عمران حکومت کے خلاف نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن کا متحدہ محاذ وجود میں آچکا ہے۔ جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کو تفویض ہوئی ہے۔
اگرچہ پارلیمنٹ میں جے یو آئی کے علاوہ ان کی نمایندگی ان کے فرزند اسد الرحمٰن کی شکل میں بھی موجود ہے، مگر اس بار یعنی 2018ء میں وہ بنفس نفیس پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ایسا ان کو اپنی طویل اور مسلسل سیاسی اننگ میں، جو لگ بھگ 40 برس پر پھیلی ہوئی ہے، پہلی بار سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم جب سے عمران خان حکومت وجود میں آئی ہے، مولانا فضل الرحمٰن اس کے لیے مسلسل چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
پہلے انھوں نے دارالحکومت ایک بھرپور دھرنا دیا، پھر حزب اختلاف کو متحد کرنے میں جُت گئے۔ آخر کار اس میں کامیاب ہوئے، بلکہ اب تو باضابطہ طور پر اس اتحاد کے متفقہ قائد قرار پا چکے ہیں۔ 1977ء میں قومی اتحاد کے بعد یہ دوسری بار ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کو ایک بھرپور سیاسی اتحاد کی سیادت سونپی گئی ہے۔
پہلی بار یہ ان کے والد مفتی محمود تھے، جن کا شمار جمعیت علمائے اسلام کے اولین قائدین میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے قیام کے اولین محرک مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ تھے۔ تحریک پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، قائداعظم کے دست راست تھے۔
ان کی خواہش تھی کہ جمعیت علماے ہند سے وابستہ پاکستانی قائدین اور کارکن ماضی سے باہر نکلیں اور از سرنو اپنے سیاسی سفر کا آغاز کریں۔ مولانا حسین احمد مدنی ؒ، جن کی سیاسی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا، وہ بھی پاکستان بننے کے بعد بہت واضح لفظوں میں کہہ چکے تھے کہ "مسجد جب تک نہ بنے، اختلافات کیا جا سکتا ہے، لیکن جب وہ بن گئی تو وہ مسجد ہے۔" مولانا مفتی محمود اس زمانہ میں عیسیٰ خیل میانوالی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔
چنانچہ ان راہ نما خطوط پر دسمبر1952ء میں جمعیت علمائے اسلام کی تنظیم نو ہوئی، تو مولانا مفتی محمود بھی اس میں شامل تھے۔ مولانا احمد علی لاہوری صدر اور مولانا احتشام الحق تھانوی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
1953ء تحریک ختم نبوت میں جمعیت علمائے اسلام نے بھرپور حصہ لیا، بلکہ حقیقتاً اسی تحریک نے سیاسی طور پر جمعیت علمائے اسلام کو فعال ہونے کی ترغیب دی۔ مولانا مفتی محمود اسی تحریک میں پہلی بار گرفتار ہوئے، جیل گئے اور تقریباً ایک سال قید بھی کاٹی۔ باہر آئے تو جمعیت پھر تنظیم نو کے مرحلہ سے گزر رہی تھی۔ مولانا احتشام الحق تھانوی اختلافات کے باعث جمعیت کو داغ مفارقت دے چکے تھے۔
مفتی محمد حسن نئے صدر منتخب ہوئے، جنھوں نے بوجہ علالت مفتی محمد شفیع کو اپنا قائمقام مقرر کر دیا۔ مگر یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر چلا نہیں اور دو سال بعد اکتوبر 1956ء میں جمعیت کو پھر سے تنظیم نو کے عمل سے گزرنا پڑا۔ مفتی محمد حسن نے مولانا خیر محمد جالندھری کی معرفت نئے پارٹی الیکشن کرانے کی تحریری ہدایت جاری کر دی۔ ملتان میں پارٹی کنونشن ہوا، اور مولانا احمد علی لاہوری دوبارہ صدر منتخب کر لیے گئے، لیکن اس بار ان کے ساتھ جنرل سیکریٹری مولانا غلام غوث ہزاروی تھے۔
جمعیت علمائے اسلام 1959ء میں متوقع الیکشن کی تیاریاں کر رہی تھی کہ مارشل لا لگ گیا اور دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جمعیت علماے اسلام بھی کالعدم قرار پا گئی۔
اس عرصہ میں مولانا مفتی محمود نے دینی مدارس کی فلاح وبہبود اور اصلاح و ترقی کے لیے " وفاق المدارس عربیہ " کے نام سے نئی تنظیم کی بنیاد رکھی، اور یہی تنظیم بعد میں دینی مدارس کے خلاف ایوب خان اور بھٹو کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنی اور آج بھی ایک موثر تنظیم کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 1962ء کے الیکشن میں مفتی محمود نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور ایوب خان حکومت کی مخالفت کے باوجود بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو وزیراعظم بنے تو خان عبدالقیوم خان نے ان کے ساتھ مل کر بھرپور سعی کی کہ خیبر پختون خوا میں، جو اس وقت سرحد کہلاتا تھا، مخلوط حکومت بنا لیں، مگر یہ سعی ناکام ہو گئی، اور جمعیت علمائے اسلام نیپ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔
مفتی محمود صاحب نے یکم مئی 1972ء کو خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا، اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے وزیری میں فقیری کی ریت تازہ کر دی۔ سرکاری بنگلے میں رہنے سے انکار کر دیا۔ اپنی تنخواہ بھی نصف کر دی۔
حکومتی مراعات کو بھی خیر باد کہا۔ ایک دفعہ کچھ رفقا کو کھانے پر مدعو کیا۔ دسترخوان پر دال روٹی آئی، تورفقا سخت متعجب ہوئے، اوربولے، "مفتی صاحب، یہاں بھی دال روٹی۔"مفتی صاحب مسکرائے اور کہا، "بھئی جو میری تنخواہ ہے، اس میں یہ بھی غنیمت سمجھو۔" دیکھنے والے دیکھتے تھے، پشاور سرکٹ ہاؤس کے ایک کمرے کے فرش پردسترخوان بچھا ہوا ہے، یہ ان کا ڈائننگ روم ہے۔
چوب داروں کا ہجوم، نہ باوردی بیروں کی بھاگ دوڑ، سیلف سروس چل رہی ہے۔ سونے کے کمرے میں چٹائی کی جائے نماز، دو کرسیاں اور ایک ایسا صوفہ سیٹ پڑا ہے، جو غالباً اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔
اسی طرح پشاور کے ایک یورپی طرز کے ہوٹل میں عالمی ادارہ خوراک کے ڈائریکٹر مسٹر اکینو کے اعزاز میں عشائیہ ہے۔ کھانے کے وقت مفتی محمود صاحب اپنے اور مہمانوں کے ڈرائیوروں کو بھی ساتھ بٹھا کے کھانا کھلاتے ہیں۔ نماز کے اوقات میں خود امامت کرتے ہیں اور تمام عملہ ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتا ہے۔ جو سادگی اور درویشی وزیراعلیٰ بننے سے پہلے تھی، وہی سادگی اور درویشی وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی نظر آ رہی تھی۔
انتظامی سطح پر بھی اس مختصر عرصہ میں انھوں نے دو تین بنیادی نوعیت کے اقدامات اٹھائے۔ مثلاً، اردو کوصوبہ کی سرکاری زبان قرار دیا، جہیز کی لعنت سے نجات کے لیے قانون سازی کی، اور پس ماندہ علاقوں میں متعدد نئے اسکول اور کالج کھولے۔ اس عرصہ میں صوبہ میں کہیں دفعہ 144 نافذ نہیں ہوئی، کسی اخبار کا ڈیکلریشن منسوخ نہیں ہوا، کسی کو سیاسی بنیادوں پر جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ مفتی محمود لگ بھگ ساڑھے نو ماہ وزیراعلیٰ رہے۔
بلوچستان میں نیپ کی مینگل حکومت کو اکثریت حاصل تھی۔ بھٹو صاحب نے نیپ حکومت توڑ دی، تو مفتی صاحب نے بھی استعفا دے دیا اور پھر بھٹو صاحب کے اصرار کے باوجود واپس نہیں لیا۔ 1977ء میں مفتی صاحب کی قیادت پر اپوزیشن کی تمام پارٹیاں متفق ہو گئیں۔
الیکشن میں وہ دو نشستوں پر امیدوار تھے اور دونوں نشستیں انھوں نے جیت لیں۔ شروع میں بھٹو بھی عمران خان کی طرح ان کا مذاق اڑاتے، لیکن آخر میں انھی سے بھٹو کو مذاکرات کرنا پڑے اور از سرنو انتخابات کے حوالہ سے ان کے موقف کو تسلیم کرنا پڑا۔ یہ درست ہے کہ بساط ان کی، فوج ہی نے لپیٹی، مگر بھٹو کے سیاسی زوال میں مفتی محمود کی قیادت اور قومی اتحاد کی تحریک کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد مفتی محمود کی وفات کے بعدجمعیت علمائے اسلام کی سیاست میں نمایاں ہوئے اور نواب زادہ نصراللہ خان کی سرپرستی اور ایم آرڈی کے پلیٹ فارم سے بہت تھوڑے عرصہ میں اپنی انفرادی پہچان بھی پیدا کر لی۔ مولانا سمیع الحق کے بعد وہ جمعیت علمائے اسلام کے بلا شرکت غیرے قائد بن چکے ہیں۔ وہ خیبر پختون خوا میں مسلسل پانچ سال حکومت کر چکے ہیں۔
قائد حزب اختلاف اور ملکی تاریخ کے سب سے موثر مذہبی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے سربراہ رہ چکے ہیں، اور اب پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود حکومت کے خلاف ایک بھرپور سیاسی اتحاد کے قائد ہیں۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ آیا حکومت کے خلاف مختلف بلکہ متضاد نظریات کی حامل جماعتوں کے اس سیاسی اتحاد کو، وہ بھی اپنے والد مفتی محمود کی طرح کامیابی سے چلانے اور اس کی منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے یا نہیں؟