پاکستانی سیاست میں پوزیشنیں بہت پہلے سے لی جاچکی ہیں۔ فریقین اپنے اپنے کیمپو ں میں باقاعدہ بنکر بنا کر مورچہ زن ہیں۔ تحریک انصاف والوں کا اپنا کیمپ ہے، نوجوانوں سے گھرا ہوا، غصیلے، پرجوش تیرانداز جس کی باہر کی جانب پہلی صف میں موجود ہیں، نیزے بازوں کی بھی کمی نہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جے یوآئی، اے این پی، پختون خوا میپ، نیشنل پارٹی اور دیگرچھوٹے دھڑوں کے اپنے اپنے کیمپ ہیں، معروضی حالات کے مطابق اس کی بیرونی دیوار گرتی، بنتی رہتی ہے۔ بہرحال ان کا سیاسی موقف اور سٹینڈ بہت واضح ہے۔ عمران خان اور اس کی جماعت ان کے نزدیک ہر قسم کے شر اور فساد کا منبع ہے، اس کی شدید مخالفت کرنا فرض ہے۔ جولائی 2018ء کے الیکشن کے بعد ان میں سے بعض کا غصہ مزید بڑھ گیا ہے۔ نا پسندیدگی اور بیزاری کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں، یہ برسوں سے چلی آ رہی۔
قارئین میں سے جنہیں ٹرین پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے، خاص کر وہ جو چھوٹے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں اور جہاں ٹرین صرف دو تین منٹ کے لئے رکتی ہے، وہ یقینا ایک منفرد تجربے سے گزرے ہوں گے۔ لاہور، کراچی، پشاور اور ایسے شہر جہاں بڑے جنکشن ہیں اور گاڑی دس پندرہ منٹ رکتی ہے، ان کا معاملہ مختلف ہے۔ خاکسار نے ٹرینوں پرخاصے سفر کئے ہیں، ہر بار ٹرین پکڑنا کسی معرکہ مارنے جیسی بات ہوتی۔ ہمارے شہر احمد پورشرقیہ میں تین چار گاڑیاں (خیبر میل، بہائوالدین زکریا ایکسپریس، چناب، عوامی ایکسپریس) رکتی تھیں، بمشکل دو تین منٹ کے لئے۔ اسی دوران تیز رفتاری سے دوڑ کر ایسا ڈبہ ڈھونڈنا ہوتا جس میں اندر داخل ہونے کا موقعہ مل سکے۔ نشستیں ریزرو کرانے کی عیاشی ہمیں میسر نہیں تھی۔ ہوتا یوں کہ جس بوگی میں گھسنے کی کوشش کرتے، وہاں پہلے سے بے پناہ رش ہوتا اوراندر موجود لوگ دھکے دے کر دروازہ نہ کھلنے دیتے۔ دلچسپ بات یہ کہ جو مرد مجاہد کسی طرح اس ڈبے میں گھس جاتا، اگلے سٹیشن پر وہ بھی دوسروں کے ساتھ مل کر پورا زور لگاتا کہ باہر سے کوئی اور نہ آ پائے۔ وہ یہ بھول جاتا کہ تھوڑی دیر پہلے اس کا اپنا کیا حال ہوا تھا اور اگر اندر نہ آسکتا تو کیسی مایوسی، ناکامی اس کے مقدرہوتی؟ ٹرین چھوٹ جاتی اور اگلی ٹرین کے لئے کئی گھنٹوں کا انتظار کرنا پڑتا۔ یہ سب بھول بھال کر وہ بھی باقی سب کے ساتھ مل کر جان لڑا دیتا کہ کوئی نیا اندر نہ آنے پائے۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال آج بھی ویسے ہے۔ چھوٹے شہروں کے دیگر مسائل کے ساتھ ایک مسئلہ وہاں ٹرین کا سٹاپ ہے۔ ابھی پچھلے دنوں یہاں لاہور میرے گھر میں احمد پورشرقیہ کے چند دوست اکٹھے ہوئے تو ان کی باہمی گفتگو کا ایک اہم نکتہ یہ تھا، احمد پور کے لئے رحمان بابا ایکسپریس کا سٹاپ شروع ہوا تھا، وہ اب شیخ رشید صاحب نے کینسل کر دیا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ احتجاج کرنے اور تحریک چلانے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ میں جو کہ ایک سابق احمد پوریا ہوں، خاموشی اور کسی حد تک حیرت سے یہ بحث سنتا رہا۔ چوبیس پچیس برسوں سے لاہور میں مقیم ہوں، اپنے آبائی شہر بھی اب کسی خوشی، غمی پر جانا ہوتا ہے، اندازہ نہیں تھا کہ ابھی تک ٹرینوں کے حالات وہی چل رہے ہیں۔
