اس کے بعد میں نے فرانزک ٹیم کی توجہ فوراً ان چیزوں کی جانب دلانا شروع کردی جنھیں ہم گھر والوں نے کافی عرصے سے نہیں چھوا تھا لیکن چوروں نے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ ہم جس چیز کی نشاندہی کرتے وہاں موجود حوالدار ہر اس چیز کو اپنے ہاتھ میں اٹھا کر کہتا "یہ تو کوئی ثبوت نہ ہوا"۔
میں نے انھیں بارہا کہا کہ آپ جس طرح ہر چیز کو ہاتھ لگا رہے ہیں ایسے تو چوروں کے فنگر پرنٹس ختم ہوجائیں گے اور ثبوت باقی نہ رہیں گے لیکن بار بار کہنے کے باوجود اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے روایتی انداز میں یہی کچھ کرتا رہا۔ کارروائی مکمل ہونے پر ایف آئی آر میں نقصان کا تخمینہ تقریباً 70 لاکھ روپے درج کیا گیا۔
رات بھر پریشانی کے عالم میں گزری، بہت سے شکوک و شبہات اور وسوسے جنم لیتے رہے۔ بہت سے شواہد کی جانب ذہن متوجہ ہوا۔ اگلی دوپہر کو تفتیشی آفیسر سے کیس سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے وقت مانگا تو انھوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ میرے پاس اور بھی کام ہیں، صرف آپ کا ہی ایک کیس نہیں ہے، جسے سارا وقت دے دوں۔ ہم تفتیشی آفیسر کے اس رویے پر حیرت زدہ ہو کر رہ گئے، دماغ فوراً فلیش بیک میں چلا گیا اورگزشتہ رات والا سارا سین آنکھوں کے سامنے آگیا، جس میں پولیس حوالدار ایک ایک شے کو ہاتھ میں لے کر چوروں کے فنگر پرنٹس ضایع کرتا رہا اور شواہد مٹانے کی اپنی سی کوشش میں مگن رہا۔
ہمارے کہنے کے باوجود پڑوسی خاتون اور چوکیدار کے بیانات تک لینے کی زحمت گوارا نہ کی گئی، اب اصل وجہ ہمارے سامنے آنے لگی۔ ہمارے حلقہ احباب میں جو بااثر دوست تھے ہم نے ان سے اس کیس سے متعلق مدد حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت پچھلی گلی میں ایک مکان پر لگے سرویلنس کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کی جس میں چوروں کو بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ ایک میڈیا ہاؤس کے کرائم رپورٹر سے رابطہ کیا اسے وہ فوٹیج دی اور پولیس کے رویے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
کرائم رپورٹر کے دباؤ کے بعدمتعلقہ ایس ایچ او خود ہمارے گھر آئے اور یقین دہانی کرائی کہ اس کیس کو حل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن افسوس واردات کو کئی روز گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک نہ تو کسی پولیس آفیسر نے محلے کی اس خاتون کا بیان لیا جس نے چوروں کو اپنی آنکھوں سے بھاگتے دیکھا اور نہ ہی چوکیدار کا بیان قلمبند کیا گیا۔ عجب معاملہ ہے کہ لوگ گواہی دینے کو تیار ہیں لیکن کوئی گواہی لینے کو تیار نہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی کوئی پہلی اور انوکھی واردات نہیں، اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 اور جی 14 میں ایسی وارداتوں کا ہونا معمول بن چکا ہے، جس کی بنیادی وجہ جی 13 میں ایک بلند و بالا اپارٹمنٹ بلڈنگ کی تعمیر ہے، جو گزشتہ کئی برسوں سے زیر تعمیر ہے اور اس عمارت کی تیاری میں کم و بیش 2000 مزدور کام کرنے آتے ہیں۔
یہ مزدور کہاں سے آئے، کام کرنے کے بعد ان کی سرگرمیاں کیا ہوتی ہیں، ان کی شناخت اور ان کی نقل و حرکت کی جانچ کا سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک تسلسل کے ساتھ ہونے والی ان وارداتوں میں انھی مزدوروں کا ہاتھ ہے۔ لیکن کوئی ہماری سننے والا نہیں۔
آپ سے التماس ہے کہ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں سے انصاف دلانے میں آپ ہماری مدد کریں۔
والسلام
خادم حسین
اس ایک واقعہ کی روداد نے ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں، ان کے نیچے کام کرنے والے محکمہ پولیس اوردیگر اداروں کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کو اقتدار میں آئے ڈیڑھ سال گزر چکا ہے، وہ جس انصاف کی بلند و بالا عمارتیں عوام کو دکھاتے ہیں آج عوام اپنی آنکھوں سے اس انصاف کی خیالی عمارتوں کو زمین بوس ہوتے روزانہ دیکھ رہے ہیں، پولیس کا روایتی کلچر بدلا نہ تفتیشی افسران کا طرز عمل۔ آج بھی پولیس عوام کی نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کی مددگار ہے۔
آج بھی ہمارے تفتیشی افسران نالائق، نا اہل اورنابلد ہیں، اکثر تفتیشی افسران تو بیچارے انگریزی میں لکھا ہوا وزٹنگ کارڈ نہیں پڑھ سکتے اور ان سے سنگین جرائم کی تحقیقات کا کام لیا جارہا ہوتا ہے۔ کسی تفتیشی افسر کے پاس کیمرہ تو دور کی بات کیمرے والا اچھا موبائل بھی نہیں ہوتا۔ کرائم سین کی فوٹوگرافی نہ کرنا انتہائی افسوسناک بات ہے۔ کرائم سین کو کیسے محفوظ کرنا ہے اس کی سرے سے تربیت ہی نہیں ہوئی۔ ہمارے جج صاحبان بہت اچھے ہیں، پراسکیوٹرز بھی اچھے ہیں، بگاڑ کی جڑ اس ملک کا تفتیشی نظام ہے۔
یہ غیر تربیت یافتہ ہی نہیں بلکہ کرپٹ بھی ہیں۔ وہ جرم کی تہہ تک پہنچنا ہی نہیں چاہتے۔ اکثر تفتیشی کرائم سین پر جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ یہ ہے مبینہ ریاست مدینہ کی پولیس، اور ہمارے میاں میٹھو دانشور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پر قصیدہ خوانی کرتے نہیں تھکتے۔ کاش ان کی دانشوری پیٹ پر آکردم توڑنا چھوڑ دے اور وہ عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں۔
اس افسوسناک صورتحال پر آئی جی اسلام آباد ایکشن لیں، ذمے داری کا تعین کریں اورملوث اہلکاروں کو سزائیں دیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی از خود نوٹس لینا چاہیے کیونکہ کریمنل جسٹس سسٹم کے سب سے بڑے بگاڑ کا سبب پولیس کلچر ہی ہے جس کا خمیازہ ہماری عدلیہ کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
(دوسرا اور آخری حصہ)