عمر شریف سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات اسّی کی دہائی میں ہوئی جب ابھی وہ کسی حد تک مشہور اور مقبول تو ہوچکا تھا مگر اُس کی شہرت کا دائرہ زیادہ تر کراچی اور حیدر آباد تک محدود تھا اور وہ ملک گیر اور بین الاقوامی شہرت جس کی طرف وہ قدم قدم بڑھ رہاتھا ابھی فاصلہ پر تھی۔
کراچی اسٹیج کے روحِ رواں برادرم فرقان حیدر نے میرا اُس وقت تک کا لکھا ہوا واحد اسٹیج پلے "گھر آیا مہمان" انور اقبال مرحوم کے ساتھ مل کر وہاں اسٹیج کیا تھا جس کی کاسٹ میں عمر شریف بھی تھا۔ ٹی وی اور اسٹیج پر ون مین شو اور آوازوں کی نقالی کرنے والے فنکاروں کی فہرست خاصی لمبی ہے لیکن میری ذاتی رائے میں دلدار پرویز بھٹی، معین اختر اور عمرشریف کا شمار اگر اس فن کے اساتذہ میں کیا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا، عمر شریف کی رحلت سے اب یہ تکون ہم سب کی اجتماعی یادوں کے ایک حوالے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور ایک بار پھر علامہ صاحب کا یہ مصرعہ چاروں جانب گونجنا شروع ہوگیا ہے کہ "جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا"۔ دلدار بھٹی کی طرح عمر شریف نے بھی آخری سانس پردیس میں لی فرق شائد صرف یہ ہوکہ عمر نے جانے سے پہلے بھی دلوں کو دھڑکا سا لگا دیا تھا جب کہ دلدار ایک دم ہی ہاتھوں سے نکل گیا۔
اتفاق سے ان تینوں باکمال فنکاروں اور عمدہ انسانوں سے میری ذاتی سطح پر بھی دوستی اور رفاقت کا سلسلہ چار سے پانچ دہائیوں تک پھیلا ہواہے لیکن اس وقت چونکہ ہم عمر شریف کو خاص طور پر یاد کررہے ہیں اس لیے میں واپس اُس پہلی ملاقات کی طرف پلٹتا ہوں۔ عمر کی شخصیت کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا وہ اس کا اپنے سینئرز کے لیے غیر معمولی احترام تھا۔
لطیفے سنانا، نقلیں اُتارنا اور بات بات میں مزاح پیدا کرنا اُس کا ہنر تو تھا ہی مگر پیشہ اور روزگار بھی تھا لیکن اس کے باوجود میں نے اُسے کبھی اپنے کسی سینئر سے ایسی لبرٹی لیتے نہیں دیکھا جو دیکھنے یا سننے میں بُری لگے۔
اسی طرح mimaicary، پیروڈی یا نقل اُتارنے کے ضمن میں اکثر اُسے بڑے اور سینئر لوگوں کے انداز یا آئٹمز کو مزاح کے رنگ میں یا Upside down کرکے پیش کرنا ہوتا تھا لیکن وہ یہ کام ایک ایسی مخصوص قسم کی خوشدلی، مہارت اور نکتہ آفرینی کے انداز میں کرتا تھا کہ خود متعلقہ اشخاص بھی اُسے داد دینے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ وہ مضحکہ انگیزی کے دوران میں بھی کبھی توہین کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے میرے ڈرامہ سیریل "دن" کی اختتامی تقریب میں میری طرف سے دیے گئے ڈنر میں وہ شریک ہوا تو تقریباً ایک گھنٹہ تک اس نے فی البدیہہ اور نان اسٹاپ ایسی دلچسپ گفتگو کی کہ احمدندیم قاسمی، مختار مسعود، ایس ایم ظفر، اعجاز بٹالوی، اعتزاز احسن اور محمد نثار حسین جیسے ثقہ اور بُردبار لوگوں کا بھی ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔
اس دوران ہی اس نے بہت سے سینئر اداکاروں، گلوکاروں اور مشہور شخصیات کے بارے میں انتہائی پُرلطف نقلیں کیں مگر کوئی ایک لفظ یا جملہ ایسا نہیں تھا جسے تہذیب سے گِرا ہوا کہا جاسکے۔ اسٹیج ڈرامے کے زوال اور گھٹیا درجے کی جگتوں، عریانی اور پھکڑ بازی کے دور میں بھی میری معلومات کے مطابق وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو سہیل احمد کی طرح تھیٹر کی حُرمت کو برقرار رکھنے میں کوشاں رہے اور حتیٰ المقدور ایسے مزاح سے دُور رہنے کی کوشش کرتا رہا جسے ساری فیملی مل کر ایک ساتھ نہ دیکھ اور سُن سکتی ہو۔
