اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی سیاست پر مفادات کا پردہ غالب آتا جا رہا ہے لیکن یہ بات قطعی درست نہیں کہ یہاں نظریات کی سیاست مٹ چکی ہے۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ پاکستان کی سیاست صرف مفادات کی سیاست ہے، نظریاتی سیاست کہیں کھو چکی ہے یا منوں مٹی تلے دفن ہوچکی ہے، وہ موجودہ سیاسی منظر نامے کو تعصب کی عینک کے بغیر غور سے دیکھنے کی کوشش کریں اور اپنے اندر حقیقت کو تسلیم کرنے کی جرات پیدا کریں۔
اگر وہ ایسا کریں گے تو اس وقت انھیں پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ایک واضح لکیر کھنچی ہوئی نظر آئے گی جس کی ایک طرف مفادات کی سیاست کرنے والی ابن الوقت سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ہیں جو مفادات کے کھونٹے سے مفاہمت کے نام پر بندھے ہوئے ہیں جب کہ دوسری جانب نظریات کا علم تھامے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور شخصیات ملیں گی۔ قائدین اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر بھی مفادات کے پیچھے بھاگنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی، عوام کی موجودہ سیاسی نظام میں شمولیت، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے سینہ سپر ہیں۔
2018 کے مبینہ طور پر دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے اڑھائی سال میں قوم کو جو تگنی کا ناچ نچایا اور ملک کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کے ازالے میں کئی دہائیاں گزر جائیں گی۔ اس حکومت کو گھر کا راستہ دکھانے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل مولانا فضل الرحمٰن کی سر براہی میں ایک اتحاد تشکیل دیا گیا جس کا نام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا گیا۔
پی ڈی ایم نے متفقہ جدوجہد کے نتیجے میں ملک و قوم کو موجودہ حکومت سے نجات دلانے کا عزم کیا لیکن پیپلز پارٹی شروع دن سے الگ لائن اختیار کرکے پی ڈی ایم اور اس کے فیصلوں کو سبوتاژ کرتی رہی، حقیقت میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی اتحاد کے خلاف رہی۔
لانگ مارچ کا معاملہ ہو یا اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا مسئلہ، پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں سے علیحدہ ہی کھڑی نظر آئی۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی نشست جو پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق مسلم لیگ (ن)کے حصے میں آرہی تھی، اسے حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے باپ پارٹی کے چند سینیٹرز کو اپنے ساتھ ملا کر وہ سیٹ ہتھیالی، پیپلز پارٹی کا یہ اقدام حقیقت میں پی ڈی ایم کی تحریک میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی اور اس کی ہم نوا اے این پی کو شو کاز نوٹس جاری کردیا۔
یہ ہے موجودہ پیپلز پارٹی کا اصلی روپ، جو قطعی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی ایک نظریاتی جماعت سے مختلف ہے کیونکہ آج کی پیپلز پارٹی نظریاتی نہیں مفاداتی ہے۔ بھٹو کی پارٹی بائیں بازو کی نظریاتی پارٹی تھی لیکن بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہی اسے گڑھی خدا بخش کے صحن میں دفن کردیا گیا تھا، اس وفاقی پارٹی کی باگ ڈور بھٹو خاندان سے نکل کر زرداری خاندان میں چلی گئی، یوں پیپلز پارٹی کا بھٹو، بھٹو کے افکار اور بھٹو کے فلسفے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
یہی وجہ ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی نظریات کی۔ سے بھی آشنا نہیں، اگر وہ آشنا ہے تو صرف باپ سے، اسی لیے باپ بیٹے نے مل کر باپ کے حکم پر باپ پارٹی کو ساتھ ملایا اور متحدہ اپوزیشن کو نقصان پہنچایا۔ حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے اور باپ بیٹا اب اس پارٹی میں انتظامی امور کے نگران بن کررہ گئے ہیں۔
