برادرم طارق ضمیر سے پہلی ملاقات چند برس قبل اٹلی کے شہر میلان میں ہوئی جہاں وہ پاکستان کے محکمہ خارجہ کی طرف سے قونصل جنرل کے فرائض انجام دے رہے تھے اور انھی کی معرفت ڈاکٹر ویتو سیلیرنو سے بھی ملاقات ہوئی تھی جنھوں نے آگے چل کر میری سو نظموں کو اطالوی زبان میں منتقل کیا۔
چند روز قبل اُن کی طرف سے واٹس ایپ پر فارورڈ کی ہوئی ایک تحریر ملی جس کے عنوان "ہماری یونیورسٹیاں جہاں محبت کرنا منع ہے "نے بہت چونکایا مگر بوجوہ فوری طور پر اُسے پڑھنے کی فرصت نہ مل سکی۔
اب اس تحریر کو غور اور تفصیل سے پڑھا ہے تو دل چاہا کہ اس پر بات بھی کی جائے کہ یہ مسئلہ اہم اور اجتماعی بھی ہے اور مقامی روائت اور اخلاقیات سے بھی اس کا ایک خاص طرح کا تعلق ہے جو یقینا ہم سب کی توجہ چاہتا ہے۔ آیئے پہلے اس کا وہ حصہ دیکھتے ہیں جس میں ہماری یونیورسٹیوں کے ماحول اور کردار پر بین الاقوامی تناظر میں بات کی گئی ہے اور جس سے اختلاف شائد ممکن بھی نہیں۔
"کہتے ہیں یونیورسٹی میں انسان جو اسباق سیکھتا ہے وہ کسی دوسری جگہ سے نہیں سیکھ سکتا۔ اسکول اور کالج کا ماحول الگ ہوتا ہے اور یونیورسٹی کا الگ۔ اسکولوں اور کالجوں میں سختی زیادہ ہوتی ہے جب کہ یونیورسٹیوں میں قدرے آزاد ماحول ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں تو خیر آزادی کا مطلب بھی غلط لیا جاتاہے، اسی لیے آگے بڑھنے سے پہلے واضح کرتے چلیں کہ یہاں آزادی سے ہماری مراد سوچنے سمجھنے پر کھنے اور فیصلہ کرنے کی آزادی ہے، ایسی آزادی ہمیں ملے بھی تو ہم اُسے واپس کر دیتے ہیں کہ یہ ہمارے کس کام کی۔
تب ہی ہمارے یہاں یونیورسٹیوں کو وہ درجہ حاصل نہیں جو باقی دنیا میں انھیں حاصل ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں طلبہ کو سو چنے اور سوال کرنے کی آزادی دی جاتی ہے، پروفیسر ہٹلر نہیں بلکہ ان کے دوست یا کولیگ بن کر انھیں پڑجاتے ہیں، طلبہ تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھی پوری شرکت کرتے ہیں، انھیں آپس میں بات چیت کرنے اور اپنی مرضی سے میل جول بڑھانے کی بھی آزادی دی جاتی ہے۔
یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ بالغ ہوتے ہیں اپنا اچھا بُرا جانتے ہیں نہیں بھی جانتے تو غلطیاں کر کے اور اُن سے سبق سیکھ کر جان جاتے ہیں۔ ایسا ہماری یونیورسٹیوں کے علاوہ دنیا کی ہر یونیورسٹی میں ہوتا ہے، ہماری یونیورسٹیوں کے اپنے ہی اصول ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں بنائیں تو درس و تدریس کے لیے گئی ہیں پر وہاں اس کے علاوہ باقی ہر کام ہوتا ہے۔ ملک کی تمام بڑی جامعات میں بظاہرامن کا درس دیتی جماعتیں موجود ہیں جن کا واحد مقصد ادارے میں طلبہ کو ہراساں کرنا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے لطف اُٹھانا ہوتا ہے۔"
