استعاراتی طور پر دیکھا جائے تو ہماری آپ کی یہ دنیا اپنی جگہ پر ایک Hall of fameہے جس میں غیر معمولی لوگوں کی تصویریں، اُن کی یادوں کی شکل میں بعد میں آنے والوں کے دلوں اور حافظے کی دیواروں پر نسل در نسل سجتی چلی جاتی ہیں۔ مولانا حالیؔ نے کہا تھا۔
فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص
مگر عالمی برادری کی سطح پر اس دعویٰ میں ترمیم و اضافہ اس لیے ممکن ہے کہ نہ صرف زندگی مختلف شعبوں میں بٹی ہوئی ہے بلکہ ایک ہی وقت میں کسی ایک ملک و قوم یا علاقے میں ایک سے زیادہ لوگ بھی Hall of fame میں داخلے کی شرائط پر پورا اُترسکتے ہیں لیکن یہاں جس Hall of fame کا ذکر مطلوب ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک نسبتاً جدید تصورّ ہے کہ اسپورٹس، علم و ادب یا فنونِ لطیفہ میں بہت غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد کو ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت منتخب کرکے اُن کی تصویروں اور یادگاروں کو ایک مختصر Citation کے ساتھ کسی مخصوص جگہ پر اس طرح سے یکجا اور محفوظ کر دیا جائے کہ یہ اُن کے لیے معاشرے کی طرف سے عمومی طور پر ایک خراجِ تحسین اور انفرادی سطح پر محنت، عمل اور Motivation کی علامت اور محرک بن جائیں۔
ایک مسلسل عمل ہونے کی وجہ سے اس طرح کے ہالز میں مسلسل نئے ناموں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر اس کے لیے معیار اس قدر سخت رکھے جاتے ہیں کہ بعض اوقات متعلقہ افراد اپنی شہرت اور کارکردگی کے بامِ عروج پر ہونے کے باوجود یا تو جیتے جی اس اعزاز سے بہرہ مندنہیں ہوپاتے یا انھیں بہت زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات انتخاب کا طریقہ کار ایسا پیچیدہ ہوتا ہے کہ زمانی اعتبار سے جو نیئر لوگوں کی باری سینئرز سے پہلے آجاتی ہے۔
اس طرح کی صُورتِ حال عام طور پر کسی Hall of fameکی ابتداء کے وقت زیادہ شدّت سے نمایاں ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہال کی وسعت اور ڈیزائن کے مطابق اور انتخاب کے طے کردہ معیار کے حوالے سے ایک متعین تعداد کی پابندی بوجوہ ضروری ہوتی ہے، سوابتدائی انتخاب میں بہت سے ایسے نام رہ جاتے ہیں جن میں سے کئی ایک بظاہر منتخب شدہ افراد سے اگر زیادہ نہیں تو کسی طور کم بھی نہیں ہوتے سو ایسے میں اُن کی یا اُن کے مداحیّن کی ناراضی، احتجاج، تنقید یا مختلف النوع اعتراضات ہر اعتبار سے جائز اور درست نظر آتے ہیں۔
اب اس مسئلے کا صرف ایک ہی فول پروف حل سمجھ میں آتا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو ایک ہی دفعہ اور ایک ساتھ فہرست میں شامل کر لیا جائے مگر یہ اس لیے ممکن نہیں ہوتا کہ اگر پچاس اہل افراد میں سے تیس کا انتخاب کرنا ہوتو کوئی نہ کوئی بیس تو بہرحال آخری فہرست سے باہر ہوں گے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کے Hall of fames میں تو سیع کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس میں ابتدا میں نظر انداز ہوجانے والے افراد کے ساتھ ساتھ نئے اُبھرنے والے جینئس لوگوں کو بھی شامل کرتے جاتے ہیں۔
