مکمل امریکی انخلاء کے ابھی 16دن باقی تھے، طالبان کابل پہنچ گئے اور صدارتی محل تک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ امریکا اور اس کے زرخرید حکمرانوں کا غرور خاک میں مل گیا، طالبان کی عاجزی آسمان کو چھو رہی ہے۔
ایک بار پھر حسینیت جیت اور یزیدیت ہار گئی۔ 20 سال پہلے امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا، آج وہ گھٹنوں کے بل طالبان سے منت سماجت کررہا ہے کہ کابل میں موجود ان کے لوگوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ اللہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے رسوا کردے۔
ایک مشکل اور طویل ترین جنگ کا ایسا پر امن اور خوبصورت اختتام فاتحین کی اعلیٰ ظرفی کا منہ بولتا ثبوت ہے، طالبان نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پورے افغانستان میں ہر چھوٹے بڑے، اپنے پرائے دشمن کے لیے عام معافی کے مخلصانہ اعلان اور جزا و سزا کے موثر اختیار کے ساتھ افغان طالبان نے راتوں رات ماحول تبدیل کردیا۔ دنیا کوحیران کردیا اور اپنے مخالفین کو مزید پریشان اور اپنے خیرخواہوں کو شاد کردیا۔ جو لوگ زمینی حقائق پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
ان کے لیے یہ کامیابی قطعی حیران کن نہیں، ہم بھی اپنے کالموں میں کئی بار لکھ چکے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے، لیکن جو لوگ حقیقت سے نظریں چرا رہے تھے وہی آج حیران بھی ہیں پریشان بھی۔ طالبان نے اپنی اس عظیم کامیابی کے دوران جس اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال دنیا کی جنگی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ طالبان نے ہتھیار ڈالنے والوں پر ہتھیار نہیں اٹھائے، اسماعیل خان جیسے ظالم اور سفاک دشمن کو بھی پورے احترام اور وقار سے جانے کا موقع دیا۔
پیش قدمی کے دوران پورے افغانستان میں کسی جگہ بھی تشدد نہیں کیا، لوٹ مار نہیں کی گئی، سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ اگر کسی نے ان سے معاہدہ کرکے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے ان کے ساتھ ناصرف معاہدہ کیا بلکہ ان معاہدوں کی پاسداری کی۔ قندھار سے غزنی اور غزنی سے کابل تک ہر ایک جگہ خواتین کو مائیں اور بہنیں سمجھتے ہوئے باوقار سلوک کیا۔ چادر اور چاردیواری کا احترام کیا۔ املاک کو نقصان نہیں پہنچایا۔
مذہبی معاملات میں کسی پر جبر نہیں کیا۔ جس علاقے پر طالبان نے کنٹرول سنبھالا وہاں اگلے ہی روز کاروبارمراکز اور معمولات زندگی کو اپنی نگرانی اور حفاظت میں بحال کیا۔ صحافیوں اور این جی اوز کے لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کیاگیا، اور ان کی املاک کی حفاظت کی۔ فرقہ وارانہ و نسلی امتیاز کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ لڑکے اور لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھولے گئے۔ سرکاری دفاتر کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ کسی کی نجی املاک کو قبضے میں نہیں لیا گیا۔ کسی کو زبردستی لڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
