جب کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ملازمین کو چھ مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہو گی، ان کے واجبات تین سال سے شدید متاثر ہوں گے، جب ہمارے اداروں کے پاس سفید مکھی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی نہ بچے گی، جب کپاس کی بجائے گنا اور گندم سرکار کی ترجیح بن جائے گی، تو وہی ہو گا جو ہوا ہے۔ کپاس کی پیداوار اس سال چالیس فیصد تک گر گئی ہے، ضرورت سے صرف آدھی کپاس ہم حاصل کر پائے ہیں۔ ٹیکسٹائل کو بام عروج تک پہنچانے کے دعوے کرنے والوں کو کیا اندازہ ہے کہ دھاگہ بنانے کے لیے ریکارڈ مقدار میں کاٹن امپورٹ کرنا پڑے گی؟ کیا اس کا اثرٹیکسٹائل ایکسپورٹس پہ نہیں پڑے گا؟
پچھلے کچھ ہفتوں سے ہاہاکار مچی ہے کہ پاکستان میں اس سال کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کو کپاس کی سالانہ ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے، اگرچہ ضرورت کی کپاس تو پچھلے کئی سال سے پیدا نہیں ہو رہی لیکن اس بار تو صرف 77 لاکھ گانٹھیں پیدا ہوئی ہیں، یعنی ضرورت سے آدھی۔ پچھلے سال کے مقابلے میں یہ پیداوار 40 فیصد کم ہے۔ اس کے نتائج پر تو بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے یہ دیکھ لیں اس کی وجوہات کیا ہیں۔
اس سال کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو ماحولیات میں تبدیلی ہے۔ مناسب ریسرچ نہ ہونے کے وجہ سے کپاس کو بدلتے موسموں کے ہم آہنگ نہیں بنایا جا سکا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے کپاس پر اثر انداز ہونے سے پہلے اس کا تدارک نہیں ہوسکا یابروقت جدید بریڈز متعارف نہیں کرائی گئیں جو نئے موسموں کے مطابق ہوتیں۔ دوسرا یہ کہ اس سال ہمارے تمام ادارے سفید مکھی کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ مکھی میں قوت مدافعت پیدا ہونے کے باعث ہر طرح کے سپرے بے اثر رہے۔ یعنی سفید مکھی کے خاتمے کے لیے مطلوبہ معیار کے سپرے ہمارے پاس موجود نہیں تھے۔ چوتھی وجہ سندھ میں زیادہ بارشو ں کی وجہ سے آنے والے سیلاب یا اربن فلڈ بھی تھے جن کی وجہ سے کپاس کی پیداوار متاثر ہوئی۔ پانچویں اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ کاٹن زونز میں چینی کے کارخانے لگا دیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے گنے کی مانگ بڑھ گئی ہے اور کسانوں نے کاٹن زونز میں گنا اگانا شروع کر دیا ہے۔ کسانوں کو لگتا ہے وہ کپاس اگانے کا رسک کیوں لیں جس پر سفیدمکھی حملہ کر دے تو نقصان، پتہ مروڑ وائرس حملہ کر دے تو نقصان، اگر فصل ہو بھی جائے تو مناسب قیمت نہیں ملتی۔ تو کیوں نہ وہ محفوظ فصل کی طرف جائیں اور گنا اگائیں۔ حکومتی پالیسی کا اس میں بڑا دخل ہے۔ حکومت گندم اور گنے کی قیمت تو مقرر کرتی ہے لیکن کپاس کی کم سے کم قیمت مقرر نہیں کرتی۔ کسانوں کو اپنی فصل عالمی منڈی سے کم قیمت میں فروخت کرنا پڑتی ہے، نتیجے میں کسان کے لیے کپاس اگانے میں دلچسپی باقی نہیں رہتی۔ یہی اس سال بھی ہوا ہے۔
