کسی کو یہ کہنے اور پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے" ایکشن ری پلے تھا۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نون لیگی حکومت کے خلاف ایک ریلی لے کر اسلام آباد کی طرف آ رہے تھے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے آئی جی مشتاق سکھیرا کے ساتھ مل کر اٹک پل کو محاذ بنا دیا۔ اشک آور گیس کے اتنے کارتوس داغے گئے کہ خول کا ڈھیر لگ گیا۔ فضا میں دھواں ہی دھواں بھر گیا۔ تب ہم نے مسلم لیگ نون کی حکومت اور اس کی قیادت کو یاد دلایا کہ یہ جمہوری اصول اور طریقہ نہیں۔ تین روز قبل سرکاری ملازمین نے اسلام آباد میں مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مہنگائی ہونے پر ان کو گھر چلانے میں مشکل پیش آ رہی ہے اس لئے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ سرکاری ملازمین سے مذاکرات کیوں ناکام ہوتے رہے اور کون لوگ حالات کو اس نہج پر لے گئے کہ مظاہرین اور پولیس لشکر بن کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ یہ تفصیل ابھی رہنے دیں۔ بس اس سفید دھوئیں کو دیکھیں جس میں سڑکیں، عمارات اور درخت چھپ گئے۔ ہر چیز اشک آور دھوئیں میں اوجھل ہو گئی، جو نظر آیا وہ بس عقل کا ماتم تھا۔
پاک سیکرٹریٹ میں متعدد وفاقی وزارتوں کے دفاتر ہیں۔ ان دفاتر میں بہت سے چھوٹے بڑے سرکاری ملازم کام کرتے ہیں۔ ایک ذریعہ بتا رہا ہے کہ کابینہ کے کچھ اراکین نے وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سابق حکومتوں نے جن بہت سے چہیتے کارکنوں کو سیکرٹریٹ میں بھرتی کیا وہ اب اپنی جماعتوں کے کہنے پر تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بتایا گیا کہ یہی ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کی آڑ میں حکومت کو بدنام کر رہے ہیں، ہمارے ذرائع تو یہ بتاتے ہیں کہ حکومت پی ڈی ایم کی تحریک کی وجہ سے انتظامی مسائل سے عاجز ہے۔ ایسی رپورٹس پہلے ہی وزیر اعظم تک پہنچ چکی ہیں کہ اہم اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں کی تفصیلات اپوزیشن جماعتوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ معلومات کیسے لیک ہوتی ہیں، کون کرتا ہے یہ جاننا حکومت اور اس کے ماتحت انٹیلی جنس اداروں کا کام ہے۔ پہلے مولانا کا دھرنا، پھر پی ڈی ایم کے جلسوں کا رائونڈ اور اب مارچ میں نئی احتجاجی تحریک کی باتوں کے باعث وزیر اعظم حالات خراب کرنے کی ہر کوشش کو سیاسی سازش سمجھنے لگتے ہیں، اس صورتحال نے ملازمین اور پسے ہوئے طبقات کو جائز احتجاج کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کا اپنا مسئلہ ہے۔ اس نے ہر طرح سے سماجت کی لیکن عوام سے مطلوبہ حمایت نہیں مل سکی۔ پی ڈی ایم قیادت نے جب ہڑتالی ملازمین کی حمایت کا اعلان کیا تو وزیر اعظم کو ان وزراء کی بات درست معلوم ہونے لگی جو مظاہرین کی پشت پر اپوزیشن کو دیکھ رہے تھے۔ اس سارے معاملے نے حکومت کو مظاہرین کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا راستہ دکھایا۔
عمران خان نے اپنی انتخابی مہم ایک موٹیوشنل سپیکر کے طور پر چلائی۔ انہوں نے ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی کو جب کبھی جمہوری اصولوں پر پرکھا تو ان حکومتوں میں عوام کی بنیادی آزادیوں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ بدعنوانی اور احتساب کے معاملات پر انہوں نے بے لچک رویے کا اظہار کیا، عمران خان انتظامی خرابیوں کا جب کبھی ذکر کرتے ساتھ اعلان کرتے کہ انہیں اقتدار ملا تو وہ بیورو کریسی اور نچلے سرکاری ملازمین کے لئے اصلاحات لائیں گے۔ عمران خان کو اقتدار مل گیا۔ امید لگی کہ جب وہ پہلے ایک سو دن کا پلان دیں گے تو مختلف شعبوں میں اصلاعات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ سو دن کسی خاص تاثر اور کارکردگی کے بغیر گزر گئے۔ پھر ایک ایک کر کے کئی سو دن بیتے۔ اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں پے اینڈ پنشن کمشن قائم کیا، ڈاکتر عشرت حسین کے ذمے بیورو کریسی میں اصلاحات کا کام بھی ہے۔ ڈھائی برس ہوئے اس کمشن نے تنخواہوں اور پنشن کا کوئی قابل عمل منصوبہ پیش کیا نہ انتظامی اصلاحات کی شکل دکھائی۔ اس کمیشن اور اصلاحات کے لئے سوچ بچارپر قرضوں میں جکڑے پاکستان کے بھاری وسائل خرچ ہو رہے ہیں، کیا حکومت کی مدت ختم ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے تاکہ اگلی حکومت پر ان اصلاحات کے نفاذ کا بوجھ ڈال کر عشرت حسین رخصت ہوں۔ جانے عمران خان نے کتنے وسیم اکرم پلس اپنے اردگرد جمع کر رکھے ہیں۔
بارہا لکھا کہ ہم جس نظام کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں یہ جمہوریت نہیں۔ کچھ خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے تنظیمیں بنائی گئی ہیں۔ جنہیں سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ کرایا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کارکنوں کو صرف بریانی اور نان پر نہیں لگاتیں۔ ہمارے ایک دوست نظریاتی سیاسی کارکن ہیں، ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے غیر جمہوری طاقتوں نے عوام کو حقیقی اقتدار منتقل نہیں کیا۔ صاحب اس بات پر دکھی ہیں کہ پہلے غریب آدمی اپنی جیب سے خرچ کر کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتا، بھوک لگتی تو جو اردگرد سستا کھانا ملتا کھا لیتے۔ اب کارکن تنخواہ دار ہیں۔ قیادت ان کے ذریعے اپنے مفادات کا سلسلہ روکنا نہیں چاہتی۔
یہ بات خوش آئندہے کہ اگلے روز احتجاجی ملازمین کی تنخواہوں میں پچیس فیصد عبوری اضافے کا معاہدہ کر کے دارالحکومت کو ہنگامے سے محفوظ کر لیا گیالیکن اس دوران سٹاک مارکیٹ588 پوائنٹس گر گئی، ایک کھرب 19ارب روپے کا نقصان ہو گیا۔ اچھے فیصلے وہی ہوتے ہیں جو نقصان سے بچا لیں۔ محترم وزیر اعظم ڈیٹا نکال کر جائزہ لیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے خلوص نیت سے فیصلے کیئے ہوں گے لیکن یہ نقصان سے نہیں بچا سکے۔