Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ashrafia Ki Mushtarka Jaddo Jehed

Ashrafia Ki Mushtarka Jaddo Jehed

اس بار شہباز کو لکشمی چوک کے پانی میں کھڑا ہونے کا موقع نہ ملا تو وہ کراچی کے بلاول ہائوس جا پہنچے۔ جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے ان کا کہا سنا معاف کر کے ان کی توضع کی۔ ان کے لئے کراچی کے کئی چوراہوں میں پانی جمع کیا گیا تاکہ حضرت اس میں کھڑے ہو کر وفاقی حکومت کو کوس سکیں۔ اس ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس کا سب سے اہم نکتہ نیب کی کارروائیوں کے خلا ف مشترکہ جدوجہد پر اتفاق ہے۔

2004ء میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق شہید ملت لیاقت علی خان کی تدفین کے لئے استعمال کئے جانے والے تابوت کے پیسے اس کمپنی کو ادا نہیں کئے گئے جس نے 16اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی شہادت پر یہ تابوت حکومت کو فراہم کیا تھا۔ ایک انگریزی اخبار کی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے لیاقت علی خان کی شہادت پر ان کی تجہیزو تکفین اور دوسری رسومات کے لئے چھ ہزار روپے کی منظوری دی تھی۔ تابوت تیار کرنے والی کمپنی نے پانچ سو روپے کا بل بھیجا تو کراچی کی انتظامیہ تدفین کے بعد قل اور چہلم کی رسوم پر سارا بجٹ خرچ کر چکی تھی۔ یہ بل وزارت داخلہ، دفاع اور چیف کمشنر کراچی کے دفتر کے درمیان گردش کرتا رہا۔ فائل میں کمپنی کی طرف سے ادائیگی کا آخری بار مطالبہ شاید 1953ء کے ایک خط میں کیا گیا۔ اس کے بعد خاموشی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کمپنی کا مالک چل بسا ہو اور کمپنی بند ہو گئی ہو۔ فائل میں شہید ملت کے جلسہ گاہ میں آنے، ایک لاکھ افراد کے مجمعے، سٹیج پر تشریف لانے، افغانی نژاد کرائے کے قاتل سید اکبر کی فائرنگ اور پھر موقع پر موجود پولیس انسپکٹر کی اس قاتل کو 26گولیاں مارنے کی تفصیلات تک درج ہیں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کرائے کے قاتل کو "سپاری" کس نے دی تھی، اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد نئی حکومت نے ان کے تابوت کا بل ہی ادا نہ کیا بلکہ کمال یہ کیا کہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ خالی کرا کر گورنر سندھ کے عملے کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دی۔ اس دوران حکومت پاکستان کے کسی وزیر، وزیر اعظم کو یہ دھیان نہیں آیا کہ چلیں اور کچھ نہیں تو کم از کم شہید کے تابوت کی قیمت تو چکا دیں۔ اب ان ہی وزیراعظموں اور وزیروں کے جانشین مل کر یہ طے کر رہے ہیں کہ نیب کا کانٹا کیسے نکالا جائے۔

نچلے اور درمیانے طبقات کی مجبوری ہے کہ انہیں اپنی زندگی آسان بنانے کے لئے محنت کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی مالک و مختار اشرافیہ کی ایسی کوئی مجبوری نہیں، انہیں سب کچھ بغیر محنت کے مل جاتا ہے۔ اشرافیہ کی حاصلات دوسروں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اشرافیہ سمجھتی ہے کہ اس کے اثاثوں میں اگر اپنی محنت شامل ہو جائے تو یہ اثاثے ناپاک ہو جائیں گے۔ ہر طبقے کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں اور خود محنت کرنا طبقہ اشرافیہ کی اخلاقیات سے باہر ہے۔