آیئے!اب جماعت اسلامی پاکستان کی بات کرتے ہیں، پاکستان کی بڑی دینی قوتوں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے جماعت اسلامی کے بغیر یہ ذکر ادھورا رہتا ہے، ایک زمانہ تھاجب جماعت ایک بڑی طاقت کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی تھی، اس کے پاس سب سے منظم اسٹریٹ پاور تھی، خصوصاً پنجاب میں اس کا طوطی بولتا تھا لیکن آج کی جماعت اسلامی کا حال پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا ٹیگ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد لگا لیکن جماعت اسلامی کے پاس یہ ٹائٹل پرانا ہے۔
جماعت اسلامی کا طرز سیاست شروع سے یہی ہے کہ یہ اہم قومی ایشوز پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے مبہم اور غیر واضح لائن اختیار کرتی ہے اور پھر جس طرف کی ہوا چلے اسی طرف اپنا رخ موڑ لیتی ہے۔ اس وقت بظاہر یہ جماعت خود کو ایک غیر جانبدار سیاسی جماعت کے طورپر پیش کرنا چاہ رہی ہے لیکن عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جماعت بھی باپ کے اثر سے باہر نہیں، اس کی تازہ ترین مثال سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے یوسف رضا گیلانی کی حمایت ہے۔ یہ رویہ اسے عوام میں غیر مقبول بنانے کا سبب بنا ہوا ہے۔ ماضی میں جماعت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردے کر اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک جسے بعد میں تحریک نظام ِ مصطفیﷺ کا نام دیاگیا جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی لیکن بعد میں جب جنرل ضیاء الحق ذوالفقارعلی بھٹو کی منتخب حکومت کو ہٹا کر اقتدار پر خود متمکن ہوگئے تو جماعت اسلامی بھی ان کی کابینہ میں شامل تھی۔ ایم ایم اے میں اختلافات پیدا کرکے اس اتحاد کو اختتام پذیر کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت کو جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی جڑیں مضبوط کرانے کا کارنامہ بھی جماعت ہی کے حصے میں آتا ہے، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں جماعت اسلامی عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی اتحادی تھی۔ میرے خیال میں جتنا نقصان پی ٹی آئی کے ساتھ شراکت داری نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچایا کسی دوسرے فیصلے نے نہیں پہنچایا، یہ ایک غیر فطری اتحاد تھا کیونکہ جماعت اسلامی نے اپنے کارکنان کی جن خطوط پر تربیت کی تھی۔
تحریک انصاف اس معیار پر پورا نہیں اترتی تھی مگر جماعت اسلامی تحریک انصاف سے چمٹی رہی اور نتیجتاً کارکنوں کے علاوہ جماعت اسلامی کے اراکین بھی اسے خیر آباد کہنے لگے اور دیر جیسے جماعت اسلامی کے گڑھ میں جماعت اسلامی اپنے پکی سیٹوں کو نہ بچا سکی۔ میرے خیال میں جماعت اسلامی کی قیادت کو اب بھی پتا نہیں کہ تحریک انصاف نے ان کو کہاں پہنچا دیا ہے۔ اگر 2018 کے الیکشن میں جماعت اسلامی اکیلے پرواز کرتی اور ایم ایم اے کا حصہ نہ بنتی تو شاید پورے خیبر پختونخوا میں ایک سیٹ بھی نہ ملتی اور ووٹوں کی تعداد بھی ان کی توقعات سے بہت کم ہوتی۔
جماعت کی قیادت جب سید منور حسن کے پاس آئی جو صحیح معنوں میں ایک نظریاتی لیڈر تھے۔ انھوں نے اپنے ویژن کے مطابق جماعت کو چلانے کی کوشش کی تو "صالحین" کے ایک گروپ نے انھیں ہٹا کر سراج الحق صاحب جیسے درویش صفت بندے کو امیر بنا دیا تو ایک بار پھر کارکنان نے توقعات وابستہ کر لیں۔
سراج الحق صاحب نے ملک بھر کے طوفانی دورے کیے اور جماعت اسلامی کو ایک بار پھر قاضی حسین احمد مرحوم کے طرز پر عوامی رنگ دینے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وجہ صرف ایک کہ جماعت اسلامی آج بھی اپنے کارکنان کے منشاء کے برعکس فیصلوں کی اپنی سابقہ روش اختیار کیے ہوئے "پرو اسٹیٹس کو" پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی بظاہر غیر جانبدارانہ اور مصالحانہ پالیسی کی وجہ سے لوگ اسے عمران خان حکومت کا ساتھی سمجھتے ہیں جس وجہ سے سیاسی طور پر جماعت کو نقصان ہوا ہے۔ نتیجتاً جماعت اسلامی ایک مذہبی یا سیاسی جماعت کے بجائے ایک این جی او بن کر رہ گئی ہے۔