جس قدرجُملے اور پیرے میں نے نشانِ زد کیے ہیں اُن کے حساب سے تو ان کے ساتھ بھی "آخری قسط" لکھنا کسی رسک سے کم نہیں کہ ڈاکٹر شاہدہ رسول کی پاکستانی ڈرامے کی تاریخ کے پسِ منظر میں لکھی گئی یہ کتاب "وارث سے بندگی تک" ایک وقت میں کئی کتابوں کا مواد ساتھ لے کر چل رہی ہے جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا اس کام کی ابتدا ڈاکٹر شاہدہ کے پی ایچ ڈی کے تھیسس سے ایک ریفرنس کے طور پر ہوئی مگر پھر اس نے خود دو تین ایسے موضوعات کے ساتھ آنکھ مچولی شروع کردی جو اپنی جگہ پر ایک مکمل کتاب کا درجہ رکھتے تھے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ کتاب میں بنیادی طور پر میرے سیریل ڈراموں اور اُن کے بعض کرداروں کو موضوع بنایا گیا ہے مگر اب کیا کیا جائے کہ ان کی تعدادبھی پندرہ سے زیادہ ہوگئی ہے ا ور اگر ان کے اسکرپٹس کو کتابی شکل میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو صفحات کی مجموعی تعداد شاید چار ہزار سے بھی تجاوز کر جائے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پی ٹی وی کے لیے میرے کل نوسیریل 21 برس کے دوران لکھے گئے ہیں جب کہ پرائیوٹ چینلز کے لیے پانچ کہانیاں "اگر"، "گرہ"، "بندگی"، "زمانہ" اور" شیر دل " (جس کا اصل نام "وسعتیں " تھا)اس کتاب میں بھی عزیزہ ڈاکٹر شاہدہ نے ہر ڈرامے پر علیحدہ سے اور خوب جم کر لکھا ہے۔
اب میرے سامنے دو صورتیں ہیں یا تومیں اس کی کہانی، کرداروں، تھیم اور پلاٹ کے حوالے سے لکھی گئی آرا کو جمع کرتا جائوں کہ ایک ہی نظر میں پوری تصویر سامنے آجائے یا مختلف سینوں اور کرداروں سے متعلق کچھ ایسے مکالمے ایڈٹ کرکے درج کروں جن سے اُس سین، کہانی، کردار یا میری تحریر کی کسی خاص خوبی کا ذکر واضح ہوتا چلا جائے۔
تیسرا راستہ ہر کھیل کو مئولفہ کے تبصروں کے ساتھ ساتھ دیکھنے کا تھا اور عملی طور پر تینوں ہی نا ممکن تھے کہ کسی ایک کھیل کے لیے ایک اکلوتا کالم کم پڑ رہا تھا سو میں نے جہاں جتنا اور جیسا مناسب لگا ان تینوں طریقوں کو بغیر کسی تخصیص یا وضاحت کے اُٹھایا ہے لیکن اب دیکھتا ہوں تو ان کا دس فیصد بھی اس کالم میں راہ پاتا نظر نہیں آتا سو اب یہی فیصلہ کیا ہے کہ جن سینوں کے اقتباسات کتاب میں محفوظ کیے گئے ہیں انھی کو ری ایڈٹ کرکے کام چلایا جائے کہ فی الوقت اس اُلجھن سے نکلنے کا اور کوئی راستہ ذہن میں نہیں آرہا یعنی اب اس کے بعد کی تصویر آپ نے میرے اور عزیزہ شاہدہ کے ساتھ مل کر مکمل کرنی ہے۔
"اس سیریل کے کردار اگر چہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح چوہدری حشمت یا چوہدری یعقوب کے زیر عتاب ہیں۔۔۔ جنکے ذریعے اس ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت دکھائی گئی مثلاًماسٹر منظور، علم دین کمہار، اس کا بیٹا محمد رشید، دلاور، مولا داد اور شیر محمد کے ذریعے ڈرامہ نگار نے اس تاثر کو نمایاں کیا ہے کہ پاکستان ایک مثالی ریاست کی صورت میں قائم ہوسکتا ہے اگر شیر محمد جیسے محبِ وطن اور فرض شناس لوگ اس مادرِ وطن سے وفاداری نبھانے کے لیے اپنے خواب اور جذبے قربان کرنے کا حوصلہ رکھیں "۔
