سمجھا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر کشمیر کا مسئلہ ان پانچ طریقوں سے حل ہو سکتا ہے۔
-1 بات چیت کے ذریعے /-2 اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے/ -3 جہاد کے ذریعے/-4 خانہ جنگی کے ذریعے /-5 پاک بھارت جنگ کے ذریعے
آئیے دیکھتے ہیں کہ بظاہر ان طریقوں سے کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ با ت چیت کا عمل بند ہوئے برس ہا برس گزر گئے، بھارت کسی مسئلے پر پاکستان سے بات کرنا ہی نہیں چاہتا، کشمیر پر تو بالکل نہیں۔ جب بات چیت کے دروازے بند نہیں ہوئے تھے اور رسمی ہی سہی مگر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا تب بھی ہر ذی شعور شخص یہ جانتا تھا کہ بات چیت سے کشمیر نہیں ملے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ مذکرات کی میز پر بیٹھ کر پاکستان بھارت سے کہے کہ" جنابِ بھارت ہم آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینا چاہییے اور یہ کہ کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں بستے ہیں لہذا فارمولے کے مطابق اسے پاکستان کا حصہ بنناتھا اور یہ کہ آپ نے غلط فہمی کی بنیاد پر کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے، اپنی غلط فہمی دور کیجئے اور ہمارا کشمیر ہمیں لوٹا دیجئے "۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بھارت کہے کہ" بہت شکریہ پاکستان آپ نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہماری آنکھیں کھول دیں، چلیے ٹھیک ہے لے جائیے اپنا کشمیر"۔ پوری دنیا جب پاکستان اور بھارت پر بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا سبق پڑھاتی ہے تو دراصل وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی تلقین کر رہی ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چلو فی الحال بات چیت میں ٹائم پاس کرو پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بات چیت کے ذریعے کشمیر کا حل نکل آئے گا تو یہ خام خیالی بھی ہے اور خود فریبی بھی۔
دوسرا حل کچھ لوگوں کے نزدیک اقوام متحدہ یا اس کی قراردادیں ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کی سادگی پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو اقوام متحدہ سے امیدیں باندھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اقوام متحدہ طاقتور ریاستوں کے مفادات کے لیے قائم کیا جانے والا ایک ادارہ ہے۔ جو ایران اور پاکستان جیسے ممالک کو تو جنگ سے دور رہنے کی تلقین ہمیشہ کرے گا مگر امریکہ کو عراق، افغانستان، شام، لیبیا یا کسی بھی ملک میں حملہ آور ہونے سے کبھی نہیں روکے گا۔ سپر پاورز کے مفادات کا تحفظ کرنا اس کے مقاصد میں سے ایک معلوم ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ مظلوم کا نہیں طاقتور کا ساتھ دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جنرل اسمبلی میں کی جانیوالی عمران خان کی تقریر کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائی دیتا۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو نہ جھٹلانا مگر کوئی قدم اٹھائے بغیر مکمل خاموشی اختیار کر لینا اقوام متحدہ کی بے بسی نہیں تو اور کیا ہے۔
اقوام متحدہ نہیں تو پھر کیا جہاد اس مسئلے کا حل ہے؟ سرِدست تو یہ راستہ بھی قابل عمل دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ عالمی طاقتیں پاکستان پر در اندازی اور دہشت گردی کا الزام لگانے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ موقع کی تلاش میں ہیں کہ فتویٰ صادر کریں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگا کر ایف اے ٹی ایف کے ذریعے ہمارا بازو مروڑ دیں۔ لہذا کمزور پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے کشمیریوں کی بیرونی معاونت کائونٹر پروڈکٹیو ہو سکتی ہے۔
کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے محدود ملٹری آپریشن کیا مسئلے کا حل ہے؟ اس سوال کا جواب بھی ہاں میں دینا بہت مشکل ہے۔ ہماری جانب سے اس قسم کی گذشتہ کوشش کارگل کے محاذ پر کی گئی تھی۔ آپ پرویز مشرف کی سٹریٹیجی پر اعتراض کر سکتے ہیں، یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ان کی منصوبہ بندی نا مکمل اور ناقص تھی، آپ یہ بحث بھی کر سکتے ہیں کہ پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف سے اجازت لی تھی یا نہیں مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوشش کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں تھی۔ کشمیر پر قبضے کی اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی طاقتیں بھارت کے حق میں جا کھڑی ہوئیں اور پاکستان کو احساس ہو ا کہ عالمی سطح پر وہ کتنا تنہا ہے۔ ثالثی کے لیے نواز شریف جب اس قضیے کو بل کلنٹن کے پاس لے گئے تو کلنٹن نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور ایک ہی مطالبہ کیا کہ اپنی فوجیں واپس بلائو۔ نواز شریف نے بارہا کہا کہ ہمیں کشمیر کے معاملے پر آپ کی حمایت چاہیے، کلنٹن نے کہا آپ ایٹمی بٹن پر ہاتھ رکھ کے مدد مانگیں گے تو نہیں ملے گی۔ نواز شریف نے کوشش کی کہ امریکہ کم از کم ثالثی کا ہی سہی اور نام نہاد سا ہی مگر کوئی وعدہ تو کر لے مگر بل کلنٹن نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا اور فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔ تب پاکستان کو احساس ہوا کہ امریکہ کشمیر کے مسئلے میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ گویا اگر یہ کہا جائے کہ آجکل جنگیں مضبوط معیشتوں اورمضبوط خارجہ پالیسی کے بل بوتے پر لڑی جاتی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔
میں نے ایک بار بزرگ کشمیری حریت راہنما سید علی گیلانی سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی کس طرح مدد کرے؟ تو انہوں نے دو ٹوک اور کھرا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ " اگر پاکستان کشمیر کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کے اپنے داخلی استحکام پر توجہ دے"۔ سید علی گیلانی جانتے تھے کہ کمزور اور معاشی بوجھ سے نڈھال ملک خود کو سنبھالا نہیں دے سکتے تو کشمیر کی مدد کیسے کرے گا۔
کشمیر میں خانہ جنگی البتہ بھارت کو سخت پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہے اور وہ تبھی ہو گی جب بھارت معاشی طور پر اس قدر کمزور ہو جائے کہ اس کے لیے کشمیر میں نو لاکھ فوجی رکھنا ممکن نہ رہے گا اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کمزور ہو جائیگا یا کر دیا جائیگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان داخلی اور خارجی طور پر بہت مضبوط ہو۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا زمانہ ہے۔ دنیا اپنی پراکسیز کے ذریعے خطوں میں اپنے قدم جماتی ہے۔ پراکسیز حریف کو زیر کرنے کا موثر ترین ہتھیار ہے اور یہ ہتھیار کشمیر کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