میں دانشور ہوں اور نہ افغان امور کا ماہر مگر رب العالمین کا شکر ہے کہ میں نے 2001 سے فتح کابل، فتح پنجشیر اور امارت کے طرزحکمرانی اور کون کیا بنے گا کے بارے میں جو لکھا وہ سچ ثابت ہوا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ امارت اسلامی سے تعلق مجھے باباجانؒ سے وراثت میں ملا اور یہی جذبہ مجھے کئی دنوں سے امارت اسلامی کو ایک مشورہ دینے پر اکسا رہا تھا۔
مگر امارت اسلامیہ کے قائدین کی سیاسی بصیرت، حالات پر ان کی گہری نظر اور گرفت کو دیکھ کر ان کو مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، چھوٹا منہ اور بڑی بات والی کہاوت مجھے روک رہی تھی۔ مگر اپنے استخارہ کے بعد مطمئن دل ودماغ نے مجھے یہ مشورہ دینے پر قائل کیا، مشورے کے بارے میں بتانے سے پہلے میں ان یقینی خدشات پر بات کروں گا جو مجھے مشورہ دینے پر آمادہ کررہے ہیں، انشاء اللہ "تبدیلی" کے قارئین مطمئن ہوں گے کہ میرے مشورے کا محرک اعظم کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے دائمی امن، استحکام اقتصادی خوشحالی کی خواہش ہے۔
حکومت بن گئی اب بہت جلد چین، روس، پاکستان اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک ملک امارت اسلامی کو تسلیم کرینگے۔ تسلیم کرنے والے ممالک میں دو قسم کے ممالک ہوں گے۔ ایک وہ جو اس خطے اور اپنے ملک کے امن اور معاشی استحکام و ترقی کے خواہشمند ہیں۔ دوسرے وہ جو اس خطے میں انتشار، بد امنی اور امارت اسلامی افغانستان کو مفلوج کرنے کی نیت و مقصد سے تسلیم کرینگے، دوسرے گروپ میں بھارت اور امریکا تسلیم کرنے کے بعد ڈپلومیٹک کور میں رہتے ہوئے اندرونی غداروں کے ساتھ مل کر اپنے اہداف کو حاصل کر نے کی کوشش کریں گے۔
دوسرے گروپ اور خاص کر بھارت کی خواہش ہے کہ یہ خطہ غیر مستحکم اور خون آلود رہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان اور اس خطے کے لیے بھارت، امریکا سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ گزشتہ بیس برس پر محیط صبر آزما دور کے دوران جب افغانستان میں بھارت کے کردار خاص کر را کے جاسوسی نیٹ ورک سے منسلک اندرونی غدار افغان حکمرانوں خصوصاً شمالی اتحاد اور احمد مسعود جیسے امارت اسلامی کے دشمن عناصر کے ساتھ گاؤماتا سرکار کے تعلق اور ربط کو دیکھتا ہوں تو بحیثیت پاکستانی مسلمان میری پریشانی فطری ہے۔
فتح کابل کے بعد چائے والی سرکار اور بھارتی میڈیا نے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا۔ مودی بذات خود اپنی ذہنی غلاظت کو نہیں سنبھال پا رہا، کچھ دن پہلے سومنات مندر میں کھڑے ہوکر ان کو بت شکن ثانی محمود غزنویؒ کے ہاتھوں اپنے دیوتاؤں کے بتوں کے کٹے سر یاد آئے تو بت شکن ثالث ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے پیشرو امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ اور امارت اسلامیہ کے شیروں کو محمود غزنوی رحمہ اللہ کی اولاد کہہ کر پکارا۔ اس انتہا پسند حکمران کو یہ کون سمجھائے کہ امارت اسلامی کے جانثار محمود غزنوی سے نسبت کو اعزاز سمجھتے ہیں۔
امارت اسلامی افغانستان کے شیروں نے امریکا کو سپر پاور سے صفر پاور تک لاکر اس کے بت کو اپنے جد امجد محمود غزنوی کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے پاش پاش کردیا۔ انشاء اللہ اب ان کے سامنے کوئی ذی شعور فرد یا مملکت سجدہ ریز نہیں ہوگی۔
شواہد یہ بتا رہے ہیں کہ پنجشیر میں اگر بحیثیت مملکت کسی ملک نے احمد مسعود اور امراللہ صالح جیسے غداروں کو سپورٹ کیا وہ صرف بھارت ہے اور آج بھی امارت اسلامی افغانستان کے شیر دل طالبان کا خون بھارتی حکمرانوں کے ہاتھوں پر نظر آرہا ہے مگر حالات کا رخ دیکھ کر اربوں ڈالر کی ڈوبتی سرمایہ کاری اور را کے مفلوج نیٹ ورک کو بچانے کی خاطر امارت اسلامیہ افغانستان کے نمایندوں سے سلام کے لیے دوحہ آفس میں حاضری دی اور تسلیم کرنے کے اشارے دیے۔
اس ملاقات کے بعد میں سوچتا ہوں کہ امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ اگر ڈپلومیٹک کور میں اندر رہ کر بھارتی درندے، اندرونی غداروں کے ساتھ مل کر سازشیں کرنے لگے تو بہت نقصان ہوگا۔ امارت اسلامی افغانستان کے ان شیروں نے اگر عالمی دہشتگردوں کو ذلیل و خوار کرکے اپنا وطن واپس لیا جب کہ ابھی آخری بھگوڑے کابل میں موجود تھے کہ اللہ کی نصرت اور طالبان کی استقامت کی وجہ سے ایک گولی چلائے بغیر صدارتی محل پر کلمہ طیبہ سے مزئین امارت اسلامی افغانستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ اس فتح مبین کو دیکھ کر طالبان کے سروں پر اللہ کی نصرت کی چھتری اندھوں کو بھی نظر آنے لگی۔