یہ وہ اقدامات ہیں جو اس بات کا پتا دے رہے ہیں آج بھی طالبان سنت نبوی ﷺ پر بنائے گئے اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ 1995 والے طالبان اور آج کے طالبان میں رتی برابر بھی فرق نہیں ہے۔ مگر آج اور کل کی دنیا کو میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا نے بدل کر رکھ دیا، آج یہ ممکن نہیں کہ دشمن جو چاہے طالبان کے سر تھوپ دیں، اب دنیا ثبوت مانگتی ہے اور ہر ثبوت طالبان کی عظمت پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ طالبان جس صوبے اور شہر کا رخ کرتے وہاں کے لوگ ان کا استقبال کرتے۔ بیشترافغان فوجی ان کے سامنے سرنڈر کرکے ان کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔
طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان ترپ کا وہ پتہ ثابت ہوا جسے نے ساری گیم اپنے حق میں کرلی۔ اس اعلان کے بعد جیسے جیسے طالبان کابل کی جانب پیش قدمی کررہے تھے، خانہ جنگی اور خونریزی کے خدشات لمحہ بہ لمحہ ختم ہوتے جا رہے تھے۔
پرامن انتقالِ اقتدار کی فضاء سازگار ہو رہی تھی اور اللہ نے طالبان کو فتح سے نواز دیا۔ کابل کا صدارتی محل اللہ اکبر کے نعروں اور قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ نصر کی تلاوت سے گونج اٹھا، اللہ کے بابرکت اور مقدس نام نے اس محل کو دودہائیوں کی نحوست سے آزاد کردیا۔ جس کے بعد اس محل میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب ہوئی، افغان فورسز کے اہلکاروں نے اپنا اسلحہ طالبان کے حوالے کرتے ہوئے سرنڈر کردیا۔ یہ وہی طالبان ہیں جنھیں اجڈ جاہل اور گنوار کہا گیا، جنھیں پتھر کے زمانے کا کہا گیا، جنھیں جدید تہذیب سے نا بلد کہا گیا، غیر تو غیر تھے اپنوں نے بھی ان کو نہ بخشا مگر یہ اپنی دھن کے پکے نکلے۔
اللہ رب العزت کی مدد اور افغان قوم کی وسیع ترحمایت سے ملک کے تمام علاقے طالبان کے کنٹرول میں آچکے ہیں، جو یقیناً نہ صرف افغان قوم بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم کامیابی اور نشاط ثانیہ کا سنگ میل ثابت ہوگا، انشاء اللہ۔ فتح کابل اور ذبیح اللہ مجاہد کی تاریخی پریس کانفرنس نے جہاں پوری دنیا کو حیران کر دیا، وہاں ان کے شدید مخالفین کا رویہ اور بیانیہ بدل رہا ہے۔
وجہ صرف ایک ہی ہے کہ امارات اسلامیہ افغانستان کے پچھلے دور کی طرح اب حقائق کو چھپانے اور جھٹلانے کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس لیے بیانیہ یہ نہیں ہے کہ طالبان بدل رہے ہیں، بلکہ بیانیہ یہ ہے کہ طالبان کے متعلق حقائق جان کر مخالفین بدل رہے ہیں۔
طاقت کے باوجود طالبان کابل میں پرامن طور پر داخل ہوئے، ممکن ہے جس وقت یہ تحریر آپ کی نظروں کے سامنے سے گزررہی ہو تب تک پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہو، کیونکہ لمحہ بہ لمحہ صورتحال بدل رہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کوملک چھوڑنے کا موقع دے کر طالبان نے اعلیٰ ظرفی کی شاندار مثال قائم کردی۔
امریکا نے عراق و شام سے انخلاء کرکے وہاں فوج اور مجاہدین کو آپس میں لڑوا کر لاکھوں لوگ مروا دیے اور ان ملکوں کی معیشت تباہ کرکے رکھ دی۔ افغانستان کے حوالے سے بھی امریکا کی عراق اور شام والی خانہ جنگی کی پالیسی تھی مگر افغانی فوجیوں اور طالبان نے ملکر جس طرح جنگ کیے بغیر امریکی عزائم اور اس کے ڈالر پرست پارٹنر کو جڑ سے ختم کیا ہے اس کی داد دینی پڑے گی۔
افغانستان میں طالبان کی جیت جس انداز میں ہوئی اس نے بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا، کئی عالمی قوتوں کی حسرتوں پر پانی پھر گیا۔ حالات مستقبل کا پتا دے رہے ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں کی ستم ظریفیوں اور اپنوں بیگانوں کی بے اعتنائیوں نے طالبان کو کندن بنا دیا ہے، دشمن کی خواہش و کوشش ہوگی کہ طالبان کسی صورت کامیاب نہ ہوں۔
اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلالیا، جس طرح پرامن انتقال اقتدار نے بدخواہوں کی حسرتوں اور کوششوں پر پانی پھیرا مستقبل میں بھی انھیں سبکی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا طالبان کی جانب سے جو روڈ میپ سامنے آیا ہے وہ تو اسی بات کا پتا دیتا ہے۔
یہ بڑا واضح اور حوصلہ افزا روڈ میپ ہے۔ دنیا خاص طور پر خطے کے ممالک کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ طالبان ہی افغانستان کے امن کے ضامن ہیں اور پر امن افغانستان پورے خطے کے امن اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ اس لیے روس، چین، پاکستان، ایران، اور دیگر علاقائی ممالک کی ذمے داری ہے کہ افغانستان کا بھر پور ساتھ دیں اور بلا تاخیر ان کو تسلیم کر لیں۔ اور فضائی جارحیت کی صورت میں افغانستان کا دفاع کریں۔
طالبان بھی اپنے خیرخواہ کو پہچان لیں اور سمجھ لیں حکومت کے قیام کے بعد ہمسایہ ممالک کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور ان ممالک کی بھی ذمے داری ہے کہ طالبان کا ساتھ دیں اور جہاں ضرورت پیش آئے ان کی رہنمائی کریں۔
میرے باباجان شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت کو کتابوں میں پڑھا اور اس کی عملی تفسیر ملا محمد عمر رحمہ اللہ کے دور میں افغانستان کی گلی کوچوں میں دیکھی۔ باطل قوتوں نے اسے ہی ختم کرنے کے لیے بیس برس قبل افغانستان پر حملہ کیا لیکن اللہ نے انھیں افغانستان کے پہاڑوں میں رسوا کرکے چھوڑا، اور اپنے شیروں کو ایک بار پھر موقع دیا کہ وہ خلافت راشدہ کے دور کی یادیں تازہ کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا نے کابل کی فتح کی صورت میں فتح مکہ کی تفسیر دیکھ لی۔
آج حضرت اقدس، امام العصر، محدث کبیر، سیدی و مرشدی حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی ؒ کی دعاؤں، قنوت نازلہ کی عاجزانہ عبادات اور مجاہدین افغانستان کی سربلندی کے لیے شب بیداریوں اور علمی و عملی کاوشوں کو اللہ کریم نے شرف قبولیت بخشا۔
جس جہادی حرکت کا آغاز انھوں نے 2001میں عملی میدان میں پیرانہ سالی کے باوجود، موجودگی اور جامعہ فاروقیہ کابل کے ختم بخاری میں دعا سے کیا تھا، آج اس تحریک کو اللہ کریم نے فتح و نصرت سے ھمکنار کیا۔ الحمد للہ۔
یقیناً آج حضرت شیخ ؒ کی روح اطہر بہت شاد ہوگی۔ آج عالم ارواح میں ملا محمد عمر رحمہ سمیت اپنے بے شمار شہداء شاگردوں اور تحریک کے ذمے داران کے ساتھ یقیناً سرخرو و شادماں بیٹھے ہونگے لیکن ہمیں ان کی کمی اس وقت بہت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ کاش وہ اس وقت اپنے مجاہد روحانی بچوں کے ساتھ موجود ہوتے اور آنسوؤں سے تر دامن کے ساتھ کی گئی اپنی دعاؤں کا ثمرہ دیکھتے جو آج کابل کی سرزمین پر امارت اسلامیہ کی حکومت اور شریعت مطہرہ کے نفاذ کی صورت دمک رہا ہے۔
اللہ کریم ڈاگئی باباجیؒ، ملا محمد عمر رحمہ اور امارت اسلامیہ افغانستان پر جان نثار کرنے والے شہدا کی ارواح مطہرہ اور قبور پر نور پُر رحمتیں برسائے اور مجاہدین افغانستان کی اس کامیابی کو ریاست مدینہ کی تشکیل کی صورت دینے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)