اس عمل اور اس کے پس منظر کی وضاحت کی ضرورت اس لیے آن پڑی کہ وطنِ عزیز میں پہلی بار ایک Hall of fame کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا تعلق علم و ادب اور اہلِ قلم خواتین و حضرات سے ہے اس کا اہتمام حکومتِ پاکستان کے ایما پر اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے کیا ہے اور اس کے لیے فزیکل سپیس بھی اکادمی کے صدر دفتر واقع اسلام آباد ہی میں مختص اور تیار کی گئی ہے "ایوانِ اعزاز" کے عنوان سے قائم شدہ اس ہال کا رسمی افتتاح 4نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے کیا جس میں شمولیت کے لیے اسلام آباد کے اہلِ قلم اور حکومتی وزرا، سینیٹرز اور سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ادیبوں کو خاص طو ر پر مدعو کیا گیا تھا، تقریب بہت سادہ، خوب صورت، مختصر اور پُر وقار تھی جس کی ایک اضافی خوبی اور انفرادیت یہ بھی تھی کہ کورونا کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ برس کے وقفے کے بعد پہلی بار ادبی برادری کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں کسی ایک چھت تلے جمع ہوئے۔
اکادمی ادبیات کے چیئرمین یوسف خشک اور اُن کے انتظامی محکمے کے وزیر برادرم شفقت محمود اکادمی کے سارے عملے سمیت مبارک کے مستحق ہیں کہ وزیراعظم کی مصروفیات کے باعث دو بار کے التوا کے باوجود تقریب کا انعقاد بہت تنظیم اور خوش سلیقگی سے کیا گیا، اپنے ابتدائی اور تعارفی خطاب میں یوسف خشک نے یہ بھی بتایا کہ وہ اکادمی کے زیر انتظام پاکستان میں بولی جانے والی اسّی کے قریب زبانوں کا ایک میوزیم بنانے کا پلان بھی بنا رہے ہیں کہ یونیسکو کے ایک سروے کے مطابق ان میں سے 29 زبانٰیں معدوم ہونے کی آخری اسٹیج میں ہیں۔
اتفاق سے میں کلچر اور آرکائیو وزارت کی تشکیل کردہ اس ایگزیکٹو کمیٹی کا بھی ممبر ہوں جس میں گزشتہ روز یہ پروپوزل بجٹ کے لیے پیش کی گئی تھی، یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کمیٹی ممبران سے بھی زیادہ وزارت کے سیکریٹری آصف حیدر شاہ اس ضمن میں متحرک اور پُرجو ش تھے کہ عام طور پر بیوروکریسی سے متعلق فیصلہ ساز حکامّ فن، ادب، تہذیب، معاشرت اور آرکائیوز سے متعلق منصوبوں اور ضروریات کو وہ اہمیت نہیں دیتے جس کے یہ شعبے متقاضی ہوتے ہیں اور یوں سیاسی قیادتیں بھی ان کے بارے میں عموماً غیر متعلق سی رہتی ہیں لیکن آصف شاہ کی دلچسپی اور عمران خان کی علم و ادب اور اسکالر شپ کی اہمیت کی وکالت اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے اس کی اہمیت کا شعور اور احساس خشک زمین پر بارش کے پہلے قطروں کی طرح محسوس ہوئے بلاشبہ قوموں کی تربیت ترقی اور وقار میں اُن کے اعلیٰ اخلاقی معیارات کی اہمیت بنیاد کے پتھر کی سی ہوتی ہے۔
"ایوانِ اعزاز" کی 35 افراد پر مشتمل اس پہلی فہرست میں مختلف حوالوں سے بلاشبہ شفیق الرحمن، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، نسیم حجازی، جون ایلیا، انور مسعود، ابن سفی، زہرہ نگاہ، حسینہ معین اور مستنصر حسین تارڑ سمیت چند اور احباب کی غیر موجودگی بُری طرح سے کھلتی ہے۔ منتظمین کے تجزیئے کے مطابق ان شاء اللہ آیندہ تین چار برس میں قسط وار یہ سب احباب بھی اس ایوانِ اعزاز کی زینت بن جائیں گے کہ فی الوقت اس ہال میں 35 تصویروں کے لیے ہی جگہ ممکن تھی۔
اس تقریب اور ایوانِ اعزاز میں اپنی بیگم اور بیٹی کے ساتھ شرکت کے دوران پتہ نہیں کیوں مجھے مولانا محمد حسین آزاد کا شہرتِ عام اور بقائے دوام والا مضمون بہت یاد آیا دیکھا جائے تو آج کے یہ Hall of fame بھی اسی تصور کو شکل دینے کی ایک کوشش ہیں اور آغاز سے اندازہ ہورہا ہے کہ ان شاء اللہ اس کا مستقبل روشن بھی ہے اور محفوظ بھی۔