اگر امریکی بھگوڑوں نے ناک رگڑ کر امارت اسلامیہ کے شیروں سے جان چھڑائی تو ان کے سامنے بھارتی حکمرانوں کی کیا اوقات اور حیثیت، مگر را کے یہ ایجنٹ اگر ڈپلومیٹک کور میں آستین کے سانپ کی طرح آئیں گے تو امارت اسلامی افغانستان کے امن و استحکام کو تاراج کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔ امارت اسلامی افغانستان کے جتنے بھی ہمسایہ ممالک ہیں ان سب کی بڑی اور اہم تشویش یہ ہے کہ افغان سرزمین حسب سابق ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
امارت اسلامی افغانستان نے چین، روس اور پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی لیکن بھارت کو تو تخریب کاری کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں اور پاکستان کے ساتھ ان کی ازلی دشمنی کی وجہ سے بھارت سے کچھ بعید نہیں، بھارت نے امارت اسلامی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اپنا پرانا نیٹ ورک متحرک کرنا ہے، بلکہ امریکا کے ایماء اور شہہ پر چین کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرے گا، اس کی تخریب کاری اس بار خطے کے ہر ملک کے خلاف ہوگی، اگر پاکستان، چین اور روس میں سے کسی کے خلاف بھی بھارت افغان سرزمین استعمال کرنے میں کامیاب ہوگیا تو لامحالہ اس ملک کے امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگی۔
اگر بھارت کی دراندازی اور شرانگیزی کی وجہ سے پاکستان نے دست تعاون کھینچ لیا تو امارت اسلامی افغانستان پر باقی ممالک کا اعتماد بھی متزلزل ہوجائے گا اور بھارت کی افغانستان میں موجودگی اس خطے کے لیے لاعلاج ناسور ہوگا۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ امارت اسلامی افغانستان یہ اعلان کر دے کہ نہ امارت اسلامی افغانستان، بھارت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ بھارت امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنے کی زحمت کرے۔
اور جس طرح پاکستان کے پاسپورٹ پر لکھا کہ"یہ پاسپورٹ اسرائیل جانے کے لیے کارآمد نہیں " بالکل اسی طرح امارت اسلامی افغانستان کے پاسپورٹ پر لکھا جائے کہ"یہ پاسپورٹ ہندوستان جانے کے لیے کارآمد نہیں " مودی چاہے جتنی ناک رگڑے امارت اسلامی افغانستان بھارت سے کسی قسم کا سفارتی رابط نہ رکھے۔ اگر امارت اسلامی نے ایسا کیا تو یہ اس خطے میں امن اور خوشحالی کے ساتھ چین، روس، اور خصوصاً پاکستان کے ساتھ امارت اسلامی افغانستان کے تعلقات کو آسمان کی بلندیوں پر لے جائے گا۔
اس خطے کے اکثر ممالک خاص کر پاکستان سے بھارت کی نفرت ان کی محمود غزنوی کے جانشین امارت اسلامی افغانستان کے شیروں سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ اس حوالے سے اس سلسلے میں انشاء اللہ امام المجاہدین، امیر المومنین شیخ الحدیث حضرت مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ دامت برکاتہم عالیہ بہترین فیصلہ کرینگے۔ امیرالمومنین کا فیصلہ جو بھی ہوگا وہ حکمت و دانش اور ایک ولی اللہ کی بصیرت پر مبنی ہوگا۔
پوری امت مسلمہ کے ہر فرد کو سجدہ ریز ہوکر امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام پر شکر اور دوام و استحکام اور پورے خطے کے امن استحکام، خوشحالی اور امارت اسلامی افغانستان کے تمام اکابرین کے لیے کامل صحت کے ساتھ عمر خضر اور مزید عزتوں کے لیے دعائیں کرنی چاہیے۔
میں جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں عین اسی وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کابل امارت اسلامی افغانستان پہنچ چکے ہیں جہاں سے ان کی ایک ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کچھ تصاویر بھی وائرل ہوئی ہیں، ان تصاویر کے وائرل ہوتے ہی انڈین میڈیا نے چیخ و پکار کرکے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
اتفاق کی بات ہے جب سے بھارت کے اقتدار پر مودی چائے والا آکر بیٹھا ہے تب سے بھارت کی تاریخ میں چائے کے چرچے کچھ زیادہ ہی ہیں، جس طرح مودی کی شر انگیزیوں سے پوری دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا اسی طرح اس چائے والے کے اقتدار میں بھارت کے لیے "چائے" ایک ڈراونا خواب بن کر رہ گئی ہے بھلے وہ چائے انڈین ایئرفورس کے پاکستان میں زیر حراست پائلٹ ابھی نندن کی ہو یا کابل میں جنرل فیض حمید کی۔ ہر دوسرے چائے کے کپ پر بھارتی سرکار اور گودی میڈیا کو چیخ و پکار کا پورا موقع ملا۔ اس وقت بھی ان دونوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