افلاطون کے دور سے مشہور ہے کہ انصاف طاقتور کے مفاد کا نام ہے۔ یہ رئیلزم کے فلسفہ کے عین مطابق ہے۔ پاکستان کا سماج اشرافیہ کی گرفت میں ہے۔ طاقت اختیار کا مطالبہ کرتی ہے۔ ایک مسکین امام مسجد کو دولت میسر آئی تو اس نے بھی سیاست میں اپنا حصہ طلب کر لیا۔ تاجر کی دولت نے اسے ہر جماعت کے لئے مجبوری بنا دیا۔ بدمعاش کی قانون شکنی کو ہر کسی نے پذیرائی بخشی، مزدور یونین مزدوروں کا تو کچھ سنوار نہ سکیں مزدور لیڈر اشرافیہ کا حصہ ضرور بن گئے۔ اشرافیہ کی مجبوری ہے کہ اسے ریاست کے اختیار استعمال کرنے کے لئے عام لوگوں کو حقوق دینے کا ڈھونگ رچانا پڑتا ہے۔ یہ صورت اس وقت اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے جب ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے کے گھٹیا نعرے لگانے والے ریاستی اداروں کے خلاف اس وجہ سے متحد ہونے کا معاہدہ کرتے ہیں کہ یہ ادارے ان کی جیب سے عوام کی لوٹی رقوم نکلوانا چاہتے ہیں۔ نیب قوانین اور نیب کے انتظامی ڈھانے میں سو خامیاں ہوں گی لیکن یہ سچ ہے کہ پاپڑ والے، چھابڑی والے، اقامہ والے، ٹی ٹی والے اور منی لانڈرنگ والی جن وارداتوں کو نیب نے بے نقاب کیا ہے وہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔

شہباز شریف لاہور اور قصور کے کچھ پارٹی کارکنوں کو ساتھ لے کر گئے جنہوں نے کراچی میں ان کا استقبال کیا، ان میں سے کچھ چہرے مریم کے نیب پر حملے کے وقت بھی دکھائی دیئے تھے۔ شہباز شریف کی کراچی آمد کے پیچھے ایک اور مقصد دکھائی دیتا ہے۔ ن لیگ کو ہر اس راستے سے امید بندھ جاتی ہے جو جی ایچ کیو سے ملا سکتا ہو۔ حالیہ دنوں پیپلز پارٹی اور طاقت کے مرکز کے درمیاں کچھ رابطے ہوئے ہیں، یہ رابطے اگرچہ حکومت کے خلاف نہیں لیکن شہباز شریف آصف زرداری کو بڑا بھائی بنا کر گیٹ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر عوام، جمہوریت اور ریاست نہ کبھی تھی نہ ہوگی۔ اپنے خاندان کو بچانے کے لئے جو بن پایا وہ کر نے کو تیار ہیں۔

بلا شبہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام تاحال سامنے نہیں آ سکا لیکن ہم نے تو جمہوریت دیکھی ہی نہیں۔ وراثتی حکومتیں جمہوریت نہیں۔ جمہوریت میں تمام طبقات مل کر سوچتے ہیں، تحریک انصاف سمیت کون سی جماعت ہے جس نے اشرافیہ کو طاقتور نہ بنایا ہو۔ اشرافیہ کا ایک حصہ جب لوٹ مار سے بیزار ہو جاتا ہے تو وہ نئے کاریگر جمع کر کے نئی جماعت بنا لیتے ہیں جو تائب ہونے سے انکاری اشرافیہ کے خلاف ڈٹ جاتا ہے۔ سیاستدان ملتے ہیں تو جمہوری نظام کو مضبوط کرنے، غیر جمہوری راستوں کو بند کرنے، لاتعلق ہو چکے عوام کو ہمنوا بنانے اور نظام کو شفاف اور موثر بنانے کی تجاویز پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہمارے رہنما اپنی غلطیوں کے پانی میں کھڑے ہو کر دوسروں پر چھینٹے اڑاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہیں کہ قانون کو کس طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