"اس تناظرمیں اس حقیقت کو ملحوظِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس نظام کی جڑیں شدید تنقید کے نتیجے میں کھوکھلی کے بجائے مستحکم ہوئی ہیں۔ ان ڈراموں کا مطالعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے شکنجوں سے ہمارا معاشرہ کبھی نہیں نکل سکتا"
"چوہدری حشمت:اوئے تُو نے کبھی شہد کا چھتہ دیکھا ہے ماسٹر، تو نے کبھی غور کیا ہے اس میں کیسی تنظیم ہوتی ہے بلکہ مکھی کے لیے کس طرح ساری مکھیاں مل کر محل بناتی ہیں۔ اس کی خدمت کرتی ہیں اوئے کتنا سوہنا لگتا ہے وہ چھتہ۔ جب سے کائنات بنی ہے یہی سلسلہ چلتا آرہا ہے "۔ ماسٹر: مکھیوں اورانسانوں میں بہت فرق ہوتا ہے چوہدری جی۔ حشمت: "کیا فرق ہوتا ہے؟ میں بتاتا ہوں تجھے مکھیاں علم دین کے پتر کی طرح کتابیں نہیں پڑھتیں۔۔۔ اپنی ملکہ مکھی کی تابعدار ہوتی ہیں "
"دلاور اور مولا داد کے کردار غصے، نفرت، انتقام اور مجبوری کے دائروں میں گھومتے ہیں۔ حالات کے دبائو تلے اکثر لوگوں کے اصل چہرے مسخ ہوجاتے ہیں لیکن انسانیت کی چنگاری کہیں نا کہیں موجود ہوتی ہے۔ شیر محمد ایک آئیڈیل پاکستانی شہری ہے، جو اپنی قوم اور وطن کو مقدم رکھتا ہے وہ غیر معمولی انسان نہیں ہے اس کے جذبہ حُب الوطنی نے اُسے غیر معمولی بنادیا ہے "
حشمت: ائوے انگریز کا راج ہوتا تو میں گورنر وائسرائے کے پاس پہنچ کر اُن کو اپنے خاندان کی گزشتہ خدمات یاد دلا کر اپنے بزرگوں کی سندیں اور تمغے دکھا کر تیری جان بخشی کر ا لیتا۔۔۔ پر تیرے ایس قائداعظم نے پاکستان بنا کر ہماری زندگی حرام کر دی ہے۔۔۔ خاندانی آدمی کی کوئی عزت کوئی وقار نہیں ہے ان کی اکھوں میں "
"مولادادتجھے کوئی اور ٹوٹا یاد نہیں ہیر وارث شاہ کا؟ "گلوکار!بہت سے ہیں جی۔ مجھے ہیر آتی ہے۔
مولاد داد۔ تو پھر آیندہ ایس علاقے میں اس طرح کے شعر نہ پڑھنا بڑے چوہدری صاحب نے سن لیے تو تیرے گلے میں مٹی بھروادیں گے"۔ ماسٹر:کیوں بھئی مولا داد۔ کیوں ڈرا رہے ہو بے چارے کو۔ یہ تو وارث شاہ صاحب کا کلام ہے۔ مولاداد:کلام تو وارث شاہ کا ہے ماسٹر جی پر ہے تو بڑے چوہدری صاحب کے خلاف شاندار نُوں کرے نہ کوئی جُھوٹا"۔
ڈرامہ سیریل "دہلیز " کے ایک سین میں یہی چوہدری حشمت سردار جہانگیرکے لہجے میں بولتا ہے۔
جہانگیر:"بیکار ضد نہیں کرتے سائیں، کیا فائدہ ہے لڑکا تمہارا معذور ہوجائے، ٹوٹے ہوئے ہاتھ پائوں کے ساتھ فُٹ پاتھ پر پڑا ہو اور صاحب زادی تمہاری۔"
اسی طرح یہی سرداد جہانگیر"سمندر" میں خان شہباز کا رُوپ دھا ر لیتا ہے اور اپنی بیٹی نوشین سے یوں مخاطب ہوتاہے"۔ شہباز: دیکھو پُتری یہ مردوں کے کام ہیں مجھے پتہ ہے کون سا کام کس طرح کرنا ہے۔ کچھ نہیں ہوگا اس لڑکے کو، ذرا زیادہ اَڑیل ہے دو چار دن میں رام ہوجائے گا پھر چھوڑ دیں گے "
ڈرامہ سیریل "رات" میں شہر کی پڑھی ہوئی جاگیر زادی ایک جگہ اپنے باپ سے یوں ہم کلام ہوتی ہے۔
تابندہ: "میں مشتاق سے ڈائی وورس لے رہی ہوں کسی کے ساتھ بھاگ نہیں رہی۔۔۔ ذرا اپنے اِردگرد نظر دوڑایئے اس پچھلے ایک برس میں کتنی ڈائی وورسزہوئی ہیں ہمارے جاننے والوں میں، کیا فرق پڑتا ہے اس لیے میری طرف سے فکر مند نہ ہوں I can take care of my self۔
ڈاکٹر شاہدہ رسول کا کمال یہ ہے کہ اُس نے وارث سے بندگی تک کسی ایسے واقعے کردار، جملے یا صُورتِ حال کو نظر انداز نہیں کیا جس کا تعلق اس کتاب کے موضوع سے تھا اور میرے نزدیک اس کی صرف یہ ایک خوبی ہی اپنی جگہ پر کسی معرکے سے کم نہیں۔