اُس کی روایتی درسی تعلیم غالباً بہت زیادہ نہیں تھی لیکن اس کی کیمسٹری میں تھیٹر کے ساتھ ایک ایسی فطری وابستگی تھی کہ اداکاری اور ڈائریکشن سے قطع نظر اس نے نہ صرف بے شمار کامیاب ڈرامے لکھے بلکہ کردار نگاری اور مکالموں کی برجستگی میں بھی بہت ہی کم تھیٹر کے لیے لکھنے والے اُس کی برابری کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔
اُس کے ہر ڈرامے میں جگہ جگہ مختلف معاشرتی موضوعات اس خوبصورتی سے کھیل کا حصہ بنتے چلے جاتے تھے کہ بعض اوقات ناظرین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ جس بات پر وہ زور زور سے ہنس رہے ہیں کہیں وہ اصل میں رونے یا سوچنے والی تو نہیں۔ کسی بھی اسٹیج شو کے لیے اس کا نام کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا جس کا اعتراف یوں تو دنیا بھر میں کیا گیا مگر ہمسایہ ملک بھارت کے اُن اسٹیجوں پر جہاں ہر طرف گلیمر ہی گلیمر ہوتا تھا وہاں عمر شریف کی انٹری چند منٹوں میں پورے کا پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیتی تھی اور بڑے بڑے سُپراسٹارز اس کی موجودگی میں شامل باجوں کی شکل اختیار کر جاتے تھے اس کی ٹائمنگ کی سینس ایسی شاندار اور بے مثال تھی کہ اس فن کے گُرو بھی بے اختیار اُسے داد دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
مجھے کئی شوز میں اس کا مہمان اور کئی میں اس کے ساتھ بطور مہمان کے شرکت کا موقع ملا ہے اور مجھے کوئی ایک ایسا موقع بھی یاد نہیں جب اُس نے انگریزی محاورے کے مطابق شو چُرا نہ لیا ہو۔ مجھے پروگرام کا نام یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ اس میں، میں اور بشریٰ اعجاز مہمان تھے جس سلیقے، تہذیب اور محبت سے اس نے اسے ترتیب دیا، بے حد مزیدارباتیں کیں۔
لوگوں کو خوب ہنسایا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس عزت اور احترام کو اُس نے ملحوظ رکھا اس کی خوشگوار یادیں پندرہ برس گزر جانے کے بعد بھی میرے دل میں اُسی طرح سے تازہ ہیں کہ پورے پروگرام میں کوئی ایک قہقہہ بھی ایسا نہیں تھا جو مہمانوں کی قیمت پر بلند ہُوا ہو، اسی طرح ایک عید شو میں عزیزی علی ظفر اور میں اس کے ساتھ مہمانوں کے پینل میں شامل تھے اور چونکہ اس کی موجودگی میں کسی اور کا زیادہ بولنا بنتا ہی نہیں اس لیے زیادہ تر باتیں اس نے ہی کیں مگر سب سے خوب صورت بات یہی رہی کہ پورے پروگرام میں علی ظفرسے شفقت اور مجھ سے احترام کے جس لہجے سے اُس نے گفتگو شروع کی آخر تک اُس میں کہیں ہلکا سا فرق بھی آنے نہیں دیا۔
اُس کی وفات کی خبر کے بعد سے اب تک ہزاروں لاکھوں لوگ اس کے لیے مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ اُسے اچھے لفظوں میں یاد کر رہے ہیں کہ وہ ساری زندگی لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے انھیں ہنساتا اور خوش کرتا رہا اور یقیناً اس کی وجہ سے رب کریم اس کی رُوح پر بھی کرم فرمائیں گے کہ وہ اپنے بندوں سے پیار کرنے والوں پر ہمیشہ خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔
البتہ سوشل میڈیا پر اس کی ذاتی زندگی اور اس کی بیماری کے ضمن میں حکومتی امداد پر بعض لوگوں نے عجیب عجیب طرح کی تنقید اور جملے بازی کی ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے کہ اول تو جانے والوں کے حساب کتاب میں کسی تیسری پارٹی کی گنجائش ہی نہیں اور دوسرے یہ کہ جس آدمی نے دنیا میں اس قدر مسکراہٹیں کھلے دل سے بانٹی ہوں اور کچھ نہیں تو دنیا کو کم از کم اُس کا تو کچھ لحاظ ضرور کرنا چاہیے۔
ربِ کریم اس کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے اور اُس کی اگلی منزلوں کو آسان فرمائے کہ وہ بھی زندگی بھر اس کی مخلوق میں آسانیاں ہی بانٹتا ہوا اُس کے دربار میں حاضر ہوا ہے۔