نیکیوں کا موسم بہار اپنی پوری رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ایک بار پھر آگیا ہے، الحمدللہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسلمان رمضان المبارک کے روزے رکھ کراور عبادات کے ذریعے اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے حقدار بننے کے لیے کوشاں ہیں۔ روزے کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں۔
گیارہویں صدی کے عظیم عالم دین امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " صوم کے اصل معنی کسی کام سے رک جانے کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا گفتگو کرنے اور چلنے پھرنے سے، اسی بنا پر گھوڑا چلنے یا چارہ کھانے سے رک جائے تو اسے "صائم" کہا جاتا ہے۔ تھمی ہوئی ہوا اور دوپہر کے وقت کو بھی " صوم " کہتے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ کہ اس وقت سورج وسط آسمان پر رک جاتا ہے۔" امام راغب کی اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز سے رک جانے کی کیفیت کا نام روزہ ہے۔
حضور نبی اکرمﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دْعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ حضور نبی اکرمﷺ اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے۔
"کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟ "
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسولﷺ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔"سبحان اللہ سبحان اللہ۔ رمضان المبارک کی پہلی رات گزر چکی ہے اور اللہ کریم نے اس حدیث کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو بخش دیا ہوگا۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شعبان سے ہی رمضان کی تیاری شروع فرما دیتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
"شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔"
یوں تو تمام عبادات قرب الٰہی اور مالک حقیقی کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں لیکن ماہ صیام کے روزوں کی فضیلت کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے۔ رمضان المبارک کی شان سب سے نرالی ہے اور اس کی برکتوں، رحمتوں، نعمتوں اور سعادتوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔
اللہ ربّ العزت اور اس کے حبیب حضرت محمدﷺ نے اس ماہ مبارک کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ پورے سال رمضان ہی رہے۔
اس مبارک مہینے کی فضیلت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول بھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے۔
ماہ رمضان مقدس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی اجتماعی فضا و ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں روئے زمین کے چپے چپے پر خشیت الٰہی کی روح پرور کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور روزے داروں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ماہ رمضان کے ایام میں بالعموم لوگوں میں گناہوں سے توبہ اور صدقہ وخیرات کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔
ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، مساکین کوکپڑے پہنائے اور ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے۔ اس اعتبار سے رمضان کا مبارک مہینہ خیرو ہمدردی کی علامت اور اسلامی معاشرے میں مساوات کے فروغ کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔
روزے کی حالت میں مسلمان دن بھر کھانے پینے سے رک جاتے ہیں، اس لیے اسے صوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صوم کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کریم چاہتا ہے کہ اس کے روزے دار بندے گناہوں کے ارتکاب سے پوری طرح بچ جائیں، زبان جھوٹ بولنے اور غیبت کرنے سے رک جائے۔ کان لغو باتیں نہ سنیں، پاؤں غلط راستے پر نہ چلیں، نگاہیں حیا دار بن جائیں، سوچ پاکیزہ و معطر ہوجائے۔ ہر مسلمان شب زندہ دار، عبادت گزار اور گناہوں سے بچنے والا بن جائے۔ ہمنیکی کریں ریا کار نہ بنیں، لوگوں کے ساتھ احساس کا معاملہ کریں اس کا پردہ رکھیں۔
یہاں ہمیں علم و ادب کے معروف باباجی اشفاق احمد مرحوم کی کچھ باتیں یاد آرہی ہیں، ویسے تو اشفاق احمد مرحوم کے ایک باباجی تھے جن کا ذکر وہ اپنی کتابوں اور پاکستان ٹیلی ویژن کے شہرہ آفاق پروگرام مذاکرہ کی بے شمار نشستوں میں کیا کرتے تھے لیکن وہ خود اپنے ہزاروں چاہنے والوں کے باباجی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ نیا نیا دین پڑھنا شروع کیا تھا۔ نمازیں وقت پر ادا ہونے لگیں، اذکار، نوافل، تلاوتِ قرآن۔ میوزک کی جگہ دینی لیکچرز، پردہ۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی۔ زندگی میں سکون تو تھا ہی لیکن اب سکون کی انتہا ہونے لگی۔ تشکر سے دل بھر گیا۔ جہاں ایک طرف سب کچھ perfection کی طرف جا رہا تھا، وہاں ساتھ ہی ایک بہت بڑی خرابی نے ہلکے ہلکے دل میں سر اٹھانا شروع کیا۔
تکبر!