یہاں تک تو یہ تحریر آپ کو ساتھ لے کر چلتی ہے مگر جب آپ اس صورتحال کے عملی اطلاق کے حوالے سے اسے دیکھتے ہیں تومعاملہ پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ کسی یونیورسٹی میں ایک لڑکی نے سر عام کسی مغربی ہیروئن کے انداز میں گھٹنا ٹیک کر اپنے محبوب سے اظہار محبت کیا اور اسے شادی کا پیغام دیا جسے خلافِ اخلاق و آداب قرار دیکر ان دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ مضمون نگار نے اس پر جو تبصرہ کیا وہ کچھ یوں ہے کہ
"وہ معاشرہ جہاں انسانوں کی پیدائش کا مقصد بس شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے وہاں ایک جوڑے کا شادی کی طرف اُٹھایا جانے والا پہلا قدم معاشرتی اصولوں کے خلاف قرارپایا"
اُن بچوں سے منسوب اس کارروائی اوراس کے انداز کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی حکام کے تادیبی اقدام کی سختی کے بارے میں یقینا اختلافِ رائے ہوسکتا ہے مگر اس بات سے اختلاف شائد ممکن نہ ہو کہ ہر معاشرے میں آزادی کے تصور اور اُس کے اطلاقات کی نوعیت پر اُس کی تاریخ اور روایات کا اثر غالب ہوتا ہے اور وہ اجتماع کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنی ایک مخصوص انفرادیت رکھتا ہے سو اس واقعے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں محبت کرنا منع ہے اپنی جگہ پر قابلِ غور ہے کہ تنقید کا موضوع محبت نہیں بلکہ اس کے اظہارکا وہ طریقہ ہے جو استعمال میں لایا گیا۔
میری ذاتی رائے میں عمل اور ردعمل دونوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ محبت اور اس کے اظہار کی آزادی کا تقاضا ہم سب کے دل کی آواز ہے مگر اس کا اندازبہرحال اپنے مخصوص ماحول اور روائت کی روشنی میں ہی مرتب ہوتا ہے۔
ان دنوں "خبرِ تحّیرِ عشق سُن نہ جنوں رہا نہ پری رہی" والی بحر میں اوپر تلے تین چار غزلیں ہوئی ہیں جن میں سے ایک ردیف کی عدم موجودگی کے باوجود بہت اچھی لگ رہی ہے سوچا کیوں نہ آپ کو بھی اس کے لُطف میں شامل کیا جائے:
وہ جو رمز تھی وہ کُھلی تو ہے بڑی دیر سے ہے مگرکُھلی
یہی زندگی کا اصول ہے بڑی بے اصول ہے زندگی
کوئی سُن کے کان لپیٹ لے کسی فرد کو وہ بُری لگے
پہ جو اجتماعی ضمیر ہے وہ تو سب کہے گا کھری کھری
سرِ بزم سب کو یقین تھا، وہ تھے صرف اُس کے ہی واسطے
وہ جو ایک پَل کا گریز تھا، وہ جو اک نگاہ تھی سرسری
کہاں کون کس کا تھا ہم سفر کیا ہے اِردگرد اُسے بھول کر
کبھی رک گئی کبھی چل پڑی کسی ریل جیسی ہے زندگی
کیوں نہ بخت پر اُسے ناز ہو دلِ آدمی ہے وہ آئنہ
کہ ہے چشمِ لُطف سے دیکھتا جسے خود خدا بھی کبھی کبھی
سرِ عام رکھتے ہیں کھول کر وہ جو واقعے تھے چُھپے ہوئے
نہیں وقت سا کوئی صاف گو بڑی بد لحاظ ہے ہسٹری
کسی راہ میں کسی موڑ پر میں رکا نہیں میں تھکا نہیں
مرے خواب تھے مرے ہم سفر میری راہبر تری یاد تھی
ہے قدم قدم پہ نیا جہاں، ہیں نَفس نَفس نئے مرحلے
اُسی مہربان کو چھوڑ کر نہیں کچھ کہیں پہ بھی آخری