مال روڈ پر ریگل چوک سے ذرا آگے دیال سنگھ مینشن کی بالائی منزل پر اس فلیٹ کا دروازہ اب اکثر دن کو بھی بند ہی ہوتا ہے، جوکبھی راتوں کو بھی کھلا رہتا تھا۔ لاہور پریس کلب کسی زمانے میں اسی فلیٹ میں ہوتا تھا؛ دوکمرے، ایک مربع شکل کا، دوسرا مستطیل نما، ڈیوڑھی، ان کے ساتھ کچن اور واش روم۔ یہ بڑا ہی سہانا دورتھا۔ یہاں بیتے ہوئے پرشور دنوں اور جاگتی راتوں کو یاد کرنا کسی دیرینہ رومان کی یاد تازہ کرنے کی طرح ہے۔
ان دنوں مال روڈ پر ایک طرف لوئرمال پر ہمارے صحافتی ادارے کا دفتر، جب کہ دوسری طرف لارنس روڈ کے پاس ایک فلیٹ میں رہایش ہوتی تھی۔ پریس کلب ہمیں راستے میں پڑتا تھا۔ دن یا شام، کسی بھی وقت کلب پہنچنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا، بلکہ شام کا کھانا عام طور پرکلب کی کینٹین میں ہی کھایا جاتا تھا۔
سڑک کی طرف سے مینشن کی نکڑ سے گول سرنگ کی طرح اوپر کی سیڑھیاں چڑھ کر بالکونی سے ہوتے ہوئے کلب میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا، جیسے کسی داستاں سرائے میں آ گئے ہیں۔ ہر عمر، ہر نوع اور ہر رنگ کا صحافی یہاں موجود ہے؛ یہ ’مشرق، کے سینئر ایڈیٹر عزیز مظہر ہیں، جو اپنے بھاری بھرکم وجود کو بمشکل سنبھالتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ نامور ترقی پسند شاعر اور بزرگ ظہیر کاشمیری ہیں، جو رنگ برنگے مگر کافی پرانے سے کوٹ پتلون میں زیر لب گنگناتے ہوئے آ رہے ہیں۔ یہ ’علامہ، صدیق اظہر ہیں، جو اپنی مخصوص لہر میں لہراتے ہوئے آ رہے ہیں۔ یہ جوان رعنا قمراللہ چوہدری کی آمد ہوئی ہے، لمبے سنہرے بال ماتھے اور شانوں پر بکھرے ہوئے پہلی نظر میں کوئی فلمی ہیرو معلوم ہوتے ہیں۔ فلیٹ کے دروازہ پر باہر بالکونی میں کرسی ڈال کرگاؤں کے کسی سفید پوش زمیندار کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھے اور سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے ہوئے یہ حیدر جاوید سید تشریف فرما ہیں۔
اندر ڈیوڑھی میں یہ سانولے سلونے ناصر نقوی کسی ٹی وی فن کار کے ساتھ مصروف گفتگو ہیں۔ صحافت کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کرتے ہیں اور یہ بزرگ جو کاونٹر پر کلب کے خوبرو منیجر سرمدگل سے ’رازونیاز، میں مشغول ہیں، یہ سارے کلب کے ’چاچو، ہیں۔ علامہ اظہر اس بے جوڑ جوڑی کی طرف دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ اس طرف کونے میں یہ جو پہلوان صاحب منہ میں سگریٹ دبائے تاش کے پتے پھینٹ رہے ہیں اور جب کسی بات پر ہنستے ہیں، تو ان کے سامنے میز پر پڑا ہوا ان کا چائے کا کپ بھی لرزنے لگتا ہے، یہ یاسین خان سحرؔ ہیں۔
جی ہاں، سحرؔ ان کا تخلص ہے۔ یہ سارے کلب کے پاء جی (بھائی جان ) ہیں۔ ان کی بغل میں دم سادھے بکل مارے ان کا جگری دوست سرفراز بیٹھا ہے۔ سحرؔ کے برعکس انتہائی منخنی سا وجود۔ سرفراز تھوڑی تھوڑی دیر بعد بے چینی سے گھڑی دیکھتا ہے حالانکہ اس کو کہیں بھی نہیں جانا۔ ان کے برابر میز پر شعیب بھٹہ پورے انہماک سے کھانا کھا رہے ہیں۔ ایک سندھی اخبار کے نامہ نگار ہیں۔ تھوڑا سا ہکلا کر بولتے ہیں، مگر پریس کانفرنسوں میں سوال ہی نہیں، باقاعدہ بحث و تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔ کاونٹر کے ساتھ سرمد گل کی ہم نشینی میں احمد عبداللہ نے اپنی منفرد محفل لگا رکھی ہے۔
’جانو، ان کا تکیہ کلام ہے۔ سرمد سے لے کر چاچو تک سب ’جانو، ہیں۔ بے تکان بولتے ہیں اور بیچ میں جلالی انداز میں علامہ اقبال کاکلام بھی پڑھتے جاتے ہیں، صحافی ہما علی کے برادرخورد ہیں۔ اورنگ زیب، اکرم شیخ، شفیق اعوان، اعجاز حفیظ، انتخاب حنیف، عدنان عادل، نعمان یاور، شعیب الدین، شاہد شاہ، سہیل قیصر، محمد اکرم، نقی اکبر، نواز طاہر، جمیل چشتی بھی باقاعدگی سے آنے والوں میں ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں عباس اطہر، حسین نقی، فرخ سعید خواجہ، جواد نظیر، روف طاہر، رفیق غوری اور حامد ریاض ڈوگراور نجم الحسن عارف بھی نظر آتے ہیں۔ علاوہ اس کے، ایک منڈلی وہ ہے، جو نائٹ شفٹ سے فارغ ہو کرکچھ دیر کے لیے آتی ہے اور سپیدہ سحر نمودار ہونے سے پہلے ہی رخصت ہو جاتی ہے۔