ایک دکھڑا اور بھی سن لیں۔ پاکستان میں دو کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹس کام کر رہے ہیں۔ ایک ملتان میں، دوسرا سکرنڈ، سندھ میں۔ ان انسٹیٹیوٹس میں مجموعی طور پر 600 سائنسدان اور ملازمین کام کرتے ہیں۔ ریسرچ کے یہ ادارے پاکستان فیڈرل کاٹن کمیٹی کے ماتحت کام کرتے ہیں اور یہ کمیٹی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے تحت کام کرتی ہے جس کی سربراہی فخر امام بطورر وزیر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ریسرچ انسٹیٹیوٹس کے 600 ملازمین کو چھ ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں نہ ہی ریٹائرڈ ملازمین، جن کی تعداد حاضر سروس ملازمین سے کہیں زیادہ ہے، کو پینشنز ادا کی جارہی ہیں۔ پاکستان فیڈرل کاٹن کمیٹی کا اپٹما کے ساتھ ایک معاہدہ طے ہے جس کے تحت اپٹما نے کپاس کی فی گانٹھ کے حساب سے پچاس روپے حکومت کو ادائیگی کرنا ہوتی ہے، بدقسمتی سے کئی سال سے اپٹما کی جانب سے یہ ادائیگی نہیں کی گئی اور معاملہ عدالت میں پڑا ہے۔ جس سے ادارے کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے سال جنوری میں ان ریسرچ انسٹیٹیوس کی بحالی کے لیے2 ارب روپے سالانہ ادا کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا اور اس مد میں ایک روپیہ بھی ادارے کو نہ ملا۔
اب آپ سوچیے جس ادارے کے ملازمین کو چھ مہینے سے تنخواہ نہ ملی ہو وہ خاک ریسرچ کریں گے؟ ان کا مورال کیا ہو گا؟ کیا ان سے کوئی تخلیقی کام کرایا جا سکتا ہے؟ کیا ان سے پوچھا جا سکتاہے کہ سالوں سے روٹیاں توڑنے والے سائنسدان کاٹن پہ ریسرچ کر کے نئی بریڈز پر کام کیوں نہ کر سکے؟ وہ کیوں ماحول دوست کاٹن متعارف نہ کرا سکے اور کیوں وہ سفید مکھی کو قابو نہ کر سکے۔ جس ادارے کے ملازمین کا مورال زمین پر پڑا ہو وہ کپاس کی پیداوار میں بہتری کیسے لائیں گے۔
پچھلے دنوں میں نے کنو ؤں کی بدحالی کا رونا رویا تھا وہ بھی ایسے ہی ریسرچ نہ ہونے کے باعث تباہی کے قریب ہیں۔ اے گریڈ کنو کی پیداوار 30 فیصد پر آ گئی ہے اور ایکسپورٹس بھی گرتے گرتے اس نہج پر ہیں کہ آئیندہ چند سال میں ختم ہو سکتی ہیں۔ کنوئوں کی نئی اقسام پہ کام نہیں ہوا اور اب کاٹن کا بھی یہی حال ہے۔ کاٹن کی کم پیداوارکا براہ راست اثر ٹیکسٹائل انڈسٹری پہ پڑے گا، دھاگہ بنانے کے لیے کپاس باہر سے منگوانی پڑے گی، پاکستان کی امپورٹس بڑھ جائیں گی۔ کپڑے کی لاگت میں اضافہ ہوگا، عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ نتیجے میں ایکسپورٹس بھی متاثر ہو سکتی ہیں اور اس کا براہ راست اثر پاکستان کی معیشت پر پڑے گا۔
حکومت کو فورا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے ہنگامی بنیادوں پہ حکمت عملی تیار کرنا ہو گی تا کہ آنے والے دور کے چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔ اور ہاں سب سے پہلے اُن ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا ہوں گی جو پہلے سے ریسرچ انسٹیٹیوٹس میں کام کر رہے ہیں۔