گزشتہ کالم "افغان امور کے نام نہاد ماہرین" میں، ہم نے لکھا کہ ماہرین کے خدشات، تنقید، مشوروں جس کا اختتام اس انتباہ پر ہوتا ہے کہ اگر ہماری ہدایات پر عمل نہ کیا تو:
"طالبان حکومت چلے گی نہ افغانستان میں امن قائم ہوگا" پر بات کی تھی اب گزشتہ سے پیوستہ رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ شرعی امارت سے بیعت ہونے کے بعد اطاعت امیر لازم اور اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ اہل رائے کے شوریٰ (کونسل) کا مرکزی مگر مشاورتی کردار ہوتاہے۔ شوریٰ کے ارکان مشاورت کے بعد اپنی رائے امیر کو دیتی ہے۔
امیرکو شرعی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ شوریٰ کے فیصلے کو مان لے یا بدل دے، یا دوبارہ غور و فکر کا کہہ دے۔ اسلامی امارت کے یہی بنیادی اصول سمجھ کر ہم بہت آسانی سے مستقبل کے خاکے میں رنگ بھر سکتے ہیں۔ کہ امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ حکمران اور پیشوا ہونگے اور نظام حکومت کو اپنی شوریٰ کے مشوروں سے چلائیں گے، اور ہر ایک کو ان کی اہلیت کی بنیاد پر حکومتی ذمے داری دینگے۔
اب آتے ہیں مشوروں، خدشات اور انتباہ کی طرف، ماہرین کا خیال ہے کہ ان مشوروں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ ہوا تو "طالبان کی حکومت نہیں چلے گی اور نہ امن قائم ہوگا"۔
پہلی تشویش یہ ہے کہ طالبان کو سلو فلائٹ نہیں کرنی چاہیے تمام سیاسی پارٹیوں، علاقائی گروپس، ہر مذہب اور فرقے کو حکومت میں حصہ دار ہونا چاہیے۔
جو لوگ حکومت میں حصہ مانگ رہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے جب طالبان امریکا اور نیٹو افواج سے لڑ رہے تھے۔ اگر ہمارے نام نہاد ماہرین اور امریکی تنخواہ دار افعان ٹولہ اس وقت طالبان کے ساتھ مل کر امریکی اور نیٹو کی جارحیت کے خلاف کھڑے ہوتے تو افغانستان کی آزادی میں 20 سال لگتے نہ لاکھوں افعان شہید اور معذور ہوتے۔
طالبان نہ پہلے کسی ایک قوم یا زبان بولنے والوں کی تنظیم تھی اور نہ آج یہ زمینی حقیقت ہے کہ یہ پشتون، ازبک، تاجک، ہزارہ اور ہر زبان بولنے والوں اور ہر چھوٹے بڑے علاقائی گروہ کی ایک نمایندہ جماعت ہے۔ سب کو شوریٰ میں نمائندگی حاصل اور اہلیت کی بنیاد پر کوئی بھی ذمے داری دی جاسکتی ہے۔
طالبان نے سب کو معاف کردیا اور ہر افعان کو کہہ رہے ہیں کہ ملک نہ چھوڑیں اپنے ملک کی تعمیر میں ہمارا ساتھ دیں۔ کوئی بھی افعان امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ سے بیعت ہوکر امارت کا حصہ بن سکتا ہے، یہ دروازہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سمیت ہر افعان کے لیے کھلا ہے۔ باقی بغیر بیعت کے کسی دوسری پارٹی اور نظریے کے کسی علمبردار کو کوئی ذمے داری دینادیوانے کی بھڑک ہی ہو گی، اس کا نہ اخلاقی اور نہ عقلی جواز ہے۔
ماہرین کا دوسرا مشورہ عورت کو مکمل آزادی اور حقوق ملنے چاہئیں۔
کاش آپ سب طالبان کے ساتھ مل کر افعان عورتوں کے جائز حقوق غصب کرنے والے عالمی دہشتگردوں کے خلاف مزاحمت کرتے تو آج افغانستان کے لاکھوں بچے اور بچیاں یتیم اور لاوارث ہوتے نہ چادر و چاردیواری کی حرمت پامال ہوتی۔
طالبان اپنے ناقدین اورماہرین سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ امارت اسلامی افغانستان اپنا نظام قرآن و سنت کے مطابق چلائیں گے تو اگر پوری دنیا نہیں تو کم ازکم ہم مسلمان تو پوری ایمانی غیرت اور کھلی آنکھوں کے ساتھ طالبان کے قول و فعل کو دیکھنے کے لیے انکو تھوڑا سا وقت دیں، انشاء اللہ وہ پوری دنیا کو سمجھا دینگے کہ عورتوں کے حقوق ہوتے کیا اور دیے کیسے جاتے ہیں۔
طالبان کو یہ مشورہ دینے والوں کہ "افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور تمام دہشت گرد گروپوں کو افغانستان سے نکالنا پڑیگا۔" اور گارنٹی مانگنے والوں سے اگر پوچھیں کہ بھائی آپ اس وقت کہاں تھے جب طالبان اپنے ناکردہ گناہوں کے جرم میں عالمی دہشتگردی کے شکار تھے، افغانستان میں آگ اور لوہے کی بارش ہورہی تھی۔
