یہ بات جون 2019کی ہے جب امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ جاری کی گئی، اس میں پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال کو مجموعی طور پر منفی قرار دیتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ کے تحت "خصوصی تشویش کا حامل ملک" قرار دیا جائے۔
یہ ایک ایسے ملک کے بارے میں نہایت ہی مضحکہ خیز رپورٹ تھی جہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی، سیاسی اور سماجی آزادی حاصل ہے، جہاں پڑوسی ملک میں آباد سکھ کمیونٹی کوپاکستان میں موجود ان کے مقدس مقام گوردوارہ صاحب تک رسائی کے لیے کرتارپور راہداری منصوبہ بنایا گیاجو بین المذاہب ہم آہنگی کی جیتی جاگتی تصویر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کے بارے میں اس قسم کی من گھڑت اور بے بنیاد رپورٹ شائع کیوں کی؟ اسے ایک گہری سازش کانام نہ دیاجائے تو زیادتی ہوگی، ایک ایسی سازش جو ایک بار نہیں بار بار پاکستان کے خلاف ہورہی ہے۔
ذرا ٹائمنگ ملاحظہ کیجیے، یہ رپورٹ جون 2019 میں جاری ہوئی اور مارچ 2019 کو ایک شخص جیل سے "رہا"ہوتا ہے اور اسے سیدھا امریکا بھیج دیا جاتا ہے، اس شخص کو دسمبر 2015 میں اس کی کتابوں کی دکان سے گرفتار کیا گیا، اس کے قبضہ سے ممنوعہ کتب برآمد ہوئیں جنھیں یہ شائع ہی نہیں بلکہ فروخت بھی کرتا تھا، چھاپے کے دوران ثبوت کے لیے ناصرف ویڈیو بنائی گئی بلکہ تصاویر بھی اتاری گئیں اور انھیں کی بنیاد پر عدالت نے اسے آٹھ سال کی سزا سنائی۔
پھر سزا پوری ہونے سے پہلے ہی اسے " رہائی" کا پروانہ مل گیا اور پھر وہ امریکا چلا گیا، اسے امریکی صدر ٹرمپ کے روبرو پیش کردیا گیا جہاں طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق اس نے امریکی صدرکے سامنے وہی طوطا کہانی بیان کردی جو اسے رٹائی گئی تھی، اس نے امریکی صدر کے سامنے پاکستان میں اقلیتوں پر فرضی مظالم کا جھوٹ بولا(ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوچکی ہے)۔ ظلم وستم کی یہ مبالغہ آمیز جھوٹی داستان کسی نے پہلی بار نہیں دہرائی، بلکہ عالمی استعمار کی شہ پر ایسی جھوٹی کہانی کو ایک متعینہ اسٹرٹیجی اور ایجنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرناہوتا ہے۔ انھی جھوٹی کہانیوں کی آڑمیں عالمی قوتیں پاکستان پر دباؤ ڈال کر اپنی شرائط منوانے کا آسان راستہ ہموار کرتی ہیں۔
ایسے لوگ اور طبقے اس طرح پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوں ان کے بارے میں حکومتی حلقوں میں نرم گوشہ رکھنے کی اطلاعات تشویش کا باعث ہیں۔ حال ہی میں ایک کمیونٹی کو اقلیتی کمیشن میں شمولیت کے فیصلے کے بارے میں اطلاعات آئیں۔ یہ خبر 29اپریل کے ایک قومی اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔
جس سے ملک بھر کی دینی قوتوں اور عوام الناس میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی، سوشل میڈیا پر لوگوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار سامنے آیا اور مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسی روز شام تک حکومتی حلقوں کی جانب سے مذکورہ خبر کی تردید آنا شروع ہوگئی، اس عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت کو یوٹرن لینا پڑا۔ بعد ازاں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کا بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کابینہ میں چار پانچ وزراء کی بات کی تھی، بہتر ہوتا کہ موصوف ان وزراء کے نام بھی سامنے لے آتے۔
نہایت ہی عجیب معاملہ ہے ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں اکثریت کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل بیدار رہنا پڑرہا ہے۔ جس کا جب دل چاہتا ہے 95سے اٹھانوے فی صد مسلمانوں کی دل آزاری کردیتا ہے اور جب مسلمان احتجاج کریں تو ریاست بھی بیرونی دباؤ میں نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہر مسلمان اپنے مذہب، مذہبی شعائر اور مقدس شخصیات کے حوالے سے حساس ہوتاہے جن کی شان کے خلاف وہ ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ہوسکتا لیکن یہاں ناصرف ان کے مذہب پر حملے ہوتے ہیں بلکہ شعائر اسلام کا مذاق اور مقدس شخصیات کی توہین بھی کی جاتی ہے۔
اس سلسلے کو روکنے کے لیے مسلمانوں نے ہمیشہ قانون کا راستہ اختیار کیا تاہم کچھ خفیہ ہاتھوں نے ہمیشہ انھیں اس راستے سے بھٹکانے کی کوشش کی۔ اگر ایسا نہیں تو بتائیں کتنے ملزمان بذریعہ عدالت سزا پاکر اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ جب کوئی پکڑا جاتا ہے توحکومتیں فوراً بیرونی دباؤ کے آگے ڈھیر نظر آتی ہیں اور مجرموں کو رہائی دے کر باعزت طریقے سے ملک سے باہر بھیج دیاجاتا ہے، ہر معاملہ شکوک و شبہات سے اٹا نظر آتا ہے۔ یوں تو ہر حکومت میں یہ کام ہوتے آئے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو اپنی پیش رو حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جس دن سے موجودہ حکومت نے مسند اقتدار سنبھالی، اس دن سے ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں جن پر دینی اور مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔
ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست ملک کے تمام شہریوں کی ماں ہوتی ہے، اسے بلاتفریق سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور رکھنا چاہیے بھی، یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں بسنے والے مسیحی، ہندو، سکھ سب کے سب مکمل مذہبی آزادی رکھتے ہیں۔
ریاست ہی نہیں یہاں مسلمان بھی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے حقوق کے محافظ ہیں کیونکہ تمام مذاہب کے لوگ پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں اور اس کے آئین کے آگے سرخم تسلیم ہیں لیکن کیا ریاست کو ان کا بھی اسی طرح خیال رکھنا چاہیے جو ملک کے آئین کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوں، جو ملک کو بدنام کرنے کے لیے من گھڑت کہانیاں دنیا کو سناتے ہوں؟ یا امریکی انتظامیہ اپنی سرزمین پر ایسے گروہ یا ایسے افراد کے ساتھ کیا سلوک کرے گی جو ان کے آئین کو ہی تسلیم نہ کریں؟ یا دنیا کا کوئی بھی ملک ایسے افراد کوکیسے برداشت کرسکتاجو آئین کو ہی نہ مانے؟ اگر دنیا کا کوئی ملک ایسے گروہ یا افراد کو برداشت نہیں کرسکتا تو پھر پاکستان میں ہی یہ سب کچھ کیوں؟ خدا کرے حکومت کے بارے میں ہمارے خدشات درست نہ ہوں لیکن زمینی حقائق جن شکوک و شبہات کوجنم دے رہے ہیں وہ بڑے تگڑے ہیں۔
آخر میں ایک یاددہانی کے طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ عقیدہ ختم نبوت پر ہرمسلمان کا کامل ایمان ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عقیدے کے تحفظ اور دفاع کے لیے دور خلافت راشدہ کے آغاز میں ہی قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کردی گئی۔ اسلامی تاریخ کی ایک اہم ترین جنگ "جنگ یمامہ" ہے، خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جب مسلمانوں کے خلیفہ بلا فصل سیدنا صدیق اکبرؓ نے مسند خلافت سنبھالی تو انھی کے دور میں یہ جنگ لڑی گئی۔
یہ جنگ مسیلمہ کذاب کے جھوٹے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی، جس میں 1200 صحابہ کرام کی شہادت ہوئی تاہم اس فتنے کو جڑ سے ختم کر ڈالا گیا۔ اس جنگ سے قبل خلیفۃ المسلمین سیدناابوبکر صدیق ؓ خطبہ دے رہے تھے "لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے، اہل بدر ہوں یا اہل احد، سب یمامہ کا رخ کرو"۔ نمناک آنکھوں سے وہ دوبارہ گویا ہوئے " مدینہ میں کوئی نہ رہے حتیٰ کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکرؓکو گھسیٹ کر لے جائیں "۔ امیرالمومنین اس قدر جذباتی دکھائی دے رہے تھے کہ انھیں سیدنا علی المرتضیٰؓ نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کی جانب دوڑتے اور مسیلمہ کذاب کا سرتن سے جدا کر ڈالتے۔ یہ بہت عجیب جنگ تھی جس کے بارے میں اہل مدینہ بھی کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم نے اس سے پہلے ایسی جنگ دیکھی نہ بعد میں۔ اس سے پہلے بدر، احد، خندق، خیبر، موتہ وغیرہ میں مجموعی طور پر 259صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، ختم نبوتؐ کے دفاع میں لڑی جانے والی اس جنگ میں 1200صحابہ کرامؓ نے جام شہادت نوش کیا۔
خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰؐ کے تربیت یافتہ صحابہؓ کی اتنی بڑی قربانی قیامت تک کے مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت سمجھا گئی۔ اس جنگ میں انصار کا ایک سردار ثابت بن قیس بھی شامل تھا، چشم فلک گواہ ہے وہ منکرین ختم نبوت کے ہزاروں پر مشتمل لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں بچی جہاں تیر و تلوار کا زخم نہ لگا ہو۔ عقیدہ ختم نبوت کے چوکیداروں اور غداروں کے درمیان اس پہلے معرکے میں مراد رسول عمر بن خطابؓ کے وہ لاڈلے بھائی زید بن خطابؓ بھی شامل تھے جو اسلام قبول کرنے میں صف اول میں شامل تھے۔
انھوں نے اپنے ساتھیوں کو آخری بار مخاطب کیا اور کہا کہ"میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہیں کروں گا جب تک کہ ان غداروں کو شکست نہ دے دوں یا شہید نہ کر دیا جاؤں"۔ اور آپ نے عقیدہ ختم نبوت کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ بنو حنفیہ کا وہ باغ جسے حدیقۃ الرحمان کہا جاتا تھا اس جنگ کے دوران اس باغ میں اتنا خون بہا کہ اسے حدیقۃ الموت کہا جانے لگا۔ جس عقیدے کے دفاع کے لیے خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ؐ کی تربیت یافتہ جماعت نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیے اس پر قیامت تک آنے والے مسلمان کیسے کمپرومائز کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والا ہر ہر مسلمان عقیدہ ختم نبوتؐ کا چوکیدار بن کر کھڑا ہے کیونکہ یہ عقیدہ جان سے بھی عزیز ہے۔