وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ایک بار پھر اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کر دیا جائے اور یہ کام محکمہ موسمیات اور سائنسی اداروں کے سپرد کر دیا جائے۔ فواد چودھری کی اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔
رویت ہلال کمیٹی کا سارا مقدمہ محض ایک نقطے پر کھڑا ہے اور وہ یہ کہ کیلینڈر کے مطابق روزہ رکھنے یا عید کرنے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے لیے رویت بصری یعنی آنکھ سے چاند دیکھنا ضروری ہے۔ گویا اگر کسی کو چاند نظر آیا ہے اور چاند کی رویت ہو گئی ہے تو ہی روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے رویت ہلال کمیٹی نے ایک میکنزم بنا رکھا ہے۔ وہ ملک بھر سے عام افراد کو دعوت دیتی ہے کہ اگر کسی کو چاند نظر آ جائے تو وہ دیے گئے نمبروں پر فون کر کے چاند نظر آنے کی شہادت دے۔ لیکن رویت ہلال کمیٹی کا لاکھوں روپے میں پڑنے والا ایک اجلاس تب بے معنی ہو کے رہ جاتا ہے جب چاند دیکھنے والے کی شہادت کو اس بنیاد پررد کر دیا جاتا ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق آج چاند کی پیدائش ممکن ہی نہیں تھی اس لیے آپ کی شہادت سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے۔ سالہا سال سے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی شہادتیں یہی کہہ کر رد کی جا رہی ہیں کہ چاند نظر آنا ممکن نہیں تھا آپ نے کیسے دیکھ لیا۔ رویت ہلال کمیٹی کے اس عمل کو درست مان لیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی شہادت کی بنیاد پر نہیں محکمہ موسمیات اور سپارکو کی ہدایات کے مطابق کام کرتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے خود میں نے مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ محکمہ موسمیات نے کمیٹی کو رپورٹ دی ہو کہ آج چاند کی پیدائش ممکن نہیں پھر بھی کمیٹی نے لوگوں کی شہادتوں کو درست تسلیم کر لیا ہو؟ انہوں نے جواب دیا کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی عملی طور پر محض محکمہ موسمیات کی رپورٹ پر سٹیمپ کرنے کے لیے اجلاس کرتی ہے اور کچھ نہیں۔ ایسے میں فواد چودھری کی تجویز کو مان لینے میں ہرج ہی کیا ہے؟
رویت ہلال کمیٹی کی یہ دلیل کہ صرف محکمہ موسمیات کی رپورٹ پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ چاند کو آنکھ سے دیکھ نہ لیا جائے، کا جواب یہ ہے کہ چاند کو آنکھ سے دیکھنا ہی ناگزیر ہے تو اس کے لیے کمیٹی کا اجلاس ہونا ہی کیوں ضروری ہے۔ اس کے لیے محکمہ موسمیات کے دفتر میں ایک سیل بنا کر اخبارات کے ذریعے ٹیلی فون نمبرز کی تشہیر کر دی جائے اور بتا دیا جائے کہ آج شام مقررہ وقت پر چاند نظر آئے گا لہذا عوام چاند کی رویت کرکے بتائے گئے نمبر پر فون کر دیں۔ لہذا وہ کام جو رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں ہوتا ہے محکمہ موسمیات کے دفتر میں ہو جائے گا، یعنی محکمے کی رپورٹ کو عوام کی شہادتیں مل جائیں گی۔ سائنسی معاونت بھی ہو جائے گی اور رویت کی ضرورت بھی پوری ہو گی۔ یہی کام تو دراصل رویت ہلال کمیٹی کر رہی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کمیٹی میں بیٹھے مفتیان کرام خود سے اپنے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ محکمہ موسمیات میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ بہتر مسلمان ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس دوسروں کو خود سے زیادہ گناہ گار سمجھنے کے لیے کوئی دلیل بھی نہیں۔
چلیں مان لیا جائے کہ کمیٹی میں بیٹھے افراددین کا علم سائنسدانوں سے زیادہ رکھتے ہیں۔ مگر چاندکا اعلان تو پھر بھی محکمہ موسمیات کی سفارش، چاند کی پیدائش کے علم اور عام مسلمانوں کی شہادت کی بنیاد پر ہی ہونا ہے تو اس کے لیے علمائے کرام کے سمندر جیسے وسیع دینی علم کی کیا ضرورت؟ جس علم کی یہاں ضرورت ہے وہ سائنسدانوں کے پاس ان سے بہت بہتر ہے۔
مفتی منیب صاحب کی اپنے حق میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ ہمارا رویت کا نظام اتنا شفاف اور عمدہ ہے کہ امریکہ، انگلینڈ، یورپ اور مراکش کے لوگ ہمارے چاند کے مطابق روزہ رکھتے اور عید کرتے ہیں۔ گویا مفتی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ ہر ملک میں رویت کا اپنا نظام ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی چاند جغرافیے کا پابند ہے۔ گویا مفتی صاحب کے مطابق زمین کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا شخص زمین کے دوسرے کونے میں نظر آنے والے چاند کے مطابق روزہ رکھ سکتا ہے، پھر تو ہماری رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت بالکل ہی نہیں رہتی، پھر تو آسان ہے، سعودی عرب میں ایک دن پہلے چاند نظر آ رہا ہے، وہاں کی رویت بصری کو درست تسلیم کر کے روزہ رکھ لیا جائے، عید منا لی جائے اور چاند کی رویت کو جغرافیائی قید سے آزاد کر دیا جائے۔ یوں رویت کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور کمیٹی کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔
مفتی منیب سے ایک اور گزارش یہ ہے کہ اگر آپ کیلنڈرکو نہیں مانتے تو گھڑی کو کیوں مانتے ہیں؟ جیسے آپ مانتے ہیں کہ جب تک چاند کو خود آنکھ سے نہ دیکھ لیا جائے رمضان کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ہی آپ سحر اور افطار کے اوقات میں آنکھ کا استعمال کر کے طلوع اور غروب آفتاب کا خود مشاہدہ کیوں نہیں کرتے۔ اس ضمن میں آپ نے محکمہ موسمیات اور سپارکو کی مدد سے بنائے گے انتہائے سحر اور غروب آفتاب کے کیلینڈر پر یقین کیسے کر لیا؟ اذان فجز اور اذان مغرب اسی کیلینڈر کے مطابق دی جاتی ہے جو ہمیں ماہرین فلکیات نے بنا کر دیا ہے۔ جب ماہرین فلکیات سورج کے طلوع اور غروب کا کیلنڈر بنا سکتے ہیں تو چاند کے طلوع اور غروب کا کیلنڈر کیوں نہیں بنا سکتے۔ جب آپ کو سورج کے کیلنڈر پر عمل درآمد پر اعتراض نہیں تو چاند کے کیلنڈر پر عملدرآمد پر آپ کو اعتراض کیوں ہے؟ تو حضور جب آپ گھڑی کو مان لیتے ہیں تو کیلینڈر کو کیوں نہیں مانتے؟