پاکستان کی تاریخ میں ستمبر کا مقام و مرتبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ ماہِ ستمبر میں طویل جدوجہد اور لازوال و بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں وطن عزیز کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنا کر دشمنان پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستانی قوم ان دونوں محاذوں پر چوکنا کھڑی ہے، اگر کوئی پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر نقب لگانے کی کوشش کریگا تو اسے ناکامی و نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے دشمنوں کے لیے ستمگر ہے۔
ماہِ ستمبر تیس دنوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے چھٹے اور ساتویں دن کو جو اعزاز حاصل ہے وہ کسی اور دن کو نہیں، چھ ستمبر 1965 کو پاکستان کی مسلح افواج نے رات کی تاریکی میں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو پامال کرنے کی کوشش کرنے والے ازلی و ابدی دشمن بھارت کو دھول چٹائی۔ اس عظیم دن کو عسکری اعتبار سے دنیا کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی، جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی قوت کے لحاظ سے کئی گنا بڑے لشکر اور بھاری دفاعی ساز و سامان کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا۔
اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے اور اسے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اس جنگ سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ جب قومیں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر متحد انداز میں میدان عمل میں قدم رکھتی ہیں توبڑی سے بڑی طاقت بھی انھیں زیر نہیں کرسکتی۔ پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اورجانثاری کے جرآت مندانہ جذبے نے ملکر نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایا اور وطن عزیز کے چپے چپے کی نگہبانی کا حق ادا کردیا۔
چالاک اور مکار دشمن نے جس شاطرانہ انداز میں ہم پر جنگ مسلط کی تھی یہ پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین، دوقومی نظریہ، قومی اتحاد اور حب الوطنی کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اْسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔ جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکری طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اور مقصد تھا۔
تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔ اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار، مزدور، کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ " اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا"۔ اس جنگ کا جس پہلو سے بھی جائزہ لے کر دیکھ لیں آپ کو ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوگی اور آپ ورطہ حیرت رہ جائیں گے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان نے وہ کون سا عنصر اور جذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا۔
"رن آف کچھ"دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد ہے جس پر طے شدہ قضیہ کو ہمسایہ ملک نے بلا جواز اٹھایا جس پر فوجی تصادم کے نتیجہ میں اس نے ندامت اٹھائی تو یہ اعلان کر دیا کہ آیندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کیے لیکن دشمن کی چالاکی و مکاری نے خبردار ضرور کررکھا تھا، اسی لیے اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان، افسراور سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبہ حب الوطنی سے لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اْٹھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے "پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے"۔ ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں۔ افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ ورانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں، انھیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔
ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں ناشتہ کریں گے۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔ چونڈہ ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھاجہاں دشمن بھاری اسلحے اور ٹینکوں کے ساتھ گھس آیا لیکن پاک فوج کے جوانوں نے اس اہم محاذ کو اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستانی فوج اور ٹینکوں کے لیے قبرستان میں بدل دیا۔ دشمن آج بھی اس شکست سے خوفزدہ ہے اور اسی خوف نے اس کے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے روک رکھا ہے۔
سات ستمبر 1974 کو تمام مکاتب فکر کی اجتماعی جدوجہد میں عقیدہ تحفظ ختم نبوت کا مسئلہ طے پاگیا۔ اس وقت مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا غلام غوث ہزاروی جیسے علماء اور سیاسی اکابرین قومی اسمبلی میں موجود تھے۔ 30جون 1974 کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی کی جانب سے متفقہ طور پر ایک قرارداد پیش کی گئی جب کہ 44ممبران قومی اسمبلی کے دستخطوں سے پارلیمنٹ میں ایک بل بھی پیش کر دیا۔ قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کربل پر بحث شروع ہوئی آخر کار7ستمبر 1974 کوقومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے متفقہ طور پر اس وقت کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیر زادہ کے ذریعے آئینی ترمیم پیش کی گئی۔
4بجے اس کا فیصلہ کن اجلاس ہوااور 4بجکر 35منٹ پرمتفقہ فیصلہ آ گیا۔ اسی مناسبت سے سات ستمبر کو تحفظ عقیدہ ختم نبوت کا دن منایا جاتا ہے، اس بار بھی تمام مکاتب فکر کی جماعتوں، ملک بھر کی مساجد و مدارس نے بھرپور انداز میں یہ دن مناکر جذبہ ایمانی کا ثبوت دیا، علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء نے اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا اور نسل نو تک تحریک ختم نبوت کو منتقل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا اجتماع یوم الفتح، تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے پشاور میں ہوا جس کا اہتمام جمعیت علماء اسلام نے کیا لاکھوں عشاقان پیغمبر اسلام ﷺ کے اس اجتماع کی صدارت جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کی۔
اس عظیم الشان اجتماع سے مولانا عبد الواسع، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہ اویس نورانی، پروفیسر ساجد میر، مولانا محمد امجد خان، مولانا اللہ وسایا، مولانا اسد محمود، مولانا عطاالرحمان، مفتی شہاب الدین پوپلزئی، مولانا راشد سومرو، مولانا سعید یوسف ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا کہ ہم پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے چوکیدار ہیں، دشمن کسی بھی محاذ پر کسی بھی انداز سے آئے ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کرکھڑے ہیں، دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیں گے۔
چھ اور سات ستمبر کے یہ اجتماعات دیکھ کر حوصلہ بھی ہوااور خوشی بھی کہ پاکستانی قوم ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کرمتحد ہو کر دشمن کوناکوں چنے چبوانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اس لیے دشمن پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