Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sab Aik Dusre Ko Dhoka De Rahe Hain

Sab Aik Dusre Ko Dhoka De Rahe Hain

لانگ مارچ تو ہو گا نہیں پھر شوروغل کس بات کا؟ پچھلے ایک سال سے لانگ مارچ اور استعفوں کے دعوے سن رہے ہیں، رانا ثناء جنوری میں کہا کرتے تھے مارچ میں مارچ ہو گا، نہیں ہوا۔ پھر ستمبر میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعداعلان ہوا سٹیرنگ کمیٹی میٹنگ کے بعد جلسوں کا شیڈول دے گی۔

یہ جلسے لانگ مارچ پر اختتام پذیر ہوں گے، وہ بھی نہیں ہوا۔ گذشتہ ماہ بھی پندرہ روزہ ریلیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا یہ ریلیاں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ پر اختتام پذیر ہوں گی، یہ بھی نہ ہو سکا۔ اب ریلیوں کا پھر اعلان کیا گیا ہے 13 سے 20 نومبر تک ریلیاں اور جلسے ہوں گے جس کے بعد لانگ مارچ کیا جائے گا۔ کوئی یقین کرے یا نہ کرے میں تو تب تک یقین نہ کروں گا جب تک لانگ مارچ ہو نہ جائے گا۔

مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف میں لانگ مارچ کی تاریخ دینے پر شدید اختلاف ہے۔ ایک خبر کے مطابق مولانا نے شہباز شریف کو تجویز دی کہ لاہور میں 29 یا 30 نومبر کو ایک جلسے کا انعقاد کیا جائے جس میں لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دے دی جائے، شہباز شریف نے اپنی پارٹی سے مشاورت کے لیے وقت مانگا اور خاموشی اختیار کر لی۔

مولانا کا یہ بھی اصرار تھا کہ 11نومبر کو ہونے والے سربراہی اجلاس میں لاہور جلسے کی تاریخ بھی طے کر لی جائے مگر یہ ہوتا بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔ بظاہر شہباز شریف ابھی پنجاب سے شروع ہونے والے کسی لانگ مارچ کی میزبانی کرنے میں دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا خیال ہے کہ فیصلہ کن لانگ مارچ کا آغاز پنجاب سے ہی ہونا چاہیے تبھی وہ زیادہ پُر اثر ہو گا، شاید ان جماعتوں کا خیال ہے کہ وہ سب مل کر بھی کارکنان کی اتنی بڑی تعداد کو باہر نہیں نکال سکتیں جتنی مسلم لیگ ن پنجاب سے نکال سکتی ہے۔ لیکن شہباز شریف شش وپنج میں مبتلا ہیں اور پیش و پس سے کام لے رہے ہیں۔

شہباز شریف کے نکتۂ نظر کو سمجھنا مشکل نہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کے 80سے زیادہ ایم این ایز ہیں وہ خود بھی لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں۔ شہباز شریف جانتے ہیں کہ الیکشن 2023 میں ہونے ہیں اور وہ چاہتے بھی یہی ہیں۔ وہ بیٹھے بٹھائے اپنے 85 ایم این ایز کو کیوں بے روزگار کرنا چاہیں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ لانگ مارچ سے کوئی نتیجہ برآمد ہونا ہی نہیں ہے وہ کیوں اپنی جماعت کو ایک بے مقصد مشق میں دھکیلنا چاہیں گے۔

دوسری طرف شہباز شریف کے کیسز غیر اعلانیہ طور پر تقریبا انجماد کا شکار ہیں۔ پچھلے ایک سال میں کسی کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ صاف نظر آتا ہے پراسیکیوشن نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ وہ عدالتوں میں آتے ہیں، تاریخ لیتے ہیں، چلے جاتے ہیں، پراسیکیوشن خاموش کھڑی رہتی ہے۔

شہباز شریف کیوں چاہیں گے وہ حکومت کے لیے مشکل کا باعث بنیں اور جواب میں حکومت ان کے لیے۔ علاوہ ازیں شہباز شریف کی اپنی پارٹی میں بھی بے شمار اندرونی مسائل موجود ہیں۔ پارٹی کے آدھے رہنمائوں کی وفاداریاں مریم کے ساتھ ہیں اور وہ انہی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں، انہی کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

شہباز شریف کی پارٹی کے اندر ایک پارٹی موجود ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ آئندہ انتخابات میں وہ وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے بھی یا نہیں۔ ان کے بڑے بھائی نواز شریف انہیں اگلا وزیر اعظم نامزد کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ لندن میں ان سے سوال بھی ہوا توگول کر گئے۔ ایسے میں شہباز شریف پارٹی کے اندرونی معاملات کو کسی موڑ پر پہنچائے بغیر اگلے انتخابات کے حالات کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔

سب کو پتہ ہے کہ شہباز شریف مقتدر حلقوں کا دل جیت کر امکانات پیداکرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ یہی ان کی سیاست کا یک نکاتی فارمولہ ہے، یہی ان کے وزیر اعظم بننے کے امکان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس راستے کا انتخاب کر کے انہوں نے اپنے بھائی کی مخالفت مول لے رکھی ہے تو وہ کیوں فضل الرحمن کے کہنے پہ اس راستے پر چلیں گے۔

مولانا یہ سب باتیں سمجھنا نہیں چاہتے۔ وہ خود غرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہیں کسی بھی قیمت پر اگلے انتخابات چاہئیں، ایک ایسا سیٹ اپ جس میں ان کی گنجائش موجود ہو۔ پہلے وہ چاہتے تھے اسمبلیوں سے استعفے دے دیے جائیں۔

پیپلز پارٹی سے وہ اسی بات پہ بِھڑ گئے اور پی ڈی ایم سے نکال دیا۔ اب پھر سے پیپلز پارٹی کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کی بات کر کے اپنے عزائم کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیپلز پارٹی کبھی اس سیٹ اپ کو لپیٹنے کے حق میں نہیں ہو گی۔

ن لیگ کی طرح پیپلز پارٹی بھی قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی وہ صرف ہلکے پھلکے احتجاجوں کے ذریعے خود کو متحرک جماعت دکھانا چاہتی ہے۔ کیسے ممکن ہے مولانا کو معلوم نہ ہو کہ جب اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے تحریک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گی پیپلز پارٹی پھر بھاگ جائے گی۔

پیپلز پارٹی کی سیاست ایک دہائی سے اسی نکتے پر گھوم رہی ہے کہ ایک صوبے میں حکومت بنائو، اپنی نااہلیوں کو محرومی کی شکل دے کر وفاق پر حملے کرتے رہو۔ وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کرکے اپنی معصومیت کو ثابت کرتے رہو اور اپنے صوبے کے عوام کو بتاتے رہو کہ وفاق تمہارا حق کھا گیا ہے۔

لانگ مارچ تو ہوتا نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مل کر جدوجہد کرنے کی خبر میرے نزدیک بڑی خبر نہیں، سب کو پتہ ہے سب ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں۔