الطاف حسن قریشی صاحب پاکستان کی جدیداردو صحافت کے اس لحاظ سے جد امجد ہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں یہاں جو کوئی بھی صاحب اسلوب صحافی ابھرا اور اس نے نام پیدا کیا، اس کی صحافت کا شجرہ نسب کہیں نہ کہیں جا کر ’الطاف حسن قریشی صاحب کی صحافت سے مل جا تا ہے۔
ان کے اردو جرائد نے ایک زمانہ میں صحافت ہی نہیں، سیاست میں بھی بھونچال برپا کیے رکھا۔ الطاف صاحب زندگی کی ستاسی بہاریں دیکھ چکے ہیں، لیکن آج بھی جوانوں، بلکہ نوجوانوں کے جیسے جوش، جذبہ اور ولولہ کے ساتھ پرورش ِ لوح وقلم کر رہے ہیں۔ آج ا س کالم کا محرک ان کے تاریخی اور جیتے جاگتے مصاحبوں کا مجموعہ "ملاقاتیں کیا کیا " ہے۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، جنرل ضیاالحق، مولانا مودودی، چوہدری محمد علی، اصغر خان، شاہ فیصل شہید، جسٹس اے آر کارنیلئس، قدرت اللہ شہاب سمیت وہ سب مصاحبے شامل ہیں، جو اردو مصاحبہ نگاری میں ان کی پہچان اور اردو صحافت میں کلاسیک کا درجہ پا چکے ہیں۔
الطاف حسن قریشی صاحب کی اردو صحافت کا تذکرہ میں نے پہلی بار اسکول کے زمانے میں اپنے ٹیچر سہیل انور سید صاحب مرحوم کی زبانی سنا۔ وہ مولانا مودودی کے متاثرین میں سے تھے۔ صحافت میں الطاف صاحب سے بالواسطہ وابستگی اس وقت قائم ہوئی کہ جب میں بحیثیت معاون مدیر ’ زندگی، کی مجلس ادارت کا رکن چن لیاگیا۔ کچھ عرصہ اس کا ایگزیکٹو ایڈیٹر رہا اور اداریہ لکھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
یہ " زندگی" کا دور ثانی تھا، جب بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں اس نے پھر سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اسی دور میں الطاف صاحب سے ملنے اور انھیں براہ راست سننے کا موقع ملا۔ بعد میں ان کے علمی و تحقیقی ادارہ " پائنا" میں بھی ان کے ساتھ نشستیں رہیں، اب قرب رہایش کی وجہ سے بھی ان سے وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ان کی تحریر کی طرح ان کی گفتگو کا اسلوب بھی جداگانہ ہے۔
الطاف حسن قریشی صاحب کی اردوصحافت ایک ایسے دور میں پلی بڑھی اور جوان ہوئی، جب پاکستان میں ہر سطح پر نظریاتی کشمکش برپا تھی۔ دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات کے پیرائیہ میں بہت کچھ کہا جا رہا اور لکھا جا رہا تھا۔ ایک طرف ’ایشیا سرخ ہے، جب کہ۔ دوسری طرف ’ایشیا سبز ہے، کا نعرہ گونج رہا تھا۔ الطاف صاحب جوان دنوں آتش جواں تھے، دائیں بازو کے جماعتی کیمپ میں تھے، بلکہ اس کے ہراول دستہ کی کمان کر رہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جماعت کے ملک نصراللہ خان عزیز کی انگیخت پر ہی انھوں نے صحافت میں قدم رکھا تھا۔ قدرتی طور پر ان کی زیادہ پذیرائی بھی جماعتی حلقوں میں ہوئی۔ الطاف صاحب کی ابتدائی شہرت کی وجہ ان کی مصاحبہ نگاری تھی۔ ان کے مصاحبے روکھے پھیکے اخباری مصاحبے نہ ہوتے تھے، بلکہ ان میں اعلیٰ ادبی چاشنی ہوتی تھی۔ ان کا کہنا تھا، " جب آپ کسی کا انٹرویو ریکارڈ کرتے ہیں تو وہ زیادہ کھل کر اور اندر کی بات نہیں کرتا۔ میں چاہتا تھا کہ جس کا میں انٹرویو کر رہا ہوں، وہ اپنے دل کی بات مجھ سے کرے۔ ریکارڈنگ نہ کرنے کا یہ نسخہ بہت کارگر ثابت ہوتا تھا۔
ویسے بھی جب کسی کی بات پوری توجہ سے سن رہے ہوتے ہیں تو جو بات بہت اہم یا چونکا دینے والی ہوتی ہے، وہ بغیر لکھے ہوئے بھی یاد رہتی ہے۔" اگرچہ اس کا نقصان بھی ہوا کہ محض حافظہ کے زور پر اس طرح لکھنے سے لکھنے والے کا اسلوب انٹرویو دینے والی شخصیت کے اسلوب پر اس طرح حاوی ہو جاتا ہے اور بطور تاریخی حوالہ انٹرویو کی حیثیت کو متنازعہ ہو جاتی ہے۔