شادی کی تقریب چھوڑی نہ جنازے اور جرگے کی اجتماع۔ ہر موقع پر بلا امتیاز عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو ڈیزی کٹر بموں سے خون میں نہلایا، ہر طرف دہشت اور وحشت برپا رکھی مگر افسوس نہ آپ عالمی دہشتگردوں قصیدے پڑھنے اورلکھنے سے باز آئے اور نہ ان کے زرخرید افعانوں کی غیرت جاگی۔
آج اللہ کی نصرت اور طالبان کی استقامت نے افغانستان کے عوام کو اس عالمی دہشتگردی سے نجات دلائی بلکہ ان درندہ صفت دہشتگردوں کو ذلیل و خوار کرکے اسطرح افغانستان سے نکالا کہ آیندہ یہ غلطی کبھی نہیں کرینگے۔
اگر طالبان ایٹمی اور آتشیں ہتھیاروں سے لیس عالمی دہشتگردوں کو افغانستان کی سرزمین سے با پھینک سکتے ہیں تو چھوٹے موٹے دہشتگرد اور بدمعاش کیسے امارت اسلامیہ افغانستان کی سرزمین اندرونی یا بیرونی دہشتگردی کے لیے استعمال کرسکیں گے؟ ان میں تھوڑی بھی عقل ہوگی تو ناک کی سیدھ میں چلیں گے۔
افعانستان میں امن کے خواہشمند اور طالبان کے ناقدین، تشویش میں مبتلا، ماہرین اگر برداشت اور تحمل سے طالبان کو تھوڑا سا وقت دیں تو وہ داخلی اور خارجی سارے دہشتگردوں کو نکیل ضرور ڈال دینگے۔
کسی گروہ یا جماعت کو حکومت چلانے کی اہلیت میں چند بنیادی اصول اہمیت کے حامل ہیں۔
اپنی سرزمین کو بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے حفاظت کے اہل ہوں۔ ہر موقع پر ملکی مفادات کو پہلے رکھ سکے، میدان جنگ ہو یا مذاکرات کی میز، دنیا کو قائل کرنے اور اپنی بات اور موقف سمجھا نے کے اہل، اپنے عوام کے دلوں میں ان کا احترام ہو تو پھر حکمرانی عوام کے لیے نعمت اور حکمران کے لیے امتحان ہوتا ہے۔
اور اب تک طالبان مذکورہ بالا میدانوں میں اپنی اہلیت ثابت کرچکے ہیں۔ اور پوری دنیا سمیت" ماہرینـ" بھی مذکورہ شعبوں میں طالبان کی اہلیت کو مان چکے ہیں، مگر پھر بھی وہ یہ تاثر اور رائے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان جاہل، اجڈ اور نااہل کہنا۔ اور پوری پلاننگ اور اپنے ماسٹرز کے ہدایت کے مطابق کنفیوژن پیدا کرنا شرعاً اور اخلاقاً زیادتی ہے۔
دنیا نے ابھی تک صرف چار پانچ افرادکی اہلیت دیکھی یہ چار پانچ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ ابھی دنیا کے سامنے ہر فیلڈ میں حیران کرنے افراد کو نمودار ہونا ہے، صرف چند دنوں میں پتا چل جائے گا کہ کس کس کو کیا کیا ذمے داری ملے گی لہذا فی الحال کم ازکم یہ کام امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخوند زادہ کے لیے چھوڑ دیں، انشاء اللہ اگلے کالم میں صرف اپنے والد محترم شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی بابا جیؒ کے شاگرد رشید اور خلیفہ مجاز مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ صرف کابل شہر میں بیعت ہونے والے دنیا کی نظر میں اہل صرف چند افراد کے نام نمونے کے طور پر پیش کرونگا۔
مجھے یہ کالم لکھنے پر روس کے صدر کے ایک بیان نے مجبور کردیا جس میں انھوں نے دنیا سے اپیل کی کہ طالبان پر پریشر نہ ڈالیں بلکہ ان کو سپورٹ کریں کیونکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طالبان ہی افغانستان کی اصل قوت ہے۔ اور خطے میں امن کے ضامن ہیں۔ یہی موقف چین، پاکستان کابھی ہے، ایران بھی یہی چاہتا ہے کیونکہ یہ عقل وشعور کا تقاضا، اور خطے کی امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے۔
گزشتہ کئی کالموں میں ہم بتا چکے ہیں کہ بھارت کے علاوہ سارے ممالک اپنے ملکی مفاد میں طالبان کا ساتھ دینگے، انھیں تسلیم کرینگے۔ ہر ملک کے ملکی مفادات کے وابستگی کی بنیاد پر ہم نے لکھا کہ وہ دن دور نہیں جب کہا جائے گا طالبان چین دوستی ہمالیہ سے بلند ہوگی مگر روس کے موقف اور مثبت رویے سے تو لگ رہا ہے روس امارت اسلامی افغانستان دوستی بھی ہمالیہ سے بلند ہوگی۔
ماہرین سے معذرت کے ایک انتباہ میں دینے کی جسارت کرتا چلوں کہ اللہ نہ کرے اگر خطے کی ممالک نے امارت اسلامی افغانستان کا ساتھ اس بار بھی نہ دیا اور افغانستان میں مکمل اور دائمی امن قائم نہ ہوا تو طالبان کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے، وہ تو سوکھی روٹی کے ٹکڑوں کو پانی میں بھگو کر کھانے کے عادی ہیں مگر اس خطے کے کمزور ممالک کا معاشی تورا بورا بن جائیگا اور چین کے خواب بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونگے۔