بات اور طرف نکل گئی۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ تحریک انصاف والوں کے ساتھ ہماری روایتی سیاسی جماعتوں نے بوگی میں سوار مسافروں والا حال کیا، جو دروازہ نہیں کھلنے دیتے۔ عمران خان نے انہیں للکارا، تبدیلی کا نعرہ لگایا، یہ سب اکٹھے ہو کر دروازہ کے پیچھے اکٹھے ہوگئے کہ کہیں کہ کم بخت اندر نہ گھس آئے۔ پچھلے کئی برسوں سے ہماری سیاست اسی نکتے پر چل رہی ہے۔ عمران خان کے دھرنے کی ناکامی کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک معاملہ یہ بھی رہا۔ اس وقت یہ تمام جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ آصف زرداری نے بعد میں طعنہ بھی دیا کہ اس وقت ہم ساتھ نہ ہوتے تو نواز شریف حکومت گر جاتی۔
اس سیاسی تقسیم میں ایک جماعت الگ رہی، وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی عمران خان کے دھرنے میں بھی غیر جانبدار رہی۔ اس کا موقف تھا کہ ہمیں عمران خان کے ایجنڈے سے تو اتفاق ہے، مگر طریقہ کار سے نہیں۔ نوازشریف صاحب کے ساتھ بھی وہ نہیں گئے اور دھرنے کا حصہ بننے سے بھی گریز کیا۔ جماعت اسلامی آج بھی اپنی اس غیر جانبدارانہ پوزیشن پر کھڑی ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا حصہ نہیں بننا چاہ رہی، اگرچہ اس نے الیکشن ایم ایم اے کی شکل میں مولانا کے ساتھ لڑا۔ جماعت اسلامی عمران خان کی حکومت کی نقاد اور نکتہ چیں ضرور ہے، مگر وہ مولانا کے دھرنے، مارچ وغیرہ کو سپورٹ نہیں کر رہی۔ یہ اور بات کہ جماعت اسلامی کا سائز اتنا کم ہوچکاہے کہ اس کا موقف نمایاں طور پر میڈیا کا حصہ نہیں بن پا رہا۔
مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ، دھرنے وغیرہ کا بھی بنیادی نکتہ ایک ہی ہے کہ عمران خان سے نفرت اور اس کی ہر حال میں مخالفت۔ یہ سب عذرلنگ ہیں کہ حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں، اکانومی خراب ہے وغیرہ وغیرہ۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص کے لئے سوال ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بہت اچھی ہوتی تو کیا ان جماعتوں ( جے یوآئی ف، ن لیگ، پیپلزپارٹی وغیرہ )نے عمران خان کی مخالف کم کر دینا تھی؟ ہرگز نہیں۔ ان کی سیاست کا تمام تر انحصار ہی اس پر ہے کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کی مخالفت کریں، اسے پنپنے نہ دیں۔ مولانا فضل الرحمن کو پہلی بار ان کی اپنی آبائی نشستوں سے بدترین شکست ہوئی ہے۔ پچیس، تیس ہزار ووٹوں سے وہ دونوں حلقے ہارے ہیں۔ ان کو ہرانے والے یعقوب شیخ ٹی وی پر کہہ چکے ہیں کہ مولانا ان کا حلقہ کھلوائیں اور ووٹوں کی گنتی کرائیں، کچھ گڑ بڑ ہو تو ٹریبونل کے فیصلے سے پہلے وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے لئے یہ بڑا اچھا موقعہ تھا، وہ حلقہ کھلوانے کی درخواست داغ دیتے۔ انہوں نے تو بنوں سے عمران خان کی چھوڑی سیٹ پر ضمنی الیکشن تک نہ لڑا۔ اس خدشہ کے پیش نظر کہ اگر پھر ہار گئے تو سیاست ختم ہوجائے گی اور دھاندلی کا الزام نہیں لگا پائیں گے۔ وہاں سے حالانکہ اکرم درانی کے بیٹے آسانی سے جیت گئے۔ مولانا کو اتنی مضبوط سیٹ اور مقامی سپورٹ کے باوجود ضمنی الیکشن لڑنے کی جرات نہ ہوئی۔ حلقے کھلوانے، دھاندلی ثابت کرنا ان کا ایجنڈا ہی نہیں۔ وہ صرف پروپیگنڈے اور اپوزیشن جماعتوں میں موجود عمران نفرت کے عنصر سے فائدہ اٹھا کر یہ احتجاجی مارچ کر رہے ہیں۔
