پی ڈی ایم نے بغیر بتائے اپنے اہداف تبدیل کر لیے۔ جنوری 2021ء تک حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے کرنے والی پی ڈی ایم میں اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اہداف، نعرے، وعدے، حکمت عملی اور اتحاد کا ڈھانچہ، کچھ بھی ایک سال پہلے جیسا نہیں رہا۔ حکومت کو گھر بھیجنے کا دعویٰ اب سنائی نہیں دیتا، پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے نکل چکی، گرجتی برستی مریم نواز پیچھے دھکیل دی گئی ہیں، نواز شریف کی فوج مخالف تقریریں دم توڑ گئی ہیں اور 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کا ذکر اب پی ڈی ایم کے ہاں کم کم ملتاہے۔
ان سب کی بجائے اب پی ڈی ایم رہنمائوں کی زبان پر اس طرح کی باتیں ہیں:الیکٹرونک ووٹنگ مشین قابل قبول نہیں، انتخابی اصلاحات کو نہیں مانتے، اس حکومت کے ساتھ مزاکرات نہیں ہو سکتے، حکومت کے خلاف جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ ملک بھر میں تحریک چلائی جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔
کچھ جملے پی ڈی ایم نے سدا بہارجملوں کے طور پر رکھے ہوئے ہیں جنہیں وہ ہمیشہ دہراتے رہتے ہیں۔ مثلا معیشت تباہ ہو گئی ہے، حکومت ناکام ہو گئی ہے، ملک میں تبدیلی نہیں آ سکی، پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ پورا نہیں ہوا، عوام کو نوکریاں نہیں ملیں، وغیرہ وغیرہ۔
کچھ ہی عرصے میں نئے چئیرمین نیب کا تقرر اور الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی نامزدگی بھی پی ڈی ایم کے موضوعات میں شامل ہو جائے گی۔ پھر سربراہی اجلاس اور سٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا جائے گا کہ وہ حکومت کے جانب سے د یے گئے ناموں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ سب اگلے انتخابات میں دھاندلی کے لیے کیا جا رہا ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اب خود بھی اس بات کا یقین ہے کہ حکومت مقررہ وقت سے پہلے گھر نہیں جانے والی۔ اب ان کی حکمت عملی جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے اور عوام کو یہ احساس دلانے کی ہے کہ ہم اب بھی میدان میں ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کیا پھر پی ڈی ایم حکومت سے زیادہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو بھی پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہم تمہارے بغیر بھی بڑے جلسے کر سکتے ہیں۔
اب کراچی میں پی ڈی ایم کا جلسہ کیا ہو گا۔ ن لیگ کے کراچی اور سندھ میں جتنے کارکن ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فضل الرحمن بھی کراچی میں ایسی سپورٹ نہیں رکھتے، لہذا 29 اگست کو ہونے والے جلسے میں پھر سے مدرسے کے طالب علموں کو لا کر گزارا کرنا پڑے گا۔
2013 سے 2018 کے دوران تحریک انصاف کی بطور اپوزیشن حکمت عملی بھی پی ڈی ایم کے سامنے ہے۔ ہو سکتا ہے اسی کامیاب ماڈل کو اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ 2014 کے دھرنے میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف نے جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رکھا، عمران خان اپنے کارکنوں سے جوشیلا خطاب کر کے انہیں متحرک رکھتے۔ آہستہ آہستہ عمران خان نے دھاندلی کے الزامات کا ذکر نسبتا کم کر دیا اور حکومت کے خلاف کرپشن کا بیانیہ اپنایا۔ عمران خان کا یہ فارمولا کامیاب رہا اور عوام نے تبدیلی کے لیے 2018 میں انہیں ووٹ دیا۔ اب پی ڈی ایم بھی اسی فارمولے پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا پہلا اور طاقت ور مرحلہ ناکام ہو جانے کے بعد اب دھاندلی کا موقف چھوڑ کر کارکردگی کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے اور اسی سلسلے میں جلسے جلوس منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے کہ کارکن متحرک رہیں اور اگلے انتخابات کے لیے تیاری کی جاسکے۔ یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام لیکن فی الوقت جلسوں میں مطلوبہ عوامی حمایت نظر نہیں آتی۔
اس وقت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مخالفت زور و شور سے جاری ہے۔ بغیر دیکھے اور پرکھے مشین کو رد کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مذکورہ مشین کی خامیاں اور کمزوریاں بھی بیان نہیں کی گئیں۔ ایسا کرنے سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ اپوزیشن دھاندلی کا راستہ بند ہو جانے سے پریشان ہے۔ اس تاثر کو دور کرنے کے لیے مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو پوری جانچ پرکھ کے بعد دلائل سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی خامیوں کی جانب نشاندہی کرنی چاہیے تاکہ ان کمزوریوں کو دور کیا جا سکے اور الزام اپوزیشن جماعتوں پر نہ آئے۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی پریشانی صرف ووٹنگ مشین ہی نہیں ہے بلکہ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کے اجلاس میں آئندہ چئیرمین نیب، الیکشن کمیشن کے دو ممبران کا تقرر اور اس ضمن میں معاملات کو کنٹرول میں رکھنے کے موضوعات پر بھی شدومد سے گفتگو ہو رہی ہے۔
ایک سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں دوبارہ شمولیت کا امکان ہے یا نہیں۔ میری رائے میں یوں تو اس کا امکان کم ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پی ڈی ایم میں ن لیگ کی نمائندگی اب مریم نواز نہیں، شہباز شریف کر رہے ہیں۔ شہباز شریف اور پیپلز پارٹی اداروں کے ساتھ تعلقات اور حکومت کو گھر نہ بھیجنے کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ دونوں ہی مقتدر حلقوں سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں اوردونوں ہی حکومت کو گھر بھیجنے کے حق میں نہیں۔ لہذا ان اصولوں پر پی ڈی ایم کو چلایا جائے تو پیپلز پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دوسرا عمران خان کے سندھ میں متحرک ہو جانے کے بعد پیپلز پارٹی پر سیاسی دبائو ہو سکتا ہے۔ سندھ سے عمران خان کے جمتے قدم اکھاڑنے کے لیے پیپلز پارٹی دوبارہ پی ڈی ایم کا رخ کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے حوالے سے یہ صرف امکانات ہیں، ابھی حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن بحرحال پی ڈی ایم کے حوالے سے یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کمپنی چلنے والی نہیں۔