیسی تحریر کوئی اور لکھے، پڑھنے والے بھی اور ہوں۔ اصل سچائی یہی ہے کہ سب نے چلے جانا ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جو اس سبق کو یاد رکھے اور اگلی منزل کی تیاری کر لے۔