اس طرح متنوع چہروں کی ایک کہکشاں ہے، جو کلب کے ان دوکمروں میں سمائی ہوئی ہے۔ چہروں کی اس کہکشاں میں وہ چہرہ، جو ہمیشہ مجھے سب سے منفرد لگا، وہ اختر حیات کا گول مٹول اور شرارتی آنکھوں والا چہرہ ہے۔ چونکہ اختر خالی صحافی نہیں، بلکہ ادیب اور شاعر بھی ہیں، لہٰذا ادیب صحافیوں کی محفل میں زیادہ آسودہ نظر آتے ہیں۔
سردیوں کی سہ پہروں میں، جب دھوپ بہت نرم اور گداز ہو جاتی ہے، بالکونی پر حیدرجاوید سید کے ساتھ بیٹھے بار ہا یہ دلفریب نظارہ دیکھا کہ اچانک کہیں سے گہرے کالے بادل آ کر دیال سنگھ مینشن کے اوپر منڈلانے لگے ہیں۔ بارش ہونے والی ہے۔ ہوا میں خنکی ایک دم سے بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ بارش شروع ہو جائے، سیڑھیوں کی اور سے عزیزمظہر آتے ہیں۔ پھر ظہیرکاشمیری نمودار ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے ’علامہ، صدیق اظہر ہیں۔ کلب کے بڑے کمرے میں یہ ٹرائیکا اپنے مخصوص کونہ میں میزکے گرد بیٹھ چکی ہے۔
کھیل مگر ابھی شروع نہیں ہو گا، کیونکہ چوتھا کھلاڑی ابھی نہیں پہنچا۔ لیجیے، وہ بھی آ گئے۔ ڈیوڑھی سے کسی کے تیز تیز چلنے کی آواز آ رہی ہے۔ کھٹاک سے دروازہ کھلتا ہے اور عینک کے پیچھے سے گول گول آنکھیں مٹکاتے اخترحیات داخل ہوتے ہیں اور پھر کونے کی میز کے گرد چوتھی کرسی سنبھال لیتے ہیں۔ ’شروع کرو، اور یہ کہتے ہوئے علامہ اظہر بے چینی سے دونوں ہاتھوں سے میز بجاتے تھے۔ اختر کی طرف تھوڑا سا جھکتے ہیں، ’ کیوں اختر، خیر سی ناں۔"
اختر حیات ان کے اظہار تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے زور سے آواز لگاتے ہیں، ’شوکت، چار چائے کڑک، اور حسب عادت انگلی سے ہوا میں دائرہ بناتے ہوئے کہتے ہیں ’ میرے کھاتہ میں،۔ اختر کے لہجہ میں بزرگی کے آثار تو ہیں مگر وہ بوڑھا آدمی نہیں، تاہم اس وقت جب دیال سنگھ مینشن کے اس کمرے کے باہر ٹپ ٹپ بارش ہو رہی ہے، متصل ٹی وی روم سے کسی گل رخ گلوکارہ کی سریلی آواز بلند ہو رہی ہے اور اندر اس میز پر کھلاڑی پتے پر پتہ پھینک رہے ہیں ؛ تو ایسے میں اختر کا بچوں کے جیسا چہرہ بھی باقی بوڑھوں کے چہروں میں مدغم ہوتا جاتا ہے۔"کہاں گئے اختر حیات"، میں سوچتاہوں، "ابھی تو یہیں تھا۔"
وہ دن بھی بڑا ہی یادگار تھا، جب کلب انتظامیہ نے یہ مژدہ سنایا کہ کلب کے دو کمروں میں سے ایک کمرہ کو، جس کی کھڑکیاں باہر بالکونی کی طرف کھلتی ہیں، باقاعدہ ٹی وی روم کا درجہ دے دیا گیا ہے، اس کی تزئین نو بھی ہو گی اور ڈش انٹینا کا بندوبست بھی ہو چکا۔ اب سرشام ہی یہ کمرہ کسی منی سینما گھر کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا، کبھی کبھی فلم بینی کے لیے بتیاں بھی گل کر دی جاتیں، فلم بینی کے ساتھ چائے کے دور پر دور بھی چل رہے ہیں۔
لگتا تھا کہ سب کچھ ایسے ہی رہے گا۔ ان دو کمروں کی یہ رونقیں، یہ ہنگامے اسی طرح رہیں گے مگر سیل زماں سے کس کو رستگاری ہے۔ پتہ ہی نہیں چلا اور یہ شب و روز ماضی کا حصہ بن گئے۔ شملہ پہاڑی کے دامن میں پریس کلب کی نئی عالی شان عمارت مکمل ہوتے ہی سب رونقیں وہاں منتقل ہو گئیں پرانے پریس کلب کے لیے یہ نیا پریس کلب غلام حیدر وائیں کا تحفہ تھا۔
نئے پریس کلب کو چوہدری پرویز الٰہی نے صحافی کالونی کا بیش قیمت تحفہ دیا۔ پرانے پریس کلب میں ارکان سیکڑوں میں تھے، آج ہزاروں میں ہے۔ نئے پریس کلب کے نئے ہنگامے ہیں، نئی رونقیں ہیں لیکن جن لوگوں نے دیال سنگھ مینشن والے دو کمروں پر مشتمل پریس کلب کو دیکھا تھا اور محسوس کیا تھا، وہ اس کی رونقوں اور ہنگاموں کو بھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