سیاسی حکمت اور منطق تو یہ کہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی بیڈ گورننس اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے جو ابتری مچی ہے، اسے خاموشی سے دیکھا جائے اورپارلیمنٹ میں بھرپورتنقید کر کے اپوزیشن کا کردار نبھایا جائے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن حکومتی ناقص پالیسیوں پر تنقید کرتی اور اصلاح کے لئے تجاویز دیتی ہے، وہ حکومت کو مستعفی ہونے کا ضرور کہتی ہے، مگر اس کے لئے مارچ یا دھرنا نہیں دیا جاتا۔ مولانا فضل الرحمن مگر اتنی عجلت میں کیوں ہیں؟ کیا اس لئے کہ انہیں خطرہ ہے کہ کہیں حکومت اپنی ناتجربہ کاری کی کیفیت سے نکل نہ آئے، اپنی غلطیوں کی اصلاح نہ کر لے اور پھر اکانومی آگے جا کر بہتر ہوگئی تو حکومت گرانا مشکل ہوجائے گی۔ اس مفروضے کے علاوہ حکومت فوری گرانے کی کوشش کی کوئی دلیل سمجھ نہیں آتی۔
سوال مگر یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تو اپنے مفاد، حالات اور فائدے کو دیکھ کر پالیسیاں بناتی ہیں، عوام انہیں فالو کیوں کریں؟ عوام کو کسی اصول، دلیل اور منطق پر اپنی پوزیشن لینی چاہیے۔ ہماری جدید تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ لانگ مارچ، احتجاجی مارچ اور دھرنوں سوائے فساد اور تفریق کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ماضی میں صرف وہی لانگ مارچ کامیاب ہوئے، جن میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی یا اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کر کے معاملہ ختم کرایا۔ عمران خان نے کئی ماہ تک دھرنا دے کر دیکھ لیا کہ سوائے ندامت اور ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا دھرنا غلط تھا، سیاسی حکومتوں کو اس طرح گرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں تو اس احتجاج کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے۔
عمران خان کی اب تک کی کارکردگی مایوس کن ہے، ان پر بہت حوالوں سے تنقید، سخت تنقید ہوسکتی ہے۔ ان کی حکومت گرانے کا مگر کوئی جواز نہیں۔ موجودہ اپوزیشن خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار دیتی ہے۔ وہ ایسا مارچ کیوں کر رہی ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا جواز پیدا ہو؟کیا عمران خان کی نفرت اور ناپسندیدگی نے انہیں ہر قسم کے اخلاقی، جمہوری، سیاسی اصول بھلا دئیے ہیں۔ کل وہ عمران خا ن کے مارچ کو غلط، غیر جمہوری سمجھتے تھے، آج وہی مولانا کر رہے ہیں تو ان کی حمایت کیوں؟یہ پوزیشن لینے کا وقت ہے۔ حکومتی جماعت، اپوزیشن اپنی پوزیشن لے رہی ہیں۔ عوام، ووٹرز اپنی سوچ کے مطابق واضح پوزیشن لیں۔ کسی قسم کے گومگو، اگر، مگر، چونکہ، چناچہ کے بغیر واضح پوزیشن۔ فیصلہ کرنا ہوگا کہ حکومتوں کو وقت ملے، وہ اپنی معیار پوری کریں تاکہ بعد میں ووٹر ان کا احتساب کر سکے۔ یا پھر ہنگامہ کر کے، ہلہ بول کر حکومت گرائی جائے، یوں ایک ایسا سلسلہ چل نکلے، جس سے کوئی بھی جماعت سال سے زیادہ حکومت نہ کر پائے۔