نواز شریف کو طعنہ دیا جا رہا ہے کہ وہ الطاف حسین کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کیا واقعی نواز شریف اور الطاف حسین میں کچھ مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر پائی جاتی ہیں تو کون سی اور اگر فرق ہے تو کیا۔
کچھ مماثلتوں کے باوجود نواز شریف اور الطاف حسین میں بہت فرق ہے۔ مثلاََ الطاف حسین مال بنانے کے لیے بھتہ لیتے تھے، نواز شریف نے کبھی بھتہ نہیں لیا، صرف کرپشن پر اکتفا کیا۔ الطاف حسین نے لوگوں کو مروانے کے لیے اپنے غنڈے پال رکھے تھے جبکہ نواز شریف عام لوگوں اور حاملہ عورتوں کو مارنے کے لیے پولیس کا سہارا لیتے تھے۔ الطاف حسین پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف تھے جبکہ نواز شریف صرف فوج کے خلاف ہیں اور انہوں نے ابھی تک براہ راست پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا۔ الطاف حسین کی ساری جنگ اور جدوجہد صرف اپنی ذات کے لیے تھی، جبکہ نواز شریف صرف اپنے لیے ہی نہیں اپنی بیٹی کے لیے بھی سوچتے ہیں۔ الطاف حسین غصے میں آ کر جلائو گھیرائو کرواتے اور فیکٹریوں تک کو آگ لگوا دیتے تھے جبکہ نواز شریف اپنے کارکنوں کے ذریعے نیب دفتر پر محض پتھرائو کروانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ الطاف حسین کی تباہ کاریاں صرف کراچی اور حیدر آباد تک محدود تھیں۔ نواز شریف کا اثر ورسوخ پورے پنجاب میں دکھائی دیتاہے۔ لہذا نواز شریف کو مکمل طور پر الطاف حسین سے ملا دینا تو درست نہیں، دونوں میں بہت فرق ہے۔ لیکن اس فرق کے باوجود دونوں میں بحرحال کچھ قدریں مشترک بھی دکھائی دیتی ہیں۔
مثلایہ کہ الطاف حسین بھی منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن میں جائیدادیں بناتے رہے اور نواز شریف نے بھی ایسا ہی کیا۔ الطاف حسین کا بھی بھارت اور بھارتی اداروں کے ساتھ خلوص اور محبت کا رشتہ استوار تھا، نواز شریف کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ایسے ہی تھے۔ الطاف حسین بھی لند ن میں بیٹھ کر پارٹی چلاتے رہے اور نواز شریف بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ الطاف حسین بھی لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنوں سے خطاب کرتے تھے، نواز شریف نے بھی یہی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے باعث الطاف حسین کی تقریر ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اب نواز شریف کو بھی اسی پابندی کا سامنا ہے۔ الطاف حسین کی تقریر سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے پارٹی لیڈرز کووضاحت کے لیے الٹی سیدھی دلیلیں گھڑنی پڑتی تھیں، مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو بھی ایسا ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ الطاف حسین بھی اشتہاری اور عدالتوں کو مطلوب تھے، نواز شریف بھی اشتہاری مجرم قرار دے دیے گئے ہیں۔ الطاف حسین اور نواز شریف دونوں کے روحانی والد ایک ہی تھے۔ عملی سیاست میں آنے کے بعد دونوں ہی لیڈرز اپنے بنانے والے اداروں کے خلاف ہو گئے۔ لہذا الطاف حسین اور نواز شریف میں موازنہ کرنے والے کچھ نہ کچھ دلائل تو بحرحال ڈھونڈ لائے ہیں۔
مگر ان سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے سوالات کچھ اور بھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا نواز شریف نے چند ہفتے پہلے جو مزاحمت کی نئی سطح کو چھوتی حکمت عملی اختیار کی ہے، وہ عارضی ہے یا انہوں نے اپنے لیے ایک حتمی راستہ چن لیا ہے؟ یعنی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ نواز شریف ریاستی اداروں پر دبائو بڑھا کر سمجھ رہے ہوں کہ اس سے ان کی بارگینگ پوزیشن بہتر ہو جائے گی اور وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے ان کاخیال ہو کہ اس رویہ کے ساتھ وہ مفاہمت کی میز پر بیٹھیں گے تو زیادہ باتیں منوا لیں گے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نواز شریف نے ہر طرف سے مایوس ہو کر حتمی طور پر بدلہ لینے کی ٹھان لی ہو اور سوچا ہو کہ اس طرح شاید وہ اپنا سکور برابر کر پائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہوں نے اپنی باقی کی زندگی لندن میں گزارنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہو گا۔ وجہ کچھ بھی ہونواز شریف نے بحرحال ایکسٹریم پوزیشن لے لی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی سیاسی شخصیت کا خطاب براہ راست نشر کرنے کی پابندی یا تو پہلے الطاف حسین پر لگی تھی یا اب نواز شریف پہ لگی ہے۔ نواز شریف کی حالیہ حکمت عملی نے انہیں الطاف حسین کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ ذہن میں رہے کہ ایسی حکمت عملی کی بدولت الطاف حسین پاکستانی سیاست کا ماضی بن چکے ہیں، لوگ اب انہیں صرف یاد کر سکتے ہیں، دیکھ اور سن نہیں سکتے۔ نواز شریف نے اپنی جارحانہ حکمت عملی سے شہباز شریف کو بھی ایک ایسے موڑ پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں انہیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ انہیں پاکستان میں سیاست کرنی ہے یا باقی کی زندگی لندن میں ہی گزارنی ہے۔ شہباز شریف ایسے موڑ پہ آگئے ہیں کہ جہاں یا تو وہ ڈٹ جائیں یا پھر مسلم لیگ لندن سے علیحدگی کا اعلان کر کے ایم کیو ایم پاکستان کی طرح مسلم لیگ پاکستان بنانے کا اعلان کر دیں۔ مفاہمت کا نیا سبق پڑھیں اور آگے بڑھیں۔ یہ آپشن بحرحال شہباز شریف کے پاس موجود ہے۔ لیکن یہ آپشن مریم نواز کے پاس موجود نہیں۔ مریم نواز کے لیے دہری مشکل ہے۔ وہ اپنے والد کے فلسفے سے روگردانی نہیں کر سکتیں اور اس فلسفے پہ چل کے کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتیں۔ مریم نواز پیچھے ہٹ سکتی ہیں نہ ان کے لیے آگے کا راستہ کھلا ہے۔
نواز شریف کے ساتھ اس وقت جو تھوڑی بہت حمایت باقی ہے وہ موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی کے باعث ہے۔ حکومت اگر اپنی کارکردگی کو بہتر بنا لے تو نواز شریف کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ ایسے میں انقلابی نعرے اور نظریاتی فلسفے لندن کے اپارٹمنٹس میں گم ہو کے رہ جائیں گے۔ اس موقعے پر نواز شریف کو سوچنا ہے کہ اہم نوعیت کے ریاستی راز فاش کر کے الطاف حسین بننا ہے یا ریاست کے مفاد اور ذاتی لڑائی کو الگ الگ رکھنا ہے۔