Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Agle 6 Mah Ka Siasi Manzar Nama

Agle 6 Mah Ka Siasi Manzar Nama

خبریں ہیں کہ ظہور الٰہی روڈ پر ہونے والی ایک ناکام ملاقات کے بعد بھی شہباز شریف نے ہمت نہیں ہاری اور مشترکہ دوستو ں کے ذریعے پرویز الٰہی کو تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کے بدلے پنجاب میں بڑے عہدے کی پیشکش کی ہے لیکن پرویز الٰہی نے ابھی اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا۔

سیاست ایک بے رحم کھیل کا نام ہے، دوسروں پر تو کیا اس کھیل میں جیت کی خاطر انسان اپنے اوپر بھی رحم نہیں کرتا، اپنی عزت، ناموس اور انا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ وہی شریف برادران جو کہتے تھے سب سے صلح ہو سکتی ہے چودھریوں سے نہیں ہو سکتی، آج پرویز الٰہی کو وزیر اعلی بنا کر ان کے ماتحت کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پہلے مولانا فضل الرحمن ان کے گھرگئے، پھر چودہ سال بعد شہباز شریف۔ اُس وقت تو دونوں بھائیوں نے کہہ دیا مشاورت کے بعد بتائیں گے لیکن پھر سوچ و بچار کے بعد ایک ہی رات میں اپنے صاحبزادے کے ذریعے سے جواب دے دیا۔ سوچ و بچار بھی شاید شہباز شریف کی آفر قبول کرنے یا نہ کرنے پر نہیں ہوا ہو گا بلکہ اسی بات پر ہوا ہو گا کہ انکار کرنے کا سب سے مناسب طریقہ کون سا رہے گا۔

مونس الہی کے ایک ہی بیان سے پوری کی پوری اپوزیشن کا بیانیہ اور کوششیں دھڑام سے زمین پر آ گری ہیں۔ چودھری برادران اتنے نا سمجھ تو نہیں ہو سکتے کہ بغیر کسی اشارے کے اُنہی کے جھانسے میں آ جائیں جن سے پہلے ڈسے جا چکے ہیں۔ آج تک وہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں چھوڑ کر شریف بھائیوں نے ڈیل کر لی تھی اور ملک سے بھاگ گئے تھے۔ تو آج کیا چودھری برادران دھوکہ کھانے کو تیار ہو جائیں گے؟

تحریک عدم اعتماد آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کے اتحادیوں سے پی ڈی ایم کو کوئی مثبت جواب نہیں ملا، سبھی نے یہی کہا ہے کہ "استخارہ ٹھیک نہیں آیا"۔ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی اپنے وزیر اعظم کے خلاف کیوں ووٹ کریں گے؟ اور کریں گے تو نا اہل نہیں ہو جائیں گے؟ آئین کے آرٹیکل 63A کی شق بی بڑی واضح ہے کہ اگر کوئی ممبر اسمبلی وزیر اعظم کے انتخاب، تحریک عدم اعتماد، فنانس بل اور آئینی ترمیم کے معاملے پر پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ کرے گا تو اس کی اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں اپوزیشن کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ حکومتی نمائندوں کے بجائے اتحادیوں کو ساتھ ملائے۔ مگر اتحادیوں کے جانب سے پہلے ہی صاف جواب مل چکا ہے۔

باقی رہا لانگ مارچ تو وہ ایک بے ضرر سی سرگرمی ہے جس سے حکومتیں گھر نہیں جاتیں۔ پیپلز پارٹی 27 فروری کو اپنی ایک الگ ریلی نکال رہی ہے جسے لانگ مارچ کا نام دے دیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم نہ جانے اُس ہفتے میں لانگ مارچ کیسے کرے گی جس ہفتے میں خیبر پختونخوا میں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے ہیں۔ مارچ میں کچھ نہ ہوا تواپریل رمضان میں گزر جائے گا، مئی میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہیں اور اس کے بعددوسری عید سرپہ ہو گی۔ لہذا کوئی بڑی تحریک چلتی نظر نہیں آتی۔

جہانگیر ترین کے حوالے سے بھی مختلف طرح کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنا سیاسی مستقبل ن لیگ کے آشیانے میں ڈھونڈ رہے ہیں، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے پاس جب دوسرے دس سیاسی راستے موجود ہیں، تووہ ان سب راستوں کو چھوڑ کر ن لیگ سے کیوں جا ملیں گے، جہانگیر ترین کے بارے میں دو ہی امکان سب سے قوی ہیں۔ ایک، وہ جلد یا بدیر دوبارہ پی ٹی آئی سے جا ملیں گے۔ دو، اگر ایسا نہ ہو سکا تو وہ اپنے گروپ کے ساتھ الگ پلیٹ فارم پر الیکشن لڑیں گے اور انتخابات کے بعد ممکنہ آپشنز پر غور کریں گے۔

عدالتوں میں بھی اچھی گہما گہمی چل رہی ہے۔ سولہ ارب کی منی لانڈرنگ کے الزام میں شہباز شریف پر چند روز میں فرد جرم عائد ہونے کی توقع ہے۔ نیب عدالتوں میں بھی منی لانڈرنگ، آمدن سے زائد اثاثوں، آشیانہ اور رمضان شوگر مل کے مقدمات میں ٹرائل چل رہا ہے لیکن فی الحال ان کا کسی بھی کیس میں مجرم ثابت ہونے اور جیل جانے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے بھی حکومت نے خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، پہلے شہباز شریف کو خطوط لکھے گئے اب ڈاکٹر فیاض شال کو لکھا جا رہا ہے۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں نواز شریف تو شاید واپس نہیں آئیں گے البتہ شہباز شریف پر سیاسی دبائو بڑھے گا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی کوئی بڑا اختلاف دکھائی نہیں دیتا۔ خطے کے حالات اس وقت اتنے پیچیدہ ہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے پاس چھوٹی چھوٹی آپسی باتوں میں الجھنے کا وقت ہی نہیں۔ بین الاقوامی معاملات میں دونوں طاقتیں ایک پیج پر ہیں۔ اس سارے منظر نامے پر غور کرنے کے بعد چند باتیں کافی اعتماد سے کہی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت چلتی رہے گی۔

تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی، لانگ مارچ سے حکومت گھر نہیں جائے گی، البتہ سیاست میں گرما گرمی کا فائدہ اٹھا کر اپوزیشن بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ شہباز شریف عدالتوں کا چکر کاٹتے رہیں گے، تقریبا ہر پیشی پر پیش ہوں گے، وکلا نئی تاریخوں پر اصرار کرتے رہیں گے، کبھی گواہ غیر حاضر ہوں گے، کبھی وکیل اور کبھی شریک ملزمان۔ کیس چلتے رہیں گے، تاریخیں پڑتی رہیں گی۔

نواز شریف کے قریبی ساتھی ہر تھوڑے دن بعد واپسی کا شوشہ چھوڑیں گے مگر وہ واپس نہیں آئیں گے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھے گی تو چند روز اس پر بحث ہوا کرے گی۔ معیشت پر دونوں جانب سے متضاد دعوے ہوں گے، ٹاک شوز میں رونق لگی رہے گی۔ اگلے چھ ماہ کا سیاسی منظر نامہ کچھ اسی قسم کا دکھائی دیتا ہے۔