باوجود اس کے، 60 ء اور 70 ء کی دہائی میں الطاف صاحب کے بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور جنرل ضیاالحق کے مصاحبوں نے سیاست اور صحافت میں دھوم مچا دی تھی۔ کہا جاتا ہے، بھٹو صاحب کو ان کے ساتھ اپنے مصاحبہ کے نتیجہ میں ہی وزارت خارجہ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جنرل ضیاالحق کا مصاحبہ جس میں انھوں نے 5 جولائی 1977 ء کے آپریشن فیئر پلے کی سنسنی خیز تفصیلات بیان کیں، الطاف صاحب نے کچھ ایسے انداز میں لکھا کہ اس پر کسی اعلی پایہ کے ناولٹ کا گمان گزرتا ہے۔ یہ مصاحبہ بعد میں الگ سے پمفلٹ کی صورت میں بھی لاکھوں کی تعداد میں شایع ہوا اور پڑھا گیا۔
الطاف حسن قریشی صاحب کی تجزیہ نگاری نے بھی اپنی الگ پہچان پیدا کی، بلکہ ان کے بعض تجزیوں کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے، جیسے "محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے"۔ یہ پاکستان کے دولخت ہونے سے کچھ پہلے مشرقی پاکستان کے بارے میں ان کا رپورتاژ تھا۔ ان کا اندازہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں ’ سب اچھا ہے، اور الیکشن میں اسلام پسند قوتوں یعنی جماعت اور مسلم لیگ کو یہاں سے حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوگی۔ ان کا تجزیہ " ہم کہاں کھڑے ہیں " عرصہ درازسے چھپ رہا اور اپنی چھب دکھا رہا ہے۔ اگرچہ تجزیہ کرتے وقت وہ بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی پسند و ناپسند کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسے 16 دسمبرکو منکشف ہوا کہ ان کے اندازوں کے برعکس مشرقی پاکستان میں حالات وواقعات کا دھارا کسی اور ہی سمت بہہ رہا تھا۔ مغربی پاکستان میں بھی ان کے اندازوں کے برخلاف جماعت صرف چار ہی نشستیں حاصل کر سکی۔
تاہم سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب یہاں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو الطاف صاحب نے اپنے سیاسی موقف سے سرمو انحراف نہ کیا۔ اس کی پاداش میں ان کے جرائد بند ہوئے، ان پر جعلی مقدمات قائم ہوئے، ان کو اور ان کے رفقائے کار کو جیلوں میں ڈالا گیا، مگر انھوں نے کلمہ ء حق کہنے سے منہ موڑا، نہ سر جھکایا؛ یوں بے خوف صحافت کی وہ روشن روایت، جس کے امین کسی زمانے میں مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، شورش کاشمیری جیسے جید اور سربرآوردہ صحافی تھے، الطاف صاحب نے بھی اس روایت کی پاسداری کی۔ مصاحبہ اور تجزیہ نگاری کی طرح اداریہ نگاری کو بھی الطاف صاحب نے اپنے پراثر اسلوب سے ایسی شان وشوکت عطا کردی کہ ان سے پہلے کوئی اس طرح کا سیاسی اداریہ نہیں لکھ سکا۔ ایوب خان دور کے ان کے منتخب اداریوں کے مجموعہ " نوک زباں " شایع ہوا توکسی ادبی شہ پارہ کی طرح اس کی پذیرائی ہوئی۔ جس کی کم از کم اردو صحافت میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو الطاف حسن قریشی صاحب کی شخصیت میں ایسی دلکشی اور دلربائی ہے اور ان کی صحافت میں ایسی آن بان اور شان ہے کہ ان کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے ان کا کسی اور سے صحافی سے موازنہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی اور جب تک پاکستان کی اردو صحافت زندہ ہے اور رنگ بکھیررہی ہے، الطاف صاحب کا نام اور کام بھی زندہ رہے گا اور روشنی بکھیرتا رہے گا۔ ہماری بھی خوش نصیبی ہے کہ ہم’ عہد الطاف حسن قریشی میں صحافت سے وابستہ ہیں، بلکہ ان کے قلم قبیلہ سے بھی ایک گونا نسبت رکھتے ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب کسی زمانے میں باقاعدہ مشق سخن بھی کرتے رہے ہیں، ان کا ایک شعر، جو ان کے حسب حال بھی ہے، یہاں یاد آ رہا ہے،
ہمیں تو عشق نے الطافؔ لازوال کیا
حدود مرگ سے آگے نگر بسائے ہیں