سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی جیت وزیراعظم کے لیے معمولی دھچکہ نہیں۔ جب سے یہ حکومت وجود میں آئی ہے، پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے قریبی وزرا کے لیے اپنی جھنجھلا ہٹ چھپانا مشکل ہو رہا ہے۔
حقیقتاً، وزیراعظم کا ازسرنو اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ بھی اسی اندرونی اضطراب کا غماز ہے۔ آئینی طور پر انھیں اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ آئین کے جس آرٹیکل 91(7) کے تحت صدر مملکت نے 6 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا، اس میں صراحت سے درج ہے کہ اس طرح کا اجلاس اسی صورت میں طلب کیا جائے گا، جب صدر مملکت کی (اپنے آئینی ذرایع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں) واضح طور پر یہ رائے ہو گی کہ وزیراعظم اسمبلی ارکان کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی، نہ تو صدر کی یہ رائے تھی اور نہ اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک اعتماد پیش کی تھی۔ یاد رہے کہ 18 ترمیم سے قبل وزیراعظم کے لیے منتخب ہونے کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا لازمی تھا اور وہ بھی30 دن کے اندر اندر، مگر اب یہ پابندی نہیں ہے۔ اس آئینی تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا وزیراعظم کا حالیہ فیصلہ محض سینیٹ الیکشن میں حکومتی امیدوار کی غیرمتوقع شکست سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نکلنے کی ایک حکمت عملی تھی۔ جو اس حد تک ضرور کامیاب رہی ہے کہ حکومت وقتی طور پر دباؤ سے نکل آئی ہے۔
اس صورت حال کا دوسرا پہلو بھی ہے، وزیراعظم نے 178 ووٹ لے کر ا پوزیشن پر 6 ووٹوں کی عددی برتری تو ثابت کر دی، لیکن یہ حقیقت بھی سامنے آ گئی کہ ان کی حکومت آج بھی اتحادیوں کے سہارے قائم ہے۔ اب یہ کوئی ریاضی کا پیچیدہ مسئلہ نہیں کہ کوئی سمجھ نہ سکتا ہو کہ گزشتہ دو سال میں مایوس کن کارکردگی کے باوجود یہ سہارا حکومت کے نیچے سے سرک کیوں نہیں رہا، حالانکہ اتحادی جماعتوں میں سے کوئی جماعت بھی وزیراعظم سے خوش نہیں۔ وزیراعظم نے بھی ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ ان کو نہیں، بلکہ اتحادی جماعتوں کو ان کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم اس حد تک بے نیاز رہے ہیں کہ اتحادی جماعتوں سے انھوں نے جو زبانی یا تحریری معاہدے کیے، ان پر عمل درآمد کی ضرورت بھی محسوس نہ کی، بلکہ پہلے دو سال میں تو اتحادی قائدین کی خیرخیریت بھی دریافت نہ کی۔ مگر وہی اتحادی جماعتیں ہیں، آج جن کا شکریہ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سب سے پہلے کیا ا ور بار بارکیا، اب معلوم نہیں کہ انھوں نے یہ مصلحتاً کیا، یا واقعی انھیں اتحادیوں کی قدروقیمت کا احساس ہوا ہے۔
یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ انھی ارکان نے، جنھوں نے وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ سے نوازا، صرف تین روز پیشتر وزیراعظم کے سینیٹ کے امیدوار کو مستردکر چکے تھے۔ اس پر وزیراعظم نے باقاعدہ قوم سے خطاب کرکے کہا کہ ان کی جماعت کے جن ارکان نے ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، انھوں نے اپنے آپ کو بیچا ہے۔ تاہم ان منحرف ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
بلکہ لطف یہ ہے کہ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو تو قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر یہ مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن اگر خفیہ ایجنسیوں سے بریفنگ لے تو ان پر منکشف ہو کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں کس طرح پیسہ چلا ہے، لیکن یہاں وزیراعظم کے اس مشورہ کی روشنی میں ان سے بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب ان کے علم میں یہ بات آ چکی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا ہے اور خریدوفروخت ہوئی ہے تو ان ثبوتوں کے ساتھ انھوں نے ان ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیوں نہیں کیا، ان کو بے نقاب کرنے کے بجائے انھی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو ترجیح کیوں دی۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں انھوں نے اپنے منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کی تھی، بڑی اچھی بات ہے، مگر اب کیا امر مانع تھا، اب وہ سارا ملبہ الیکشن کمیشن پر کیوں ڈال رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی آدھی مدت گزر گئی، مگر تمام تر دعوؤں کے برعکس عوام کو کوئی ریلیف مہیا نہیں کر سکی۔ مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ احتساب خالی نعرہ ثابت ہوا ہے۔ ضمنی الیکشن میں حکومتی امیدواروں کی کامیابی یقینی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ ضمنی الیکشن میں حکومتی امیدوار شکست کھا گئے۔
ڈسکہ کے الیکشن میں حکومتی امیدوار اور کارکنوں کی حواس باختگی کی وجہ سے جو کچھ ہوا، اس کے نتیجے میں اس حلقہ کا الیکشن کالعدم ہو چکا ہے۔ وزیراعظم پر اظہار اعتماد کے روز، پارلیمنٹ کے عین سامنے حکومتی جماعت کے کارکنوں نے حکومت مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کو جس طرح زدوکوب کیا، برا بھلا کیا، ان پر جوتے اچھالے، ان مناظر نے ان طبقہ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے، جو اب تک موجودہ حکومت کو ماضی کی حکومتوں سے مختلف سمجھ رہے تھے۔
وزیراعظم کی الیکشن کمیشن پر تنقید میں بھی کوئی وزن نہیں ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے تحت کرایا ہے، تو یہ آئین کا وضع کردہ طریقہ کار ہے۔ حکومت کے اپنے ارکان کے اختلاف کی وجہ سے حکومتی امیدوار کو شکست ہو گئی ہے، تو اس میں الیکشن کمیشن کا قصور کیا ہے۔
قبل ازیں ڈسکہ الیکشن میں جس جرات مندی سے الیکشن کمیشن نے انتخابی بے قاعدگیوں کا نوٹس لیا اور الیکشن کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ غیر ذمے داری اور غفلت کے مرتکب سرکاری عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کی، اس پر بھی بجائے اس کے کہ حکومت الیکشن کمیشن کو شاباش دیتی اور ازسرنو اپنے امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارنے سے خائف نہ ہوتی، حکومت اس فیصلہ کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ پہنچ گئی۔
حالانکہ یہی الیکشن کمیشن ہے، جس میں حکومت کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس پچھلے کئی سال سے زیر التوا ہے، جو حقیقتاً حکومت کے لیے بہت بڑا ریلیف ہے۔ اس کیس کو زیرالتوا رکھنے پر متحدہ اپوزیشن الیکشن کمیشن کے باہر باقاعدہ احتجاج کرچکی ہے۔ یاد رہے کہ اس کیس میں بھی حکومتی پارٹی کے ایک اپنے ہی سابقہ رکن مدعی ہیں اور انصاف مانگ رہے ہیں۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن کے خلاف حکومت کی موجودہ مہم میں کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حالیہ ضمنی انتخاب اور سینیٹ میں وزیرخزانہ، کی شکست سے حکومت کوئی سبق حاصل کرتی مگر اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بھی وزیراعظم نے جو تقریر کی، اس میں انھوں نے ساری ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال دی۔ جب کہ الیکشن کمیشن نے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کرکے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ حکومت کی پسند وناپسند کی نہیں، صرف آئین پاکستان کی پابند ہے، اور آئین سے ہٹ کر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس پریس ریلیز کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے خلاف حالیہ حکومتی مہم کے پیچھے کچھ اور مقاصد بھی ہیں، زیادہ دنوں تک ان پر پردہ نہیں پڑا رہے گا، مگر حالیہ دنوں کا یہ پیغام تو واضح ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد حکومت کے لیے اب سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا ہے ؎
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام ِ نہنگ