ہمارے اسلامیہ کالج سول لائنز کا کھیلوں میں جوڑ ہمیشہ گورنمنٹ کالج سے پڑ جاتا۔ خاص طور پر کرکٹ، باکسنگ، ہاکی، جمناسٹک اور ایتھلیٹکس کے مقابلوں میں کبھی وہ جیت جاتے کبھی ہم۔ باڈی بلڈنگ اور کبڈی میں ہم نے کبھی گورنمنٹ کالج کو جیتنے نہ دیا۔ میں کالج کی ان دونوں ٹیموں کا حصہ تھا۔ ایک بار کسی مقابلے کے سلسلے میں ویٹ ہونا تھے۔ شہرہ آفاق بخاری ایڈیٹوریم کو اس وقت دیکھا، دونوں کالجوں کے درمیان ایک سڑک ہے۔ ضلع کچہری کے سٹاپ پر اتر کر ہم بائیں مڑ جاتے اور گورنمنٹ کالج جانے والے دائیں ہو جاتے۔ سامنے ناصر باغ ہے جہاں کبھی کبھار ہی جانا ہوتا۔ پچھلے ہفتے برادرم سلمان عابد نے وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی کے ساتھ ایک نشست رکھی۔ شام ساڑھے چھ بجے کے قریب جونہی گیٹ میں داخل ہوا بارش شروع ہوگئی۔ گیٹ سے سڑک چڑھائی کی طرف جاتی ہے۔ دونوں طرف گھنٹے پیڑ، بائیں طرف سبز گھاس سے آسودہ اوول گرائونڈ، سامنے بلند محرابی عمارت اور تاریخی ندرت کا حامل ٹاور۔ پرندوں کی گھونسلوں میں بیٹھنے سے پہلے کی چہچہاہٹ اور بارش کے قطروں کے سوا صرف خاموشی تھی یا پھر ہرا رنگ شام کے ملگجے کے ساتھ اداس غزل گارہا تھا۔
بقول برادرم ڈاکٹر اختر سندھو ڈاکٹر اصغر زیدی کو منصب سنبھالے سات آٹھ ماہ ہوئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ادارے میں جڑ پکڑے کئی خرابیوں کو دور کیا، ایک نئی انتظامی ٹیم بنائی اور ادارے کا عظیم تشخص بحال کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ ڈاکٹر اصغر زیدی کا کہنا ہے کہ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو عالمی درجے کا تعلیمی ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی معاملات پر مکھیاں مارنے والے لوگ مدعو کرنے کی بجائے ان کالم نگاروں، اینکرز اور صحافیوں کو مدعو کیا جو پالیسیوں پر بات کرسکتے ہیں اور پالیسی ایشوز پر لکھتے ہیں۔ وائس چانسلر نے ابتدائی تعارف کے بعد ہمارے سامنے اپنے سٹریٹجک گولز رکھے۔ ان کے خیال میں تعلیمی معیار کو عالمی سطح تک لایا جانا چاہیے۔ ہائر ایجوکیشن کو محروم طبقات کے نوجوانوں کی رسائی میں ہونا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فارغ التحصیل طلباء کے ہاتھ میں صرف کاغذ کی ڈگری نہ ہو بلکہ وہ ایک ایسے تربیت یافتہ فرد کی حیثیت سے تعلیم مکمل کریں کہ ان کے لیے کاروبار یا ملازمت کا حصول وقت طلب نہ رہے۔ وہ تحقیق کے موجودہ معیار کو ناقص قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریسرچ کو کاروبار دوست ہونا چاہیے اور اس کا سماج پر مثبت اثر واضح ہو۔ طلباء اور اساتذہ کو موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اعلیٰ بین الاقوامی اداروں کا دورہ کرسکیں یا بیرون ملک ایکسچینج پروگرام کا حصہ بن سکیں۔ انہیں بین الاقوامی رینکنگ سسٹم میں پاکستانی یونیورسٹیوں کا نمایاں درجے پر نہ ہونے پر افسوس ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے انفراسٹرکچر اور اس کی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے بھی ڈاکٹر اصغر زیدی کے پاس کئی تجاویز ہیں۔
دردانہ نجم، اسداللہ، عمار چودھری اور شہزادہ عرفان سمیت تمام شرکاء نے پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی کے سٹریٹجک ویژن پر بعدازاں سوال کئے۔ میں نے وائس چانسلر صاحب کی توجہ اس جانب دلائی کہ گورنمنٹ کالج کی پہچان علمی و ادبی شخصیات اور کھیلوں کے حوالے سے زیادہ ہوئی، اس وقت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے ان دونوں شعبوں کو بری طرح نظر انداز کر رکھا ہے۔ صرف زیادہ نمبر لینے والا ذہین سمجھا جاتا ہے جبکہ ادب اور کھیلوں میں موجود ذہانت کو فراموش کردینے کی ایک غلط روش جاری ہے۔ آپ اس سلسلے میں کیا پالیسی متعارف کرانا چاہیں گے۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے تعلیمی امور اور تحقیق کے متعلق میرے سوال کا جواب دیا لیکن دوسرا حصہ تشنہ جواب دیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام ہال میں جمی یہ نشست ایک مقصدیت لئے ہوئے تھی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایک پرانے قدردان ڈاکٹر ظہیر احمد اب بھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کے سربراہ ہیں۔ کئی برس قبل میری کتاب، پاکستان میں گلاب، پر ڈاکٹر صاحب نے حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
حالیہ برس کورونا کی وبا نے تعلیمی ادارے بند کرنے پر مجبور کردیا۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا۔ مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ نہ اساتذہ کو اس طریقہ تدریس کی تربیت تھی نہ طلباء کے پاس مطلوبہ سہولیات، سکائپ، زوم، واٹس ایپ اور فیس بک پربیک وقت مشق کی گئی۔ یونیورسٹیوں میں ایجوکیشن سے متعلق الگ شعبے کام کر رہے ہیں۔ لاہور میں تو ایک خصوصی یونیورسٹی سرکاری شعبے میں کام کر رہی ہے۔ کہیں سے کوئی رہنمائی نہ مل سکی۔ معلوم ہوا کہ یونیورسٹیوں میں صرف سائنسی تحقیق ہی نہیں، سوشل سائنسز پر تحقیق بھی برائے نام ہے۔ یہ صورت حال جہاں حکومت سے بڑی سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل ایجوکیشن پر میگا منصوبہ شروع کرنے کا تقاضا کرتی ہے وہاں تحقیق اور عملی افادیت کے درمیان فرق کو کم کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے مالی وسائل بڑھائے جا سکتے ہیں، ایسی کئی تجاویز ڈاکٹر اصغر زیدی کے زیر غور ہیں۔ وہاں ای گورننس کا منصوبہ نافذ کیا جا سکتا ہے۔ لمز کی طرح صنعت کار اس عظیم درس گاہ کی سرپرستی پر بھی آمادہ ہو جائیں گے لیکن اس کالج سے صرف ان کو فائدہ ملے گا جن کی یادداشت اچھی ہوگی اور وہ زیادہ نمبر لے کر ڈاکٹر اصغر زیدی کے پاس آ جائیں گے۔ تخلیقی سوچ، یادداشت سے زیادہ قابل قدر ہوتی ہے اس صلاحیت کے مالک نوجوانوں کو سوسائٹی نے جب سے نظر انداز کیا ہے معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ ان کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے ضرو رکھلنے چاہئیں۔