اگر عمران خان پر مائنس ون کے فارمولے کا اطلاق کہیں زیر غور ہے تو یہ بات باعث حیرت اس لیے ہے کہ عمران خان دو سال میں ہونے والے قومی سطح کے فیصلوں کے یقیناتنہا ذمہ دار نہیں۔ بڑے معاشی فیصلے ہوں، آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ ہویا اہم وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ، عمران خان نے کوئی بھی فیصلہ تنہا نہیں کیا۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے تو اعلی عسکری قیادت براہ راست کاروباری اور صنعتی شخصیات سے ملاقاتیں کرتی رہی ہیں۔ کورونا سے نمٹنے کے لیے بنائی جانے والی حکمت عملی، لاک ڈائون کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ، کچھ بھی تو عمران خان نے اکیلے نہیں کیا۔ نواز شریف کو علاج کے لیے باہر بھیجنے کی اجازت ہو یا آصف زرداری کے کرپشن کیسز، عمران خان نے کون سا فیصلہ تنہا کیا ہے؟ مختلف اہم قومی معاملات پر اداروں کے بیچ مشاورت اس نوعیت کی رہی ہے کہ اس دور میں تعلقات کو آئیڈیل قرار دیا جاتاہے۔ اب اگر عمران خان ناکام ہو رہے ہیں تو ذمہ دار کیا وہ تنہا ہیں؟ عمران خان کی جگہ شاہ محمود قریشی ہوں گے توایسا کیا کریں گے کہ ملک کی تقدیر بدل جائے گی، عمران خان ایسا کیا نہیں کر رہے جو ان سے کروائے جانے کی خواہش ہے؟ اور وہ چیزیں تحریک انصاف کا کوئی دوسرا کیسے کر سکے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش ہی میں یہ اہم سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ کیا مائنس ون مسائل کا حل ہے؟
ماضی میں جن جن شخصیات کوبھی مائنس کرنے کی کوشش ہوئی ان سب کی وجوہات عمران خان سے مختلف تھیں۔ نواز شریف کو تین مرتبہ مائنس کرنے کی خواہش کا اظہار ہوا۔ پہلی بار غلام اسحق خان نے میاں شریف سے کہا تھا کہ بڑے کی بجائے چھوٹا بیٹا عنایت کر دیں، میاں شریف نے انکار کر دیا۔ دوسری بار پرویز مشرف نے شہباز شریف سے کہا تھا کہ بڑے میاں صاحب کی جگہ آپ وزیر اعظم بن جائیں ہمارے تمام اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ یہ بات نواز شریف کے اس وقت کے پولیٹیکل سیکرٹری سعید مہدی نے خود ایک ٹی وی شو میں بتائی تھی۔ شہباز شریف نے تابعدار چھوٹے بھائی کی طرح یہ بات آ کر نواز شریف کو بتائی تو جنرل مشرف اور نواز شریف کے درمیان تعلقات کے بیچ ایک گرہ کا اوراضافہ ہو گیا۔ تیسری مرتبہ تو نواز شریف عدالت کے ذریعے مائنس ہوئے لیکن وہ مانتے ہیں کہ طاقتور حلقوں کے سامنے سر نہ جھکانا انہیں گھر بھیجنے کی وجہ بنا۔ وجہ کچھ بھی ہو نواز شریف کامیابی سے مائنس ہوئے اور انہی کی پارٹی سے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بن گئے۔ مائنس ون کا فارمولا اپلائی ہو گیا۔ تینوں مرتبہ نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش کے پیچھے وجہ ایک ہی تھی اور وہ تھی اختیارات کی لڑائی۔ نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ ایک منتخب وزیر اعظم ہیں لہٰذا دفاع اور خارجہ پالیسی سمیت تمام فیصلوں کا اختیار بلا شرکت غیرے ان کے پاس ہونا چاہیے۔ یہی خواہش انہیں مختلف قسم کی آئینی ترامیم کی تحریک دیتی رہی اور ایسا کر کے وہ ایک طرف اپنے اختیارات میں اضافہ کرتے رہے اور دوسری طرف اختلافات میں۔ عمران خان کااس صورتحال سے موازنہ کریں تو ان کی کسی حلقے سے ایسی کوئی لڑائی نہیں۔ لہٰذا مائنس عمران خان کی یہ بنیادتو ہو نہیں سکتی۔
اب آئیے بے نظیر یا آصف زرداری کی طرف۔ پیپلز پارٹی اپنی ابتداء سے ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی رہی ہے۔ لہٰذا بے نظیریا آصف زرداری کو مائنس کرنے کی اگر کبھی کوششیں ہوئیں تو اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ بے نظیر کی حکومت کو کرپشن کے الزامات لگا کر ختم کیا گیا۔ اگرچہ آصف زرداری اپنے دور میں خوب کرپشن کرتے رہے لیکن طاقتور حلقوں سے انہوں نے اچھے طریقے سے نباہ کیامگر اپنا دور ختم ہوا تو پٹری سے اتر گئے، "دودھ پینے " اور "تین سال " والے کچھ ایسے متنازع بیان دیے کہ علاج کی غرض سے مناسب وقت تک کے لیے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ آج وہ پیپلزپارٹی کی سیاست سے مائنس ہو چکے ہیں۔ اب موازنہ کریں تو عمران خان پر کرپشن کے وہ الزامات نہیں جو کبھی بے نظیر اور آصف زرداری پر لگتے رہے، نہ انہوں نے کبھی ایسے متنازع بیان دیے جو آصف زرداری نے دیے لہذا عمران خان کو مائنس کرنے کے لیے ان وجوہات کو بھی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
الطاف حسین پاکستانی سیاست میں اپنی نوعیت کا الگ کیس تھا جس نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، بھتہ اور اغوا برائے تاوان جیسے دھندوں سے مال بنا یا، ٹارگٹ کلنگ کو رواج دیا اور دشمن کے ایجنڈے پر کھیلنے لگا۔ ایم کیو ایم سے الطاف حسین مائنس ہو گیا۔ اب ظاہر ہے مائنس ون کے کھیل میں عمران خان اور الطاف حسین کی بھی کوئی مماثلت نہیں بنتی۔
وہ چارج شیٹ جو مائنس ہونے والے ماضی کے سیاستدانوں پر لگی وہ عمران خان پر نہیں لگائی جا سکتی۔ عمران خان پر جو چارج شیٹ لگائی جا سکتی ہے وہ بیڈ گورننس، اپنی ٹیم پر کمزور گرفت، کمزور معاشی پالیساں اور ناتجربہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے برے نتائج سے متعلق ہو سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان کو مائنس کر کے کسے لایا جائے گا۔ جو بھی شخص ان کی جگہ لے گا اس کی جیب میں کیا کوئی ایسا فارمولا ہے جو وہ عمران خان کو نہیں دے رہا اور اس نے اپنے لیے بچا کے رکھا ہے کہ جب وہ وزیر اعظم بنے گا تبھی اسے آزمائے گا؟ عمران خان کی جگہ جو بھی لایا جائے گا کیا وہ طاقتور اداروں سے مشاورت نہیں کرے گا؟ اور اگر ادارے اسے اتنے اچھے مشورے دیں گے کہ وہ کامیاب ہو جائے تو کیایہ مشورے عمران خان کو نہیں دیے گئے؟
لہٰذا اگر بغیر کسی موثر حکمت عملی کے عمران خان کو ہٹا کر انہی کی پارٹی سے کوئی دوسرا شخص لا کر اس منصب پر بٹھا دیا جاتا ہے تو یہ محض وقت گزاری کا ایک حربہ تو ہو سکتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