Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aik Tajir Ka Jamhoori Karobar

Aik Tajir Ka Jamhoori Karobar

اگر کوئی نوازشریف سے پوری طرح واقف نہ ہو تو اے پی سی سے ان کے خطاب کو ایک ایسے عظیم رہنما کے خیالات تصور کرے گا جو جمہوریت کی بالادستی کے لیے اپنی جان، مال اور اولاد قربان کرنے کا عزم رکھتا ہو۔ جناب شہباز شریف اور مریم نواز نے جس طرح نوازشریف کی تقریر کو ایک تاریخ ساز واقعہ بنا کر پیش کیا اور ن لیگی رہنما جس طرح واہ واہ کر رہے ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف فوج سے زیادہ طاقتور ہیں۔ ایک دن پہلے شہباز شریف بلاول بھٹو اور چھوٹے مولانا آرمی چیف سے مل کر آئے، کیوں ملے؟ حکومت کی شکائت کی ہوگی، فوج کی تابعداری کا یقین دلایا ہوگا، کوئی ضمانت دی ہوگی۔ عمران خان مگر ہوشیار نکلے نواز شریف کی تقریر براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے کر آرمی چیف کو بتا دیا کہ نواز شریف کا کوئی ضامن قابل بھروسہ نہیں۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ منتخب حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ آئیے آپ کو وہ منظر دکھاتے ہیں جہاں سابق منتخب وزیراعظم کچھ کام کرنا چاہتے تھے۔

طورخم کے پاس پاک افغان سرحد پار کریں تو تھوڑا دور افغانستان کا وہ علاقہ آ جاتا ہے جہاں لوہے کے وسیع ذخائر ہیں۔ بھارت عالمی مارکیٹ میں لوہے کا بڑا تاجر ہے۔ سجن جندل اور متل جیسے سرمایہ دار عالمی سطح پر پہچان رکھتے ہیں۔ بھارت چاہتا تھا کہ یہ لوہا پاکستان کے راستے واہگہ تک آئے اور وہاں سے اسے چندی گڑھ پنجاب میں قائم سٹیل مل میں بھیج دیا جائے۔ یہ مل کراچی کی پاکستان سٹیل ملز کے حجم کی تجویز کی گئی تھی۔ نوازشریف کے صاحبزادے اس ڈیل میں شریک تھے۔ اس منصوبے کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا تھا۔ بھارت کا سر کڑاہی میں تھا۔ دشمن کو معاشی فائدے سے محروم رکھنا دفاعی حکمت عملی کہلاتا ہے۔ امریکہ ایران کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے دے گا، بھارت پاکستان کی معیشت پر حملہ کرتا ہے، سی پیک کو ناکام بنانے کی سازشیں کرتا ہے، چین کی کمپنیوں کو صدر ٹرمپ بند کرتے ہیں۔ پاکستان نے بھی ایسا کیا۔ اس منصوبے کو سکیورٹی کلیئرنس نہ ملی۔ نوازشریف نے اسے سکیورٹی کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے تاثر دیا کہ خاکی ادارے حکومتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

نوازشریف کشمیر، افغانستان، بھارت اور دہشت گردی کے امور کو ایسی پالیسی میں ڈھالنا چاہتے تھے کہ ان کے خاندانی کاروبار کی ترقی ساتھ ہی لازم ہو جائے۔ بھارت، امریکہ اور چند عرب انٹیلی جنس اداروں نے نوازشریف کو گھیر لیا تھا۔ ان طاقتوں کے زیر اثر رہنے والے ن لیگی رہنما نوازشریف کو باور کراتے رہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اب وہی ایک ایسے دلیر اور مدبر رہنما ہیں جو جمہوریت کو آمرانہ قوتوں سے بچا سکتے ہیں۔ نوازشریف خاندان کبھی نہیں بتائے گا کہ تھائی لینڈ کی خوبرو وزیراعظم ینگ لک کے ساتھ کون سے کاروبار میں شراکت داری کی گئی۔