جی۔ یہی شیطان کی چالیں ہیں۔ اول تو وہ دین کی طرف آنے نہیں دیتا۔ اگر اس مرحلے میں ناکام ہو جائے تو ریا کاری کروا کے نیکی ضایع کرواتا ہے، دل میں تکبر ڈال کر ضایع کرواتا ہے۔ مجھے یہ تو نظر آتا تھا کہ فلاں نے تین ہفتے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں کی تو اس کے دل پر مہر لگ گئی ہے، مجھے یہ بھول جاتا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک طوائف کو پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا۔ مجھے یہ تو دکھائی دیتا کہ فلاں لڑکی نے پردہ نہیں کیا، مجھے یہ بھول جاتا کہ رائی جتنا تکبر مجھے کہیں جہنم میں نہ گرا دے۔
مجھے یہ تذکرہ کرنا تو یاد رہتا کہ فلاں نے داڑھی رکھ لی اور نماز ادا نہیں کی، مجھے یہ بھول جاتا کہ کسی کی غیبت کر کے مردار بھائی کا گوشت کھانے کا مرتکب تو میں بھی ہو رہا ہوں۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ یونہی چلتا رہا۔ پھر ایک بار کسی نے بڑے پیارے انداز میں ایک قصہ سنایا۔ قصہ ایک فقیر کا تھا۔ وہ مسجد کے آگے مانگنے بیٹھا۔ نمازی باہر نکلے تو انھیں اپنی نمازوں پر بڑا زعم تھا، فقیر کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ وہاں سے اٹھ کر فقیر مندر گیا، پجاری باہر آئے تو اس کے ساتھ وہی سلوک یہاں بھی ہوا۔
تنگ آ کر وہ شراب خانے کے باہر بیٹھ گیا جو شرابی باہر آتا اور اسے کچھ دے دیتا، ساتھ میں دعا کا کہتا کہ ہم تو بڑے گناہگار ہیں، کیا پتا تجھے دیا ہوا ہی بخشش کا باعث بن جائے۔ مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ گناہ کر کے شرمندہ ہونا نیکی کر کے تکبر کرنے سے بہتر ہے۔
یہ قصہ میرے لیے turning point ثابت ہوا۔ ہم سب کو اپنے آپ کا جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔ ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں لیکن judgement کا کام رب کے لیے چھوڑ دیں۔ نیکی کا کام دل میں امت کا درد اور محبت لے کر کرنے سے ہو گا، اپنے آپ کو باقیوں سے برتر سمجھ کر نہیں۔ کانٹے بچھا کر پھولوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ نفرتیں پھیلا کر محبتیں کیسے سمیٹی جا سکتی ہیں؟ دوسروں کی اصلاح کریں لیکن اپنے رویے پر کڑی نگاہ رکھنا۔ افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے اسی سماج میں کچھ ایسے مسلمان بھی ہیں جو رمضان کو غریب مسلمانوں کے لیے زحمت بنانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ میری مراد وہ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز ہیں۔
وطن عزیز جس کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھالیکن یہاں ہر وہ کام دیدہ دلیری سے ہوتا ہے جس کی اسلام نے نفی کی۔ حکومتیں یا تو ایسے لوگوں کی آلہ کار بنی نظر آتی ہیں یا نااہل ہوتی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں اور بیڈ گورننس کی وجہ سے پہلے ہی ہر چیز کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے تھے، چینی و آٹا چوروں نے اودھم مچا رکھا تھا رہی سہی کسر رمضان کے نام پر ہونے والی مہنگائی نے پوری کردی۔
سستے رمضان بازاروں میں روزے دار دن بھی خوار ہوکر غیر معیاری اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی رٹ ہی نہیں حکومت بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی، ایسے حالات میں مسلمانوں کے اندر احساس کا جذبہ پہلے سے زیادہ بیدار نظر آنا چاہیے تاکہ کسی غریب مسلمان کے لیے رمضان زحمت نہ بنے رحمت ہی رحمت رہے۔
آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ اس وقت ہم عالمی وباء کورونا کی تیسری لہر کا شکار ہیں۔ جہاں کورونا ایک حقیقت ہے وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی اور موت، بیماری اور شفا اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس یقین کے ساتھ رجوع الی اللہ کرنا چاہیے کہ وہی مالک کل کائنات ہمیں اس موذی مرض سے نجات دلائے گا۔
رمضان المبارک رجوع الی اللہ کے لیے بہترین مہینہ ہے، لہٰذا ہمیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کو راضی کرنا چاہیے۔ حکومتیں ایس او پیز کے نام پر مساجد پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ کریں بلکہ اعتکاف کے لیے لوگوں کو ماحول میسر کیا جائے۔ پابندی لگانی ہے تو منڈیوں اور بازاروں میں لگائیں جہاں ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، رمضان المبارک کے دوران مساجد کو آباد رکھنے کے لیے اہتمام کیا جائے۔