بلاول کے بیان کے بعد پی ڈی ایم کا وزن کمزور پڑگیا۔ واضح ہو گیا پیپلز پارٹی نا صرف نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ نہیں ہے بلکہ انہیں پی ڈی ایم کے جلسوں میں نواز شریف کی تقریروں پر شدید تشویش بھی ہے۔ حافظ حسین احمد نے جمعیت علمائے اسلام میں رہتے ہوئے نواز شریف کے لیے جو الفاظ استعمال کیے اس سے کسی حد تک ان کی جماعت کا نکتۂ نظر بھی واضح ہوا ہے، قیاس ہے مولانا فضل الرحمن بھی جلد اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے نواز شریف کے بیانیے سے لا تعلقی کا اظہار کر دیں گے کیونکہ یہ موجودہ حالات میں ان کی سیاسی مجبوری بھی ہے اور ان کے وسیع سیاسی تجربے کا سبق بھی۔ وہ جانتے ہیں ایسے بیانیے کے ساتھ سیاست کرنا عملاََ ممکن نہیں، کریں گے بھی تو حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔ خود مسلم لیگ ن کے مختلف حلقوں میں بے چینی کا کھلم کھلا اظہار نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی مستقبل پر کئی نشان لگا رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کی تحریک پر چند دن پہلے تک یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ یہ نتیجہ خیز ہو پائے گی یا نہیں، بحث کا موضوع یہ تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کو گرا پائے گی یا نہیں، سوال ہو رہا تھا یہ تحریک حکومت پر کتنا دبائو ڈال پائے گی۔ اور اب چند دن کے بعد بحث یہ ہو رہی ہے کہ پی ڈی ایم باقی بچی ہے یا نہیں؟ سوال ہو رہا ہے کہ کیا 30 نومبر کو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر ہونے والا جلسہ اب بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو گا؟ سوال اٹھ رہا ہے کہ13 دسمبرکو لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں کیا بلاول شرکت کریں گے؟ جس تحریک کی بقا کے بارے میں ابتداء میں ہی سوال اٹھنے لگیں اس کے نتیجہ خیز ہونے کے کیا امکانات رہ جاتے ہیں؟
اپنے مخصوص بیانیے کی وجہ سے ن لیگ تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم یا مستقبل کے کسی بھی اتحاد میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے لیے ن لیگ کو جگہ دینا مشکل ہو جائے گا۔ بلاول کا شکوہ بجا ہے کہ نواز شریف نے انہیں اعتماد میں لیے بغیر مخصوص بیانیہ اختیار کر لیا۔ پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں میں یہ احساس ضرور موجود ہو گا کہ نواز شریف نے اتحاد کی طاقت کو اپنے ذاتی فائدے اور ایجنڈے کے لیے استعمال کیا۔ مولانا فضل الرحمن تنہائی میں بیٹھ کر سوچتے تو ہوں گے کہ وہ انجانے میں کسی کے لیے استعمال ہو گئے، نواز شریف نے مولانا کو آگے کر کے تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور پھر ان تمام جماعتوں کی طاقت کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر لیا۔ تمام جماعتوں کی قیادت اپنے اپنے طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا وہ کسی اور کے لیے استعمال ہونے کو تیار ہے؟
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنا اپوزیشن کی جماعتوں کے اپنے سیاسی مفاد میں بھی نہیں۔ اس کا احساس پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو گلگت بلتستان کے الیکشن میں ضرور ہوا ہو گا۔ گلگت بلتستان کی مہم کے دوران وہ ووٹ جو بلاول نے ن لیگ کی مخالفت میں دلائل دے کر لینے تھے وہ اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ گلگت میں گذشتہ حکومت ن لیگ کی رہی ہے، لیکن بلاول ان کی کارکردگی پر تنقید نہیں کر سکے۔ انہیں صرف مستقبل کے وعدوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے۔ اتحاد میں ہونے کی وجہ سے وہ ن لیگ کی پرفارمنس کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے جلسوں کو زور دار نہیں بنا پا رہے۔ یہی مشکل مریم نوازکو بھی درپیش ہے، وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی کو گلگت میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو انہیں سیاسی طورپر زیادہ فائدہ نہیں دے گی، حالانکہ انہیں گلگت بلتستان میں اپنی کارکردگی کا موازنہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی سے کرکے فائدہ اٹھانا تھا کیونکہ وہاں پچھلی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔ یہی مشکل تب بھی پیش آئے گی جب کچھ مہینوں بعد بلدیاتی انتخابات کا بگل بجے گا۔ اس کے بعد عام انتخابات کا کائونٹ ڈائون شروع ہو جائے گا، جب تمام جماعتیں ایک اتحاد کے نشان سے الیکشن نہیں لڑ سکتیں تو ایک اتحاد میں رہتے ہوئے انتخابی مہم کیسے چلا سکتی ہیں۔ لہذا یوں بھی پی ڈی ایم کی گاڑی چلتی نظرنہیں آتی۔
نواز شریف کی دو تقریروں کے بعد بہت سے لوگوں کا سوال تھا کہ راولپنڈی اور اس کے اطراف میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ نواز شریف کی باتوں کا جواب کیوں نہیں دیا گیا؟ اب واضح ہوا ہے کہ جواب دے دیا گیا ہے۔ جواب بلاول نے دیا ہے، جنرل عبدالقادر بلوچ نے دیا ہے، جواب حافظ حسین احمد نے دیا ہے، خبریں ہیں کہ آئندہ چند دن میں ایسے ہی کچھ اور جواب بھی آنے والے ہیں جس سے مستقبل کی راہیں متعین ہو ں گی اور نواز شریف تنہا کھڑے دکھائی دیں گے۔ مسلم لیگ ن کو یہ خطرہ محسوس کرنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں کہیں ایسا نہ ہو نواز شریف اپنے کارکنوں سے ایسا خطاب کریں اور اس کا کوئی امپیکٹ نہ ہو، جیسے الطاف حسین کے ساتھ ہوا۔ نواز شریف کو بھی یہ خطرہ محسوس کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کچھ عرصے بعد وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو انہیں اپنی بیٹی مریم، کیپٹن صفدر اور تنظیم ساز طلال چودھری کے سواکوئی دکھائی ہی نہ دے۔ نواز شریف کی تقریر ٹیلی ویژن پر نشر کرنے پر پہلے ہی پابندی ہے۔ کچھ عرصے بعد اگر ان کی پارٹی ان کے لیے جلسے منعقد کرنے پر ہی آمادہ نہ ہوئی تو اپنے خیالات کا اظہار وہ کس پلیٹ فارم پر کریں گے؟
نواز شریف اور مریم کو غور کرنا چاہیے کہ وہ تیزی سے سیاسی تنہائی کی طرف بڑھ رہے ہیں، پہلے پی ڈی ایم کی جماعتیں ان کاساتھ چھوڑنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں تو اسکے بعد ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بے چینی کا شکار ہیں۔ یہ تو اب طے ہے کہ بلاول کسی ایسے جلسے میں موجود ہی نہیں ہوں گے جس میں نوا ز شریف تقریر کریں گے، ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی واش روم جانے کے بہانے آدھے گھنٹے کے لیے اسٹیج سے غائب ہونے لگے تو کیا ہو گا؟