سکیورٹی اداروں کو ایسی رپورٹس ملنا شروع ہو گئیں جن میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نوازشریف اکثر اہم ملاقاتوں اور فیصلوں کو اپنے سٹاف سے چھپاتے ہیں۔ وزارت خارجہ میں انہوں نے ایک انوکھا انتظام یہ کیا کہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کو بیک وقت خارجہ امور کی مشاورتی ذمہ داریاں تفویض کر دیں۔ دونوں بزرگ دفتر خارجہ پرکنٹرول کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے۔ ملک کو نقصان یہ ہوا کہ وہ سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا چلا گیا جبکہ نوازشریف کو فائدہ ہوا کہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کی گروہ بندی کے باعث خارجہ امور نوازشریف کے براہ راست احکامات سے چلنے لگے۔ نوازشریف نے بغیر ویزہ وزیراعظم مودی کو بلا لیا۔ انہوں نے بیان جاری کیا کہ ممبئی حملے پاکستان کے لوگوں نے کئے۔ نوازشریف نے اور بھی کئی بیانات جاری کئے۔ نوازشریف کو کئی بار یاد دہانی کرائی گئی کہ وہ بھارت کی چالوں میں نہ آئیں۔ باقاعدہ وزیر خارجہ کے بغیر چار سال تک ملک چلانے کی وجہ شریف خاندان کے کاروباری معاملات تھے۔ جی ایچ کیو کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت بدلتی سکیورٹی صورت حال سے وزیر خارجہ کو آگاہ رکھے۔ وزارت خارجہ وزیراعظم نوازشریف کے پاس تھی جو اہم معاملات پر بریفنگ لینے میں دلچسپی ظاہر نہ کرتے۔

جنرل جیلانی کے دور سے نواز شریف نے سیکھ لیا کہ افسران کو کیسے خوش رکھ کر اپنی لابی مضبوط بنانی ہے۔ غیر اہم ممالک میں سابق جرنیلوں کو سفیر لگا کر نوازشریف نے سکیورٹی لابی میں اپنے خلاف بھڑکنے الائو کو کم کرنے کی کوشش کی۔ نوازشریف ریاست کے تمام سٹیک ہولڈروں کو ایک خاص سطح کے انتظامات پر مطمئن کرنے کے بعد اپنے کاروباری ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں۔ نوازشریف جب مداخلت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ریاستی معاملات میں فوج کی مداخلت نہیں بلکہ حکومتی وسائل پر اپنے خاندان کی بہبود، فوائد سمیٹنے اور ناجائز مراعات کو روکنے کی کوشش ہوتا ہے۔ مداخلت کی بات ہوتی تو نواز شریف اور راحیل شریف نے مل کر نیشنل ایکشن پلان اور کراچی میں آپریشن جیسے قابل تعریف جو منصوبے پیش کئے ان پر بھی نواز شریف اعتراض کرتے۔ شریف خاندان کی ملز کے ساتھ کروڑوں روپے سے نالہ عوامی خزانے سے بنا، اعتراض پر مداخلت کا الزام۔ حکومتی پوزیشن اور اختیار کا استعمال کر کے اپنے خاندان کے سٹیل بزنس کو بھارت کی شراکت داری میں لانے سے روکا گیا تو مداخلت کہلایا۔ نوازشریف کی تقریر ایک ایسے شخص کے خیالات تھے جو تین بار وزیراعظم بنا اور اپنے خاندان اور چند ساتھیوں کے سوا کسی کو ایسے کاروباری مواقع فراہم نہ کئے جو قومی سرمائے کو بین الاقوامی سرمائے میں بدلتے۔ انہوں نے کاروبار کرنے والوں کو عالمی منڈی میں جانے سے روکا۔ ملکی معیشت تباہ کرنے میں ان کا ہاتھ ہے۔ نوازشریف کو جمہوریت، آمریت، آئین کی بالادستی سے کوئی دلچسپی تھی نہ اب ہے، انہیں اپنے خاندان کے کاروباری مفادات کے تحفظ کی خاطر سیاست میں لانچ کیا گیا، وہ آج تک یہی کردار ادا کر رہے ہیں۔